تینتیسویں فصل وقف کے احکام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 01
ہبہ کے احکامبتیسویں فصل (نذر کے احکام)

سوال ۱۰۱۹۔ آج کی دنیا میں ، تعلیم وتربیت کی عظیم ذمّہ داریوں کو پورا کرنے کی راہ میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے مہم اداروںکی موقعیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ان اداروں کو عام لوگوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور وقف کی سنت حسنہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان اداروں کے وقف سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں اپنا نظریہ بیان فرمائیں؟

جواب: وقف ایک مہم اور اسلامی سنّت ہے، جو پیغمبر اکرم کے زمانے سے جاری رہی ہے، ائمہ معصومین علیہم السلام کے دور میں توجہات کا مرکز تھی اور اسلامی روایات میں اس کے سلسلے میں، بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے، تاریخ کے طولانی سفر کے دوران، وقف کے ذریعہ بڑے اہم کام انجام دیئے گئے ہیں اور بہت سے تعلیمی ادارے، اسپتال، دینی مدارس اور رفاہ عام کے لئے بہت سے اچھے کام اس (وقف) کے ذریعہ انجام دیئے گئے ہیں، پوری دنیا کے مسلمانوں نے وقف کی برکتوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور ابھی بھی فائدہ حاصل کررہے ہیں، امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں پڑھتے ہیں: کسی نے حضرت. سے دریافت کیا کہ مرنے کے بعد انسان تک کیا چیز پہونچ سکتی ہے؟ حضرت. نے ارشاد فرمایا: لوگوں کے درمیان نیک سنّت چھوڑجائے، جو شخص بھی اس سنت پر عمل کرے گا اس کا اجر وثواب اس کو بھی حاصل ہوگا،بغیر اس کے کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کے اجر وثواب میں کمی واقع ہو، دوسرے یہ کہ اپنی یادگار کے لئے، صدقہ (وقف) جاریہ، چھوڑجائے کہ جس کی برکتیں اور اثرات باقی رہیں اور یہ صدقہ جاریہ، دوسرے عالم یعنی آخرت میں، اس کے لئے باعث نجات ہوں گے، ٹھیک ہے کہ بعض ناآگاہ اوربے ایمان لوگوں کے وقف سے غلط استفادہ کرنے کی وجہ سے، دوسرے لوگوں کی نظر میں موقوفات کا چہرہ بدل گیا ہے، لیکن ہمیں اجازت نہیں دیناچاہیے کہ اس اسلامی، عظیم اور بابرکت سنت کو، جس کے ہزاروں فائدے اور نتیجہ، تاریخ میں ظاہر ہوئے ہیں، نااہلوں کے غلط استفادہ کی وجہ سے بھُلادیا جائے بلکہ غلط استفادہ کرنے سے روک تھام کرنا چاہیے اور یہ کام بالکل ممکن ہے، بہت سی مسجدیں، درسگاہیں، تعلیمی ادارے اور خصوصاً ائمہ اطہار علیہم السلام کے مقدس روضوں کی تعمیر اور ان کا آباد رہنا، انہی وقف اور موقوفہ چیزوں کی برکت سے ہے، آج کے دور میں اس اسلامی سنت حسنہ کو اور زیادہ اہمیت دی جائے، خصوصاً تعلیمی اور ثقافتی اداروں کے لئے اس سے استفادہ کیا جائے، یقینا جو بھی عالم اور دانشمند اس طرح کے اداروں سے تعلیم حاصل کرنے نکلے گا اور وہ عالم جو بھی خدمات انجام دے گا، اس کا فائدہ دنیا وآخرت دونوں میں وقف کرنے والوں کو پہونچے گا، خداوندعالم اسلام کی سچّی سنتوں کو زندہ کرنے والوں کو کامیاب کرے۔

سوال ۱۰۲۰۔ ایک شخص نے وقف کی ہوئی زمین کے ایک حصّہ کو، اس کے متولی سے کرایہ پر حاصل کرلیا، کرایہ پر لینے کے بعد، اس شخص نے موقوفہ زمین کے قریب پڑی ہوئی کچھ بنجر زمین کو بھی آباد کرلیا، اس صورت میں کیا متولی، مذکورہ آباد کی ہوئی زمین کو بھی وقف میں شمار کرسکتا ہے، یا کرایہ دار اور اجرت پر لینے والا شخص اس زمین کا مالک ہوگا؟

جواب: چنانچہ وہ زمین، وقف کی شرعی حدود کے اندر تھی تو اجرت پر لینے والے شخص کو، اُسے آباد کرنے کا کوئی حق نہیں تھا اور وہ مالک بھی نہیں ہوگا اور جب تک کرایہ کی مدت ختم نہیں ہوجاتی اس وقت تک کرایہ دار کو آباد کی ہوئی زمین سے استفادہ کرنے کا حق ہے، متولی اس سے واپس لے نہیں سکتا البتہ اس شخص کو کرایہ ادا کرنا چاہیے لیکن کرایہ کی مدت کے ختم ہونے کے بعد، کرایہ دار کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔

سوال ۱۰۲۱۔ کونسے طریقوں سے، وقف ہونا ثابت ہوجاتا ہے؟

جواب: وقف ہونا، یا اس کے محل وقوع میں مشہور ہونے یا معلوم ہونے سے ثابت ہوجاتا ہے اور یا شرعی بیّنہ (دو عادل گواہوں) کے ذریعہ ثابت ہوجاتا ہے اور وقف کا دعویٰ یا مشکوک وقف نامہ کے ذریعہ کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی، مگر یہ کہ وہ وقف نامہ، قابل اعتماد ہو۔

سوال ۱۰۲۲۔ کیا موقوفہ زمین یا پانی جو شخص کے اختیار میں ہے، تصرف کرنا کوئی خاص اور معیّن قسم کا تصرف کرنا ہے؟

جواب: اگر کسی موقوفہ زمین یا پانی کو اجارہ (کرایہ) پر لے لیا ہے اور کوئی خاص شرط بھی نہیں لگائی ہے تو جس طرح کا استفادہ کرنا چاہے کرسکتا ہے۔

سوال ۱۰۲۳۔ کسی موقوفہ کا وقف ہونا کس طرح سے ثابت ہوتا ہے، نیز کیا وقف کرنے والے کے دماغی توازن پر مبنی دعویٰ کی سنوائی ہوگی اور کیا وقف کا صیغہ عربی میں پڑھنا چاہیے؟

جواب: چنانچہ گواہ، وقف کی گواہی دیں، یا اسی مقام پر اس چیز کا وقف ہونا مشہور ہوگیا ہو تو اس پر وقف کا حکم جاری ہوگا اور وقف کرنے کے لئے صیغہ وقف میں عربی شرط نہیں ہے بلکہ ہر زبان میں جائز ہے، یہاں تک کہ اگر صیغہٴ وقف بھی نہ پڑھے بلکہ وقف کو ان لوگوں کے حوالہ کردے جن کے لئے وقف کیا ہے، تب بھی کافی ہے اور دماغی توازن کا دعویٰ کسی گواہ یا دلیل کے بغیر، قبول نہیں کیا جائے گا۔

سوال ۱۰۲۴۔ وقف کی آمدنی کن جگہوں پر خرچ ہونی چاہیے نیز اس (وقف) کے مصرف کو کس صورت میں بدلنا جائز ہے؟

جواب: مسلّم قانون اور مشہور روایت الوقوف علی حسب ما یوقفہا اہلہا کے مطابق، موقوفہ کی آمدنی کو اس چیز میں صَرف کرنا چاہیے، جس کے لئے وقف نامہ میں صراحت سے بیان ہوا ہے، مگر یہ کہ وقف نامہ کی ایک یا چند باتیں قابل عمل نہ ہوں، جیسے ہمارے زمانے میں تانبے کے برتن، جنہیں دوسرے برتنوں سے بدل لیا جاتا ہے۔

سوال۱۰۲۵۔ ایک شخص نے اپنے مال کی کچھ مقدار کو وقف خاص کی صورت میں وقف کردیا ہے یعنی اپنے بچوں کے لئے وقف کردیا ہے، کیا یہ وقف صحیح ہے؟

جواب: اگر وقف کے دوسرے شرائط موجود ہیں تو اس صورت میں وقف صحیح ہے۔

سوال ۱۰۲۶۔ وقف کی ہوئی، کھیتی کی زمین کو کس صورت میں بیچنا جائز ہے؟

جواب: وقف کی اصل زمین کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اگر کاشت کے قابل نہ ہو اور عمارت کے مطلب کی ہو تب بھی اس زمین کو عمارت کے لئے کرایہ پر دیا جاسکتا ہے مگر یہ کہ کسی عنوان سے بھی اس زمین سے استفاد ہ نہ کیا جاسکے اور فروخت کرنے اور بہتر میں تبدیل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو (یعنی اس صورت میں فروخت کیا جاسکتا ہے)

سوال ۱۰۲۷۔ سیادت اور وقف کے ثابت ہونے کے لئے ایسی شہرت کو، جس سے اطمینان حاصل ہوجائے، کیا آپ کا فی سمجھتے ہیں؟

جواب: کافی ہے۔

سوال ۱۰۲۸۔ اگر کوئی شخص، کسی وقف کے بارے میں جو پانچسو (۵۰۰) سال پہلے وقف ہوا ہے اور اس پر عمل بھی ہوا ہے، اب شک کرے کہ وقف کرنے والے کو وقف کرنے کا حق تھا بھی یا نہیں، کیا آپ اس طرح کے شک کو باطل سمجھتے ہیں؟

جواب: اس میں شک کا کوئی نہیں ہے۔

سوال ۱۰۲۹۔ درج ذیل عبارت میں، کیا وقف کرنے والے شخص کا مقصد عمر کے اعتبار سے بڑا ہونا ہے یا علم کے اعتبار سے بزرگ ہونا؟ عبارت یہ ہے:اس (وقف) کی تولیت حاصل ہوگی پہلے تو خود مجھے جب تک میں زندہ ہوں اور اس کے بعد سید غیاث الله کو جو وقف کرنے والے کی ارشد یعنی بڑی اولاد ہیں اور اس کے بعد وقف کرنے والے کی اولاد میں سے بڑے بیٹے کو اور اس کے بعد اولاد کی اولاد میں یکی بعد دیگری ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں ، بڑے بیٹے کو اور اگر پہلے طبقہ میں کوئی رشید یعنی عاقل وسمجھدار نہ ہو تب بھی، اس کی نسل کے جس طبقہ میں بھی، رشید یعنی عاقل اور سمجھدار ہوگا اسی کو اس وقف کی تولیت کا حق ہوگا

جواب: فرزندکا ارشد یعنی بڑا بیٹا ہونے سے واقف کی مراد، عمر کے لحاظ سے بڑا ہونا ہے، جس کی شرط یہ ہے کہ وہ عقلمند اور وقف کی تولیت کے لئے کافی ہوش وہواس رکھتا ہو اور اگر سِن کے لحاظ سے بڑا بیٹا وقف کو چلانے کے لئے کافی مقدار میں، عقل وسوچ نہ رکھتا ہو تو تولیت دوسرے شخص کو ملے گی جس میں یہ شرط موجود ہو۔

سوال ۱۰۳۰۔ ایک نیک رئیس آدمی کے ذریعہ، مسجد کی ذاتی جگہ پر ایک مکان تعمیر کیا گیا ہے، مذکورہ مکان کو شرعی طور پر وقف کردیا گیا ہے اس شرط کے ساتھ کہ اسی مسجد کے امام جماعت، اس مکان میں ساکن ہوں، کیا اسلام کی مقدس شریعت اس مکان میں دوسرے شخص کو رہنے کی اجازت دیتی ہے نیز امام راتب کے ساکن نہ ہونے کی صورت میں کیا شریعت کی رو سے ان کا اجازت دینا جائز ہے؟

جواب: حتی الامکان، مسجد کے امام جماعت کو اس مکان سے استفادہ کرنا چاہیے اور اگر ممکن نہ ہو تو اس مکان کو کرایہ پر دیدں اور اس کا کرایہ امام جماعت کے لئے استفادہ کیا جائے اور اگر مسجد کے امام جماعت کو ضرورت نہ ہو تب مسجد کی دوسری ضرورتوں میں استعمال کیا جائے۔

سوال ۱۰۳۱۔ دو مسجدیں پاس پاس بنی ہوئی ہیں، ان کے درمیان صحن ہے جو دونوں مسجدوں میں کسی سے بھی متعلق نہیں ہے، کیا دونوں مسجدوں کے سامان کو دونوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے مثال کے طور پر ایک مسجد کے قالین کو دوسرے مسجد میں منتقل کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

جواب: جائز نہیں ہے مگر یہ کہ ثابت ہوجائے وہ سامان وقف عام ہوا ہے ۔

سوال ۱۰۳۲۔ بعض چیزوں جیسے قدیم زمانے کے برتن، مسجد کے لئے وقف ہوئے ہیں جن کا استعمال اب معمول نہیں ہے، کیا اس قسم کے برتنوں کو فقط اس وجہ سے کہ اب ان کو استعمال کرنا رائج نہیں ہے فروخت کیا جاسکتا ہے اور ان کی رقم سے ان کے جیسے برتنوں یا دوسری چیزوں کو مسجد کے لئے خریدا جاسکتا ہے؟

جواب: اگر اب قابل استعمال نہیں ہیں تو ان کو ان ہی کے جیسے دوسرے برتنوں میں بدلا جاسکتا ہے اور اگر مسجد کو ظروف کی ضرورت نہیں ہے تب ان کی رقم کو مسجد کی دوسری ضرورتوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

سوال ۱۰۳۳۔ مسجد کے لئے فرش قالین وغیرہ، وقف یا خریدے گئے ہیں اور ابھی قابل استعمال ہیں، لیکن چونکہ یہ فرش قالین وغیرہ ایک دوسرے کے میل کے نہیں ہیں یعنی ایک قالین کی وضع قطع دوسری قالین وغیرہ سے جدا ہے، کیا اس قسم کے فرش اور قالینوں کو فروخت کرکے ان کے بدلے دوسرے اچھے جو ایک ددسرے کے میل کے ہوں اور ان سے خوبصورت بھی ہوں، خریدے جاسکتے ہیں؟

جواب: وقف شدہ فرش اور قالین کو فروخت نہیں کیا جاسکتا، مگر یہ کہ قابل استعمال نہ ہوں۔

سوال ۱۰۳۴۔ کبھی کبھی، مسجد کے لئے فرش قالین یا دوسری چیزیں وقف کی جاتی ہیں اور اسی وقف کے وقت سے یا بعد میں اس مرحلہ پر پہونچ جاتی ہیں کہ عام لوگ اور ماہرین فن کے نظریہ کے مطابق، ان چیزوں کا استعمال جائز نہیں ہے اور ضرور فروخت کردینا چاہیے وگرنہ وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کی قیمت کم ہوتی رہے گی، اس قسم کے قالین یا دوسری چیزوں کے سلسلہ میں سوال یہ ہے کہ کیا ان کو فروخت کرکے ان کی جگہ مسجد میں استعمال کے لئے دوسرے قالین یا دوسری چیزیں، خریدی جاسکتی ہیں؟

جواب: اگر اب اس وقت قابل استعمال نہیں ہیں، یا ان کے برباد ہونے کا باعث ہو تو ان کو ان کے مثل میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

سوال ۱۰۳۵۔ جو چیزیں مسجد میں دی جاتی ہیں ممکن ہے کبھی وہ وقف کے عنوان سے دی جائیں اور کبھی تملیک یعنی مسجد کی ملکیت کے عنوان سے ، کیا ان دونوں عنوانوں کے شرعی احکام جدا جدا ہیں؟

جواب: جی ہاں مختلف ہیں، جہاں پر تملیک کے عنوان سے ہے وہاں پر کام آسان ہے اور مسجد کی مصلحت کے مطابق اس کو تبدیل کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر وقف ہے تو جب تک اس موقوفہ چیز کا استعمال ختم ہونے کی حد تک نہ پہونچ جائے اس وقت تک اس کو تبدیل کرنا جائز ہے۔

سوال ۱۰۳۶۔ جو چیزیں، پہلے زمانے میں مسجد میں دی گئی ہیںاور فرض یہ ہے کہ وقف اور تملیک (یعنی مسجد کی ملکیت قرار دینے) کے احکام مختلف ہیں، اب اگر ہمیں معلوم نہ ہو کہ وہ چیزیں، مسجد کے لئے وقف ہوئی ہیں یا مسجد کی ملکیت میں دی گئی ہیں، اس صورت میں ان چیزوں پر کونسا حکم جاری ہوگا؟

جواب: احتیاط واجب یہ ہے کہ ان کے اوپر وقف کے احکام جاری کئے جائیں۔

سوال ۱۰۳۷۔ یہ بات معلوم ہونے کے لئے کہ وقف ہوا ہے یا تملیک، کیا اس سلسلہ میں دونوں صورتوں کے لئے کوئی خاص جملہ کہنا چاہیے یا ہدیہ دینے والے کی فقط نیت کافی ہے؟

جواب: نیت کافی ہے اور عمل سے معاطاتی (یعنی لفظ کے بغیر معاملہ) عمل کا پہلو ظاہر ہوجاتا ہے۔

سوال ۱۰۳۸۔ اگر بعض چیزیں جیسے قالین وغیرہ کو چند مختلف لوگوں کی مشترک رقم سے خریدا جائے اور رقم دینے والے بعض لوگوں کی نیت، وقف اور بعض لوگوں کی نیت، تملیک ہو اس طرح کی صورت میں، مذکورہ طریقہ سے خریدی ہوئی چیزیں وقف میں شمار ہوں گی یا نہیں؟

جواب: ان میں سے ہر ایک کا اپنا حکم ہے اور اگر جدا ہونے کے قابل نہیں ہیں، تب طبیعی طور پر ان چیزوں پر وقف کے احکام جاری ہوں گے۔

سوال ۱۰۳۹۔ اگر وقف یا تملیک کرنے والا شخص ایک مجتہد کی اور مسجد کے کام انجام دینے والے حضرات (کمیٹی کے لوگ) دوسرے مجتہد کی تقلید کرتے ہوں، چنانچہ مذکورہ مسائل کے سلسلے میں، ان دونوں مجتہدوں کے نظریات، مختلف ہوں، تب کس کے نظریہ کو فوقیت دی جائے گی؟

جواب: متولی اور کام کرنے والوں کے مجتہد کا نظریہ، شرط ہے۔

سوال ۱۰۴۰۔ ان موقعوں پر کہ جب وقف شدہ یا مسجد کی ملیکت میں دی گئی چیزوں کو ہمارے لئے فروخت کرنا جائز ہو، کیا اس رقم سے مسجد کی ضرورت کی دوسری چیزوں کو خرید سکتے ہیں، یا فقط انہی کے جیسی چیزوں کو خریدا جاسکتا ہے؟

جواب: ضرورت کی صورت میں ان ہی کے جیسی چیزوں کا خریدنا مقدّم ہے۔

سوال ۱۰۴۱۔ مذکورہ مسئلہ میں اگر قالین کا خریدنا ضروری ہوجائے، تب اگر کوئی ہاتھوں سے بنی ہوئی قالین کے بجائے مشین سے بنی ہوئی قالین، یا میٹ کو خریدے تو کیا ایسا کرنے میں شرعاً اشکال ہے؟

جواب: جو زیادہ بہتر ہو اس کا انتخاب کریں۔

سوال ۱۰۴۲۔ جو چیزیں مسجد میں دینا چاہتے ہیں ، (وقف کریں یا ملکیت میں دیں یعنی مسجد کو مالک بنادیں) اگر وہ چیزیں پرانی ہوں یا مناسب نہ ہوں یا اس وقت ان کا استعمال رائج نہ ہو یا خراب ہوگئی ہوں کیا ان صورتوں میں اس طرح کی چیزوں کو مسجد میں قبول کرنے سے منع یا انکار کیا جاسکتا ہے؟

جواب: مسجد کے لئے ہدیوں اور تحفوں کو قبول کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر وقف کردیا گیا ہو یا مسجد کو اس چیز کا مالک بنادیا گیا ہو تو اپنے وظیفہ کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔

سوال ۱۰۴۳۔ مسجد اور امام باڑے کے مال کو استعمال کرنے کا کیا حکم ہے۔

جواب: اسی مسجد یا امام باڑے کی ضرورتوں کے علاوہ جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ وقف کرنے والے شخص نے صراحت سے بیان کیا ہو کہ ان چیزوں کا استعمال عام ہے۔

سوال ۱۰۴۴۔ وقف کرنے والے دو حضرات کی وقف کی ہوئی علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، ان میں سے ایک موقوفہ چیز کا خرچ کم ہے لیکن آمدنی زیادہ ہے، مثال کے طور پر اسّی فیصد آمدنی زیادہ ہے جبکہ دوسری موقوفہ کی آمدنی کم ہے اور خرچ زیادہ ہے اس صورت میں کیا، مقامی ادارہ اوقاف یا متولّی کو، جس کے زیر نظر دونوں موقوفہ چیزوں کا نظم ونسق چلتا ہے، ایک وقف کی اضافی آمدنی کو دوسرے وقف کے لئے (البتہ تمام شرعی قوانین کی رعایت کرتے ہوئے) خرچ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟

جواب: اگر پہلے وقف کا مصرف، عام ہو کہ دوسرے وقف کو بھی شامل ہوجائے تب کوئی ممانعت نہیں ہے۔

سوال۱۰۴۵۔ موجودہ حالات کوبھی دیکھنا ہے اور حکومت اور ملّت اسلامیہ کی مصلحتوں کی بھی پیش نظر رکھنا ہے اور وقف کرنے والے شخص کی اصل نیّت کا بھی لحاظ رکھنا ہے، اب سوال یہ ہے کہ وقف کے استعمال کو، اسلامی حکومت کے تمام جاری پرورگراموں کے ساتھ ہماہنگ کرنے کی غرض سے ہمراہ ہوجائے، کیا واقف کے نظریات پر عمل کرنے میں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے؟

جواب: اگر ممکن ہو تو وقف نامہ کے مطابق عمل کیا جائے اور اگر ممکن نہ ہو تب جو کچھ بھی وقف نامہ اور واقف کے نظریہ کے قریب ہو، اس پر عمل کیا جائے۔

سوال ۱۰۴۶۔ کیا عمل در آمد کرنے اور وقف کے طریقہٴ کار پر عمل کرنے میں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے؟

جواب: گذشتہ جواب سے واضح ہوگیا ہے۔

سوال ۱۰۴۷۔ ملک کی سطح پر بہت سے وقف موجود ہیں، جن کے بارے میں یا تو معلومات نہیں ہیں اور یا وقت کے گذرنے کےساتھ وہ وقف بھی ختم ہوگئے ہیں، یہ دونوں قسم کے وقف پتہ چلنے اور دوبارہ زندہ ہونے کے صورت میں اسلامی وطن کے لئے بہت زیادہ آمدنی کا باعث ہوں گے، کیا اس صورت میں موجود وقفوں کی آمدنی کے استعمال میں تھوڑی ردّوبدل کرکے مذکورہ لاپتہ وقفوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں؟

جواب: ان وقفوں کی آمدنی سے جو عام استعمال کے لئے وقف ہوئے ہوں، استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

سوال ۱۰۴۸۔ وقف جیسی سنّت حسنہ کو مزید رائج کرنے کے لئے، ضروری ہے کہ کچھ رقم ادارہ اوقاف کے عہدہ داروں اور کارکنوں پر خرچ کی جائے کہ طبیعی طور پر جس کا تذکرہ کسی وقف نامہ میں نہیں ہوا ہے، کیا موقوفہ چیزوں کی خصوصاً وہ وقف جن کا تصرف کرنے پر متولی، ادارہ اوقاف ہے، آمدنی کے طریقہٴ استعمال میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے کچھ رقم کو مذکورہ اخراجات کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے؟

جواب: یہ بات پیش نظر رکھتے ہوئے کہ اس طرح کے کام اگر دقّت اور احتیاط سے کئے جائیں تو اچھے کاموں میں شمار کئے جاتے ہیں، لہٰذا ان اوقاف سے کہ جن کا مصرف، عام ہے ، استفادہ کیا جاسکتا ہے مگراس شرط کے ساتھ کہ ادارہ اوقاف کے ذمہ دار حضرات، اپنے وظیفہ پر دقت کے ساتھ عمل کریں۔

سوال ۱۰۴۹۔ ایک مسجد کی کمیٹی کے افرد کہ مسجد کے عام استعمال کے لئے بنائے گئے بیت الخلاء کی نالی، پائپ لائن کے ذریعہ ایک متروکہ قبرستان سے ، جس میں تقریباً ۳۵/سال سے کوئی میت دفن نہیں کی گئے ہے اور وہاں کے ظاہر آثار اور شواہد پر بھی قرستان کے ہونے پر دلالت نہیں کرتے، گذارنا چاہتے ہیں،بغیر اس کے قرستان کی مٹی کو نجاست مس کرے، کیا یہ کام جائز ہے؟

جواب: اشکال سے خالی نہیں ہے مگر یہ کہ قبرستان کے آثار کلی طور پر ختم ہوجائیں اور زمین بھی موقوفہ نہ ہو۔

سوال ۱۰۵۰۔ چند مالدار نیک لوگوں نے سن ۱۳۴۹ ہجری شمسی (تقریباً سن ۱۳۹۱ھ ق) میں ایک زمین، بیعنامہ کے ساتھ اور مالک کے اس دعوے کے ساتھ کہ یہ زمین، موقوفہ نہیں ہے، مسجد بنانے کے لئے، خریدی تھی کہ اب اس زمین پر مسجد بھی حضرت ابوافضل کے نام سے تعمیر ہوچکی ہے نیز اس سے استفادہ بھی کیا جارہا ہے لیکن لوگوں کے درمیان یہ مشہور ہے کہ اس مسجد کی زمین وقف تھی، لہٰذا وقف کے شرعی مسائل کو ملحوظ رکھتے ہوئے مسجد کی کمیٹی نے اس مسئلہ کی چھان بین اور جستجو کرنے کے لئے اقدامات کئے،جستجو اور تحقیق کا نتیجہ حضرت عالی کی خدمت میں پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ مسلّم طور پر مسجد کی زمین، حاج محمد علی کی وقف کی ہوئی ہے لیکن وقف کی نوعیت، مشخص نہیں ہے، بعض لوگوں کے اظہارکے مطابق حاج محمد علی کا وقف، علی الاولاد ہے جبکہ بعض لوگوں کو اس طرح کے وقف میں شک ہے اور امکان ہے کہ وقفِ شاہ نجف ہو (لیکن قوی امکان اس بات کا ہے کہ حاج محمد علی کا وقف، وقف علی الاولاد ہو) آپ سے درخواست ہے کہ مسجدمیں مذہبی سرگرمیوں کے سلسلہ میں اہل محلہ کا وظیفہ بیان فرمائیں؟

جواب: اگر تم نے تحقیق کی ہے اور وقف کا مصرف واضح نہیں ہوا ہے تو اس زمین کے لئے ایک مناسب کرایہ منظور کریں اور اس کرایہ کی رقم کے آدھے حصہ کو امیرالمومنین علیہ السلام کی مجالس میں خرچ کریں اور باقی آدھی رقم کو جن کے لئے وقف ہوا ہے یعنی اولاد کو پہونچادیں، مگر یہ کہ وہ لوگ مسجد کی وجہ سے کرایہ کی رقم سے صرف نظر کرنے پر راضی ہوجائیں اور ان میں کوئی نابالغ بچہ بھی نہ موجودہو۔

سوال ۱۰۵۱۔ ایک شخص اپنی کچھ جائداد کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے لئے وقف کرنا چاہتا ہے کہ جب تک وہ خود زندہ ہے اس آمدنی کا وہ خود مالک ہے اور اس کے مرنے کے بعد، امام. کا مال ہوجائے گا، کیا اس طرح سے وقف کرنا صحیح ہے؟

جواب: انشاء الله صحیح ہے۔

سوال ۱۰۵۲۔ ایک شخص کو شیراز کے دارالترجمہ میں دفن کردیاگیا تھا اور چونکہ اس شخص نے سیر سلوک کی وادی میں کام کیا تھا لہٰذا (اس کی زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی) اس کے طرفدار پائے جاتے ہیں ، اب کچھ عرصہ پہلے اس کے چاہنے والوں نے اس وجہ سے کہ وہ خواجہ شیراز کو چاہتا تھا، حافظ شیرازی کے مقبرہ ہی کی طرح کا اس کے لئے ایک مزار بناکر اس کی قبر پر رکھ دیا ہے، جو اس کے پیروکار لوگوں کے لئے زیارتگاہ بن گیا ہے، اب چونکہ بہت سے لوگ اس کام سے حسّاس ہوگئے ہیں، انھوں نے اعتراض کیا اور اس دفتر سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کو ختم کردیں لہٰذا آپ سے التماس کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں اپنا مبارک نظریہ بیان فرمائیں؟

جواب: عمومی قبرستان میں جو وقف عام ہوا ہے، اس طرح کا تصرف جائز نہیں ہے۔

سوال ۱۰۵۳۔ ایک زمین وقف ہے اور اس میں زراعت کرانے کے لئے اس کی کچھ مٹی اٹھانا ضروری ہے تاکہ اچھی کھیتی ہوسکے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب: کوئی اشکال نہیں ہے۔

سوال ۱۰۵۴۔ بحرین کے ایک عالم دین نے، پچاس سال پہلے عزاداری کے لئے ایک جگہ وقف کی تھی تاکہ اس کی آمدنی سے عزاداری کی جائے، اپنی زندگی میں وہ خود متولی تھے اور ان کے انتقال کے بعد، بحرین کے ادارہ اوقاف سے کچھ لوگوں کو متولی کے عنوان سے معیّن کیا گیا ہے اُن متولّیوں کا دعویٰ ہے کہ انھیں مجتہدین کی جانب سے بھی اجازت ہے حالانکہ مشہور یہ ہے کہ وہ لوگ قابل اعتماد نہیں ہیں، اس تمہید کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمارے دوسوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:

الف) کیا یہ وقف اپنے وقف ہونے کی حالت پر باقی ہے اور ان کو حاکم شرع کے زیر نظر رہنا چاہیے یا مجہول المالک (جس کے مالک کا پتہ نہ ہو) کے حکم میں تبدیل ہوجائے گا چونکہ ان کے موجودہ متولی غیر شرعی ہیں؟

جواب: الف) اس طرح کے مسائل سے وقف ختم نہیں ہوتا بلکہ حاکم شرع سے اجازت لینا چاہیے۔

ب) اگر وقف کی حالت پر باقی رہیں تو اس صورت میں ان کی آمدنی کو، وقف شدہ چیزوںکے علاوہ دوسری جگہوں پر جیسے امام باڑے کی دوبارہ تعمیر یا امام باڑے سے متعلق کوئی عمارت بنانے کے لئے استعمال کرنا تاکہ امام باڑے کی آمدنی میں اضافہ ہوجائے، کیاایسا کرنا جائز ہے؟

جواب: ب)موقوفہ کی آمدنی کو وقف کے مطابق خرچ کرنا چاہیے، جیسا کہ یہی دستور روایات میں وارد ہوا ہے اور وقف کے قریب کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ اس مورد میں مصرف کرنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں جو مصرف وقف کے مصرف ہیں، ان میں استعمال کرنا چاہیے۔

سوال۱۰۵۵۔ ایک وقف کیا ہوا مکان موجود ہے جو رحیم آباد خور میز (مہریز) کی ملکیت کی آمدنی سے ہے اور ہر سال اس میں مجالس منعقد ہوتی ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے اس مکان کا وقف نامہ جس سے معلوم ہوسکے کہ کس طرح کا وقف ہے، موجود نہیں ہے کہ جس کے مطابق اُسے درج کراسکیں، البتہ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے ، ان میں سے بھی بعض کہتے ہیں کہ تیسرا حصہ وقف ہے اور بعض بزرگ کہتے ہیں کہ یہ وقف علی الاولاد ہے، اب میں جو اس کا شرعی متولی ہوں، اس کو درج کرانے کے سلسلے میں مشکل سے دوچار ہوں کہ کس طور پر اس کو درج کراؤں تاکہ شرعی ذمہ داری مجھ پر باقی نہ رہے، اس سلسلہ میں میرا وظیفہ کیا ہے؟

جواب: آپ کے لئے اس وقف کی آمدنی کو دو یا تین مصرفوں میں جن کا امکان پایا جاتا ہے برابر طور پر تقسیم کرنا ضروری ہے۔

سوال ۱۰۵۶۔ وقف کی آمدنی و استعمال کرنے والے بعض لوگ تو بے بضاعت اور صاحب اولاد غریب لوگ ہیں اور بعض حضرات، شہیدوں کے وارث اور ایثار وقربانی پیش کرنے والے حضرات ہیں، کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ادارہ اوقاف واقف کے نظریہ کے علاوہ، موقوفہ کے کرایہ کی رقم میں کچھ تخفیف کا قائل ہوجائے ؟

جواب: فقط دوصورتوں میں جائز ہے:

الف) جب کہ مذکورہ کرایہ دار، موقوفہ کے ہی مصرفوں میں سے ہوں (یعنی جن کے لئے وقف کیا ہے وہ کرایہ دار بھی انھی لوگوں میں شامل ہوں)۔

ب)جبکہ دوسرے وقف جو اُن کے شامل حال ہوسکتے ہوں، سے آمدنی حاصل کی جائے اور مذکورہ وقف کے مصرفوں میں استعمال کی جائے۔

سوال ۱۰۵۷۔ ایک زمین، اولاد نرینہ کے لئے وقف ہوئی ہے، کیا وہ لوگ جن کے لئے وہ زمین وقف ہوئی ہے اس زمین کو دوسری غیر وقف زمین سے بدلہ کرسکتے ہیں، چونکہ اس دوسری زمین سے زیادہ منافعہ اور ان لوگوں کے لئے زیادہ استفادہ کا امکان ہے؟

جواب: مذکورہ مسئلہ کے فرض میں، زمین کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے اور اگر معاملہ کریں تو معاملہ باطل ہوگا مگر اس وقت کہ جب اس کا نفع بالکل ہی خم ہوجائے اور ان لوگوں کے لئے (جن کے لئے وقف ہوئی)، کسی کام کی نہ رہے اور یا ان کے درمیان، شدید اختلاف اور لڑائی جھگڑے کا باعث ہوجائے اور ان کے اختلاف کو ختم کرنے کے لئے اس زمین کو تبدیل یا تقسیم کرنے پر مجبور ہوجائیں۔

سوال ۱۰۵۸۔ ایک مسجد کی مشرقی جانب ایک نہر اور کھیتی کو سیراب کرنے کے لئے پانی کی نالیاں ہیں، پہلے زمانے میں وہاں پر پن چکّی تھی جہاں پر مقامی لوگ آٹا پیستے تھے، اس پن چکّی کی آدھی آمدنی وقف ہے اور مختلف عنوانوںسے خرچ کی جاتی ہے، جدید صنعت ٹیکنالوجی کی وجہ سے پن چکی اور اس کی پانی کی حوض، خرابہ میں بدل گئی اور بھر گئی ہے فقط زمین کی صورت میں باقی ہے، جو لوگوں کی آمد ورفت کے راستہ کا حصہ بن گئی ہے اور آئندہ زمانے میں گاؤں کی تعمیرات کے زمرہ میں شامل ہوکر آبادی کا حصہ ہوجائے گی نیز مسجد کی عمارت اور قریب کے گھروں کو رطوبت دینے اور اسی طرح مسجد کا نہر کی سطح سے اونچا یا نیچا ہونے کی وجہ سے، نہر کے گذرنے کی پہلی جگہ کا چار پانچ میٹر بدلنا ضروری ہے کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب: چنانچہ پن چکی کلی طور پر منہدم ہوگئی ہے اور موجودہ نہر، آس پاس چاروں طرف کے لئے نقصان اور ضرر کا باعث ہے تو اس کے راستہ کو بدلنا جائز ہے۔

سوال ۱۰۵۹۔ اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی نافرمانی کی وجہ سے اپنی زمین اور رہائشی مکان کو قلبی رضایت کے بغیر جبکہ صیغہ وقف کو بھی جاری نہ کیا ہو ، وقف کردیا ہو تاکہ اپنے نافرمان بچوں کو میراث سے محروم کردے، اس کے بعد مربوط ادارے میں جاکر اس کی تولیت کو تمام عمر تک اپنے سے مخصوص کردے، اس کے کچھ عرصہ کے بعد پشیمان ہوجائے اور دس سال تک ، وقف کے مطابق عمل بھی نہ کرے، اس کے بعد اس کا انتقال بھی ہوجائے اور اس کے وارثوں کو اس جائداد کی شدید ضرورت بھی ہو، کیا اس طرح سے وقف کرنا صحیح ہے؟

جواب: مذکورہ وقف بظاہر صحیح ہے اور اس پر عمل کرنا چاہیے اور مذکورہ پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

سوال ۱۰۶۰۔ ایک زمین کو امام بارگاہ تعمیر کرنے کے لئے، ہدیہ کیا گیا ہے لیکن اس مقام پر پہلے سے امام بارگاہ ہونے کی وجہ سے، امام بارگاہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، کیا اس زمین پر دارالقرآن کی تعمیر کی جاسکتی ہے؟

جواب: ہدیہ دینے والوں کی اجازت سے جائز ہے۔

سوال ۱۰۶۱۔ کیا ان حوضوں کو جو پہلے اہل محلہ کے لئے قابل استعمال تھیں لیکن اب ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مہندم کرکے ان کی جگہ پر دارالقرآن تعمیر کردینا جائز ہے؟

جواب: احتیاط یہ ہے کہ اس جگہ کو اس کام کے لئے کرایہ پر حاصل کریں اور ان کے کرایہ کی رقم کو غریبوں کے لئے پانی کی پائپ لائن لگوانے میں خرچ کریں۔

سوال ۱۰۶۲۔کیا منہدم ہوئی مسجد کی مفاتیح اور قرآن وغیرہ سے، شہر یا گاؤں کی دوسری مسجد میں استفادہ کرنا جائز ہے؟

جواب: اگر مستقبل قریب میں اس کی دوبارہ تعمیر نہیں ہوتی تب تو اسی شہر یا گاؤں کی دوسری مسجدوں میں لے جاسکتے ہیں اور اگر دوبارہ تعمیر ہوجائے تو ان کی پہلی جگہ پر واپس لوٹا دیں۔

سوال ۱۰۶۳۔ اگر کوئی مسجد، جس میں قرآن موجود ہوں، مہندم ہوجائے اور اس مسجد میں قرآن کا رہنا، قرآن مجید کی بے حرمتی کا باعث ہو، کیا قرآن کی جلدوں کی حفاظت کے لئے، مومنین کے لئے ان کو اپنے گھروں میں لے جانا جائز ہے تاکہ کبھی کبھی ان کی تلاوت کرلیں؟

جواب: گذشتہ مسئلہ کے مطابق کریں۔

 

ہبہ کے احکامبتیسویں فصل (نذر کے احکام)
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma