انیسویں فصل اجارہ اور کرایہ کے احکام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 01
بیسویں اور اکیسویں فصل زراعت اور آبیاری کے احکاماٹھارویں فصل مضاربہ کے احکام

سوال ۶۳۸۔ جو لوگ اجرت پر عبادت کرنے کے لئے ( یعنی اجرت پر نماز اور روزہ و حج بجا لاتے ہیں )یا اجرت پر دوسرے کام کرنے کے لئے آتے ہیں مثال کے طور پر مزدوری پر مسجد اور مام باڑہ کی تعمیر کرتے ہیں اور اپنی مزدوری بھی لیتے ہیں ،کیا ان کو خدا وند عالم ثواب بھی دے گا ؟

جواب ۔ چنانچہ ،مزدور اور اجرت پر کام کرنے والے لوگوں کا قصد ، بندوں کو ان کی ذمہ داریوں اورقرضوں سے نجات دلانا ہو، تو انہیں ثواب بھی ملے گا۔

سوال ۶۳۹۔ میں نے ایک آدمی کا مکان ، کچھ رقم پر کرایہ پر گھاصل کیا اور پھر اس کو اس سے زیادہ رقم پر کرایہ پر دے دیا ہے اور اس سلسلے میں، میں نے مالک مکان کی رضایت واجازت بھی حاصل کر لی ہے کیا یہ معاملہ صحیح ہے ؟

جواب ۔ اس مکان کو اس رقم سے زیادہ پر کرایہ پر دینا کہ جس رقم پرآپ نے کرایہ پر لیا ہے اشکال رکھتا ہے ، مگر یہ کہ آپ کچھ چیزیں اس میں ، زیادہ کردیں، جیسے قالین ، میز ،الماری یا اسی رقم کی دوسری چیزیں وغیرہ۔

سوال۶۴۰۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کو اپنے مرحوم باپ کے لئے اجرت پر قرآن پڑھنے کے لئے طے کرے لیکن رقم کو معین نہ کرے اور اب قرآن پڑھنے کے بعد ، قرآن پڑھنے والا شخص زیادہ اجرت کا مطالبہ کرے اور اجرت پر طے کرنے والا اس رقم کو ادا نہ کرے تو اس صورت میں ، اس مسئلہ کا حکم بیان فرمائیں ؟

جواب ۔ معمول اور رواج کے مطابق اجرةالمثل یعنی اس ایسے کام کی جو اجرت رائج ہے وہ اد اکرے اور مزید اس سے زیادہ دینا ضروری نہیں ہے.

سوال۶۴۱۔دو مومن آدمی جو جہرم کے مقام پر واقع مسجد کے روزانہ کے کام انجام دیتے ہیں اور امام زادہ اسماعیل کے مرقد کے انتظامات دیکھتے ہیں ، امامزادہ اسماعیل کے مرقد کے متروکہ قبرستان کے ایک گوشہ وکنارے پر اپنے پیسہ سے دو دکانیں بنواتے ہیں ، اس کے بعد ان دونوں دکانوں کو ، سستے دام پر بیچنے والی کمپنی کے ذمہ داروں کو کرایہ پر دیدیتے ہیں ، انھوں نے کرایہ کی رقم کو مسجد اور امام زادہ کے مرقد کے اخراجات کے لئے منظور کیا ہے ، اب اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ مسجد اور امام زادہ کے مرقد کا متولی ، شرعی نہیں ہے اور ان کا وقف نامہ بھی موجود نہیں ہے ، مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات عنایت فرمائیں :

الف ) کیا دکانیں بنوانا اور خصوصاً ان کو کرایہ پر دینے کے لئے ، مجتہد جامع الشرائط سے اجازت لینا ضروری ہے ؟

جواب : جی ہاں اجازت کی ضرورت ہے ، اور چنانچہ مذکورہ زمین ، متروکہ رہی ہو ، تو ہم اس میں عمارت بنانے کی اجازت دیتے ہیں ، اور انھیں کرایہ پر دینا اس صورت میں جائز ہے جب مذکورہ عمارت ( دکانیں ) مسجد اور امام زادہ کے کاموں کیلئے ضروری نہ ہوں ، اور کرایہ کی رقم امام زادہ اور مسجد میں خرچ کی جائے۔

ب) کیا کرایہ پر دینے کا معاملہ ، شریعت کی رو سے معتبر ہے ؟

جوا ب۔ اگر کرایہ کی رقم عادلانہ یعنی انصاف سے ہے اور مذکورہ مقام امام زادہ اور مسجد کیلئے ضروری نہیں ہے تو صحیح ہے۔

ج) کرایہ پر دینے کے معاملہ کے باطل ہونے کی صورت میں کیا ان دکانوں کا ، سستے دام پر چیزیں بیچنے والی کمپنی کے ذمہ داران کے ذریعہ ، خالی کرانا اور ان کو مسجد وغیرہ کے ضروری کاموں کیلئے جیسے انبار دفتروغیرہ ، مسجد کی انجمن کے حوالے کرنا واجب ہے ؟

جواب ۔ اس کا جواب اوپر دیے گئے جواب سے معلوم ہوگیا ہے۔

د) کیا دکانوں کو خالی کرنے کیلئے ، کمپنی کے ذمہ دار حضرات کچھ رقم دریافت کرنے کا حق رکھتے ہیںخواہ کرایہ کی ادا کی ہوئی رقم یا اس سے زیادہ یا وہ رقم جو انہوں نے بجلی لگوانے یا پانی کا انتظام یا اس کے تعمیر ی کام میں خرچ کی ہو ؟

جوا ب ۔ وہ لوگ فقط اسی قدر لے سکتے ہیں کہ جس قدر رقم انھوں نے وہاں پر خرچ کی ہے اس سے زیادہ لینے کا حق نہیں ہے۔

سوال ۶۴۲۔ کرایہ کی مدت کے ختم ہونے کے بعد اور مالک کی مرضی کے بغیر ، کرایہ دار کے دکان یا رہائشی عمارت میں تصرف کرنے کا کیا حکم ہے ؟ حالانکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے قانون میں آیا ہے کہ اگر کرایہ پر دینے والے (مالک ) کو ذاتی ضرورت نہ ہو تو اس صورت میں، کرایہ دار کو تصرف کرنے کا حق دیتے ہیں ، اگرچہ مالک راضی بھی نہ ہو۔

جواب ۔ مالک کی مرضی کے بغیر کرایہ دار کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے ، مگر ضرورت اور اضطرار کے موقع پراور وہ بھی ضرورت اور اضطرار کی مقدار میں۔

بیسویں اور اکیسویں فصل زراعت اور آبیاری کے احکاماٹھارویں فصل مضاربہ کے احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma