بنجر زمین کوآباد کرنے احکام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 01
احکام اقرار ہبہ کے احکام

سوال ۱۰۷۰۔ کچھ زمین، ہمیں اپنے باپ داد کی جانب سے وراثت کے ذریعہ، حاصل ہوئی ہیں، لیکن وہ حضرات کیسے ان زمینوں کے مالک بنے، یہ بات ہمارے لئے واضح نہیں ہے، کیا ہم لوگ دوسرے مال کی طرح ان زمینوں کو بھی میراث کے قانون کے مطابق، تقسیم کرسکتے ہیں؟

جواب: اگر تمہارے باپ داد نے، ان زمینوں کو آباد کیا تھا اور اس سے پہلے وہ زمینیں بنجر اور بے آباد تھیں تب تو میراث کے قانون کے مطابق وارثوں کو ملیں گی، اسی طرح اگر انھوں نے خریدا ہو تب بھی لیکن اگر کوئی سند ان زمینوں کے ماضی کے متعلق، موجود نہیں ہے اور کوئی گواہ بھی موجود نہیں ہے تب وہ زمین تمھارے باپ دادا کی ملکیت تھی اور میراث کے قانون کے مطابق تقسیم کرنا چاہیے۔

سوال ۱۰۷۱۔ کس شہر میں ، میونسپلٹی ادارے نے ایک زمین کو ، پارک بنوانے یا سبزہ لگوانے کی غرض سے، قانون کے مطابق، خریدلیا اور اس پر قبضہ بھی کرلیا ہے اور چونکہ وہ زمین، شہیدوں کے قبرستان کے قریب تھی لہٰذا اس وجہ سے (قانونی اجازت حاصل کرنے کے بعد) مذکورہ زمین کا کچھ حصّہ قبرستان سے مخصوص کردیا گیا یہاں تک کہ تقریباً پچاس شہیدوں کو وہاں پر دفن بھی کردیا گیا ہے، لیکن بعض لوگ اس جگہ کے مباح ہونے میں شک وتردید کرتے ہیں، اس مسئلہ میں شریعت کیا حکم ہے؟

جواب: چنانچہ مذکورہ زمین، بنجر اور بے آباد تھی تب تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن اگر زمین آباد تھی اور اس کا کوئی مالک بھی موجود تھا اس صورت میں بھی اگر میونسپلٹی کے ادارے نے اس زمین کو شرعی قوانین کے مطابق خریدا ہے، تی بھی کوئی اشکال نہیں ہے اور اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں،وہاں پر میّتوں کو دفن کرنا جائز نہیں ہے۔

سوال ۱۰۷۲۔ گذشتہ شاہی حکومت کے دور میں، ایک یہودی نے حکومت کی مدد سے کچھ بنجر زمین کو برابر کرایا تھا اور اس کے لئے تحصیل سے کاغذات بھی بنوالئے تھے، انقلاب کے آنے کے بعد وہ شخص مُلک سے بھاگ گیا، اس کا مال مصادرہ ہوگیا یہاں تک کہ اس زمین پر شہری آبادی سے متعلق ادارے نے قبضہ کرلیا، ادارے نے اس میں سے چند پلاٹ کو مسجد سے مخصوص کردیاہے جس پر اب مسجد تعمیر کردی گئی ہے، برائے مہربانی اس مسئلہ میں درج ذیل سوالوں کے جوابات عنایت فرمائیں:
الف) آپ فرمائیں کہ کیا فقط بنجر زمین کو برابر کرنا اور اس کے پلاٹ کاٹنا، ملکیت کا باعث ہوجاتا ہے اور کیا اس کا حکم، تحجیر کا حکم ہے؟
ب) کیا اس شخص کا ملک سے فرار کرنا، ملکیت سے اعراض کرنے کے حکم میں ہے یا نہیں؟
ج) اگر یہودی کی رضایت حاصل کرنا ضروری ہوا اس تک رسائی ممکن نہ ہو کیا اس صورت میں اس جگہ کے مومنین اس زمین کی قیمت اپنے ذمہ لے سکتے ہیں تاکہ جس وقت مالک مطالبہ کرے تو قیمت ادا کردیں یا نہیں؟
د) اگر کسی طرح بھی مالک کو تلاش کرنا اور اس کی رضایت حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو کیا جامع الشرائط مجتہد کی اجازت سے اس مسجد میں نماز پڑھی جاسکتی ہے؟

جواب: الف)مذکورہ کام،گھر یا مکان بنانے کے لئے آباد کرنے کا باعث اور ملکیت کا سبب ہے۔
جواب: ب)فرار کرنا، ملکیت سے اعراض کرنے کی دلیل نہیں ہے۔
جواب: ج)اگر وہ یہودی ان لوگوں میں سے تھا کہ جو اسلامی حکومت یا دین اسلام کے خلاف فعالیت کرتے تھے تب وہ کافر حربی میںشمار ہوگا اور اس زمین کو ملکیت میں لینا جائز ہے۔
جواب: د)گذشتہ جواب سے اس کا جواب بھی معلوم ہوگیا۔

سوال ۱۰۷۳۔ ایک گاؤں میں آبیاری کرنے کے لئے کچھ قدیمی نالیاں اور ان کے حوض تھے جن سے دسیوں سال سے استفادہ کیا جارہا تھا، ان میں سے بعض حوض امام حسین کے لئے وقف تھے، لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ان سے تقریباً ۷۰۰/میٹر دوری پر ایک کنواں بنادیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان حوضوں کاپانی کم اور یا بعض حوض بالکل ہی خشک ہوگئے ہیں، کیا مذکورہ حوض کے مالک یا وقف کے متولی حضرات کنویں کے استعمال سے منع کرنے کا حق رکھتے ہیں، نیز اس کنویں کے پانی سے نماز کے لئے وضو یا غسل کرنے کی کیا صورت ہے؟

جواب: مذکورہ حوض کو نقصان پہنچانے کی صورت میں، احتیاط واجب یہ ہے کہ وہاں پر عمیق گہرائی تک کنواں نہ بنایا جائے اور اگر کنواں بنادیا گیا ہے اور اس سے حوض کے مالکوں کو نقصان ہورہا ہے تو آپس میں مصالحت کریں وگرنہ اس پانی سے وضو وغسل کرنے میں اشکال ہے۔

سوال ١٠٧٤۔ کوئی شخص کسی گائوں یا دوسرے لوگوں کی زمین کی حدودمیں واقع (پنچائت) گرام کی زمین پر، عمارت بنالیتا ہے، شروع میں کوئی گائوں والا، اُسے اس کام سے منع نہیں کرتا لیکن عمارت کی تعمیر کے بعد، ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں، شریعت کی رو سے اس عمارت کا مالک کون ہے؟

جواب: گھر یا گائوں کی حدودمیںواقع، گرام کی زمین، گھر کے مالک یا گائوں والوں سے متعلق ہے اور کسی کے لئے اس زمین پر عمارت بنانا جائز نہیں ہے مگر ان لوگوں کی اجازت سے ۔

سوال ١٠٧٥۔ کیا گائوں سے متعلق گرام پنچائت کی زمین کو تقسیم کیا جاسکتا ہے؟ نیز کیا اس کا معیار، ہر شخص کی زمین کی مقدار ہے؟ یا اس کا معیار، بھیڑ بکریاں، ایندھن اور دیگر ضروریات کی چیزیں ہیں جو اُن کی ضروریات میں شامل ہیں؟

جواب: صاحب حق کی موافقت سے، تقسیم کیا جاسکتا ہے اور ہر شخص کے حصّہ کی مقدار وہی ہوگی جو اس مقام پر رائج اور مشہور ہے ۔

سوال ١٠٧٦۔ ایک گائوں میں، بعض لوگوں کے پاس کھیتی کی زمین نہیں ہے اور بعض کے پاس بہت کم ہے جبکہ انھوں نے گائوں کی مشترکہ (یعنی گرام پنچائت کی) زمین کوآپس میں تقسیم کرلیا ہے سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس بالکل زمین نہیں یا کم ہے، کیا یہ لوگ ان لوگوں کی چراگاہوں سے استفادہ کرسکتے ہیں جن کے پاس زیادہ زمین ہے؟

جواب: اگر تقسیم کرلی گئی ہے اور اس پر سب راضی ہیں تو اسی تقسیم کے مطابق عمل کریں اور ہر شخص کا حصّہ وہاں پر رائج اور مشہور کے مطابق ہے ۔

سوال ١٠٧٧۔ ایک جگہ پر مرسوم ہے کہ ہر شخص اپنے مویشیوں کے لئے، پہاڑ کے ایک معیّن حصّہ کا گھاس، جمع کرتا ہے، اس طرح کہ وہی شخص اس جگہ کے ایندھن کا مالک سمجھا جاتا ہے، اگر فرض کرلیا جائے کہ وہ شخص اس جگہ کے گھا س کا مالک ہے، کیا وہ شخص اس جگہ کے ایندھن کا بھی مالک ہوجائے گا؟

جواب: چنانچہ وہ علاقہ کسی معیّن آبادی اور گائوں کی مشترکہ حدود (یعنی گرام پنچائت کی) زمین میں شامل ہوتا ہے، تب تو وہاں کے رہنے والے اس علاقہ کی زمین کو آپس میں تقسیم کرنے کا حق رکھتے ہیں اور تقسیم کرنے کے بعد، ہر شخص کو گھاس کاٹنے کے لئے یا ایندھن جمع کرنے کا حق ہے لیکن اگر وہ علاقہ گائوں کی مشترکہ حدود میں شامل نہ ہو تو فقط اس صورت میں انھیں وہاں پر گھاس کاٹنے یا ایندھن جمع کرنے کا حق ہوگا کہ جب انھوں نے اس جگہ کو آباد، یا اس کے چاروں طرف نشان اور اس کو گھیر لیا ۔

سوال ١٠٧٨۔ بعض دیہاتی علاقوں میں رائج ہے کہ لوگ ، پہاڑجنگل اور چراگاہوں کو آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں، وہاں پر زراعت کرتے ہیں اور وہاں پر اُگے ہوئے گھاس سے استفادہ کرتے ہیں، اس تمہید کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے درج ذیل دو سوالوں کے جوابات عنایت فرمائیں:
الف) اگر کوئی شخص دوسرے شخص کی حدود میں جاکر وہاں سے گھاس کاٹلے ، کیا اس جگہ کا مالک اس گھاس کو ضبط کرکے اپنے یہاں لے جاسکتا ہے؟
ب) کیا ہر شخص اپنی معیّن جگہ کا گھاس بیچ کر اس کی رقم حاصل کرسکتا ہے؟

جواب: الف)پہلی صورت میں، اس جگہ کا مالک اس گھاس کو ضبط کرنے کا حق رکھتا ہے جسے اس کی اجازت کے بغیر کاٹا گیا ہے ۔
جواب: ب) دوسری صورت میں، گھاس کاٹنے کی اجازت کے عوض ، رقم حاصل کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

سوال ١٠٧٩۔ صوبہ فارس کے ''لامرد'' شہر کے گلّہ داروں کے علاقہ میں واقع بنجر زمین کا ایک حصّہ، بتاریخ ١٣٥٢٢٦ شمسی میں حکومت کی جانب سے مجھے دیا گیا تھا، جس کے عوض اسی زمانے میں، ڈیڑھ سو (١٥٠) تومان، نقد رقم اس زمین کو آباد کرنے کے لئے میں نے ادا کردی تھی، کیا اس طرح سے زمین حاصل کرنا، جو اس وقت میرے تصرف میں ہے، جائز اور حال حاضر میں، بندۂ ناچیز مذکورہ زمین کا مالک ہے؟

جواب: مذکورہ تصرّف کرنے سے آپ کو فوقیت واولویت کا حق حاصل ہوگا اور مذکورہ حق کے عوض، رقم وغیرہ لے کر آپ دوسرے کے حوالہ کرسکتے ہیں اور اگر آپ نے اس کو آباد اور زراعت کے قابل بنادیا ہے تب آپ اس کے مالک ہیں ۔

سوال ١٠٨٠۔ جو زمین پہلے، عام چراگاہ تھی یعنی اس میں مویشیوں کو چرانے کا سب کو حق تھا، اسلامی حکومت نے اس کو تقسیم کرکے ان لوگوں کو دے دیا جن میں شرائط پائے جاتے تھے، لیکن بعض لوگ، حکومت کی اجازت کے بغیر، خود ہی زمین کو جوت کر زبردستی مالک بن بیٹھے ہیں، کیا ان کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب: شرعی طور سے، ایسا کرنے میں، اشکال ہے ۔

سوال ١٠٨١۔ ڈھائی سو (٢٥٠) سے تین سو (٣٠٠) گھرانے، کسی جگہ سے، ایک محلہ میں آکر آباد ہوجاتے ہیں، کیا یہ لوگ، اس محلہ کی حدود اور مشترکہ زمین میں شریک ہوں گے؟

جواب: مقامی رسم ورواج کے مطابق عمل کریں ۔

 

احکام اقرار ہبہ کے احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma