چوتھا سبق: پیغمبر شناسی کا بہترین طریقہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
پانچواں سبق : پیغمبر اسلام( صلی الله علیه واله والسلم ) کاسب سے بڑا معجزہ تیسرا سبق: انبیاء کیوں معصوم ہیں ؟

بلا شک وشبہہ ہر مدعی کے دعوی ٰکو قبول کر نا عقل و منطق کے خلاف ہے۔
ممکن ہے خدا کی طرف سے پیغمبری اوررسالت کادعویٰ کر نے والا شخص سچا ہو،لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ایک موقع پرست اور دھوکہ باز شخص سچے انبیاء کے بجائے جھوٹا دعویٰ کرے۔اس لئے ضروری ہے کہ انبیاء کی دعوت اور ان کے خدا سے رابطہ کی حقیقت کو ثابت کر نے کے لئے ،ہمارے پاس ایک قطعی اور یقینی کسوٹی موجود ہو۔
اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ہمارے پاس مختلف راستے موجود ہیں ،جن میں سب سے اہم مندرجہ ذیل دو راستے ہیں:
۱۔پیغمبر کی دعوت کے مطالب کے بارے میں پوری دقت سے تحقیق اور اس کے بارے میں قرائن و علامات کو اکھٹا کر نا۔
۲۔معجزہ اور خارق العادہ کام۔
ہم پہلے معجزہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں:
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لفظ ”معجزہ“سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہیں یا معجزوں کو افسانوں اور کہانیوں کے مثل جانتے ہیں ،حالانکہ اگر ہم معجزہ کے معنی ومفہوم پر سنجیدگی کے ساتھ اور علمی پہلو سے غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ اس قسم کے تصورات بالکل غلط ہیں۔
حقیقت میں معجزہ ایک ناممکن کام اور بے علت معلول نہیں ہے ،بلکہ سادہ الفاظ میں معجزہ ایک خارق عادت کام کو کہتے ہیں جس کو انجام دینا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہو تی اور یہ صرف ایک غیر معمولی طاقت کے ذریعہ ہی انجام پاسکتا ہے۔
اس لئے معجزہ کے درج ذیل شرائط ہیں:
۱۔یہ ایک ممکن اور قابل قبول کام ہے۔
۲۔عام لوگ،حتی غیر معمولی ذہن رکھنے والے افراد بھی انسانی قدرت کے ذریعہ معجزہ کو انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔
۳۔معجزہ پیش کر نے والے شخص کو اپنے کام پر اتنا یقین اور اطمینان ہو نا چاہئے کہ دوسروں کو اس کے مقابلہ کی دعوت کرے۔
۴۔کوئی بھی شخص معجزہ کے مانند کام انجام نہیں دے سکتا ہے ،جیسا کہ معجزہ کے نام ہی سے معلوم ہے کہ اس کے مقابلہ میں لوگ عاجز ہوں۔
۵۔معجزہ کا نبوت یا امامت کے دعویٰ کے ساتھ ہو نا ضروری ہے (اس لئے پیغمبر اور امام کے علاوہ دوسروں سے انجام پانے والے خارق عادت کام معجزہ نہیں کہلاتے بلکہ انھیں کرامت کہا جاتا ہے)۔

چند واضح نمو نے:

ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ مردوں کو زندہ کر نا اور لاعلاج مریضوں کو صحت یاب کر نا تھا۔
کیا ہمارے پاس کوئی ایسی دیل موجود ہے جس سے یہ ثابت کریں کہ انسان کے بدن کا نظام فیل ہو کر مرنے کے بعد پھر سے وہ زندہ نہیں ہو سکتا ہے؟!
کیا ہمارے پاس کوئی ایسی عقلی وعلمی دلیل موجود ہے جس سے ہم ثابت کریں کہ کینسر کی بیماری،جس کے علاج سے ہم عاجز ہیں ،کا کوئی علاج نہیں ہے۔
لیکن یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ انسان موجودہ قدرت اور حالات میں مردوں کو زندہ کر نے یا بعض بیماریوں کا علاج کر نے کی طاقت نہیں رکھتا ہے ،چاہے دنیا کے تمام ڈاکٹر مل کر اپنے تجربات اور علم سے مدد کیوں نہ لیں۔
لیکن اس میں کیا مشکل ہے کہ ایک انسان خدا کی قدرت اور اس کے لامحدود علم کے سمندر سے آگاہی حاصل کر کے ایک پر اسرار اشارہ کے ذریعہ ایک مردہ میں پھر سے روح کو لوٹا دے یا ایک لا علاج مریض کو شفا بخش دے!
علم صرف یہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا ہوں اور مجھ میں یہ کام انجام دینے کی طاق نہیں ہے ،لیکن کبھی یہ نہیں کہتا ہے کہ فلاں کام انجام دینا ناممکن اور غیر معقو ل ہے۔
ایک دوسری مثال:
خلائی جہاز کے بغیر چاند کا سفر کر نا کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے ،لیکن اس میں کیا حرج ہے کہ ہماری قدرت سے برتر کوئی طاقت انسان کی ایجاد کی گئی سواری سے بالاتر ایک پر اسرار سواری کو ایجاد کر کے کسی کے اختیار میں قرار دیدے اور وہ خلائی جہاز سے مدد لئے بغیر چاند یا اس سے دورتر سیاروں کا سفر کر دے۔!
اگر کوئی شخص حقیقتاًاس قسم کا کوئی خارق عادت کام انجام دے اور اس کے ساتھ ہی نبوت کا دعویٰ بھی کرے اور لوگوں کو مقابلہ کی دعوت بھی دے اور عام لوگ اس کے مقا بلہ میں عاجز ہو جائیں تو یقین کریں گے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے ۔
معجزات کو توہمات اور خرا فات سے نہیں ملا نا چاہئے
”افراط“ و”تفریط“ہمیشہ برائی اور تباہی ایجاد کر نے اور حقیقت کے چہرہ کو بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں۔
معجزہ کے بارے میں بھی یہی امر صادق آتا ہے ۔جبکہ بعض تجدّد پسندی کے نام نہاد دعوے دار کھل کر یا اشاروں میں ہر قسم کے معجزہ سے انکار کر تے ہیں اس کے مقا بلہ میں کچھ لوگ زیادہ سے زیادہ معجزے گھڑتے ہیں اور مرموز دشمنوں کے توسط سے جعل کی گئی ضعیف روایتوں اور توہمات پر مشتمل افسانوں کو معجزات کے ساتھ ملا دیتے ہیں ۔اس طرح انبیاء کے حقیقی معجزوں کے علمی چہرے پر افسانوں اور خرافات کے پردے ڈال دیتے ہیں۔
جب تک حقیقی معجزات اس قسم کے جعلی افسانوں سے پاک و منزّہ نہ ہو جائیں، ان کا اصلی چہرہ آشکار نہیں ہو گا۔
اسی لئے ہمارے عظیم علماء اور فقہا ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ معجزات وغیرہ کے سلسلے میںاسلامی احادیث اس قسم کے افسانوں سے آلودہ نہ ہو جائیں۔
اسی لئے ”علم رجال“کو وجود میں لایاگیا تاکہ احادیث کے راویوں کو اچھی طرح پر کھا جائے اور”صحیح“اور”ضعیف“احادیث کے در میان فرق معلوم کیا جائے اور توہمات پر مشتمل مطالب حقائق سے ملنے نہ پائیں۔
آج سامراجی اورالحادی قوتیں بیکار نہیں بیٹھی ہیںبلکہ وہ بے بنیاد باتوںکو پاک ومنزہ دینی عقائد سے مخلوط کر دینے کی کوشش کر تی ہیں تاکہ اس طرح سے لوگوں کو حقیقی علم سے دور کر دیں۔لہذا ضروری ہے کہ ہم دشمنوں کی ان تخریبی سازشوں کے بارے میں پوری طرح باخبر رہیں اور ان کو ناکام بنادیں۔
معجزہ کا دوسری خارق عادت چیزوں سے فرق
غالبا ً آپ نے سنا ہو گا کہ کچھ جوگی بعض اوقات خارق عادت کام انجام دیتے ہیں ،ایسے عجیب وغریب کام کا مشاہدہ کر نے والے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے ،یہ ایک حقیقت ہے نہ افسانہ۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ ان خارق عادت کاموں اور انبیاء کے معجزات کے در میان کیا فرق ہے؟ہمارے پاس کونسی کسوٹی ہے جس پر کے ذریعہ ہم ان دوچیزوں کے در میا ن فرق معلوم کر سکیں؟
اس سوال کے کئی جواب ہیں ،ان میں سے واضح تر درج ذیل دو جواب ہیں:
۱۔جوگی ہمیشہ محدود کام انجام دیتے ہیں اور دوسرے الفاظ میں کو ئی بھی جوگی آمادہ نہیں ہو گا کہ آپ کی خواہشی کے مطابق کسی خارق عادت کام کو انجام دے بلکہ وہ ایسا خارق عادت کام انجام دیتا ہے جسے وہ خود چاہتا ہے یعنی اسی کام کو انجام دیتا ہے جس کی اس نے مشق کر کے اچھی طرح سے سیکھا ہے اور اس پر مسلط ہو گیا ہے ۔اس بات کی وجہ واضح ہے ،کیونکہ ہر انسان کی قدرت محدود ہے ،وہ صرف چند ایک کاموں میں مہارت حاصل کر سکتا ہے ۔
اس کے مقابلہ میں انبیاء کے خارق عادت کام کی کوئی محدو دیت نہیں ہے،ان کے لئے کسی قسم کی قید وشرط نہیں ہے ۔وہ ضرورت کے وقت ہر قسم کے مطالبہ شدہ معجزہ کو انجام دے سکتے ہیں ،کیونکہ وہ خدا کی لا محدود قدرت سے مدد لیتے ہیں اور معلوم ہے کہ خدا کی قدرت کی کوئی حد نہیں ہے،جبکہ انسان کی قدرت نہایت محدود ہے۔
۲۔جس کام کو ایک جوگی انجام دیدے ،دوسرا جوگی بھی ویسا ہی کام انجام دے سکتا ہے یعنی وہ کام بشر کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔
اسی لئے خارق عادت کام انجام دینے والا جو گی ہر گز دوسروں کو مقابلہ کی دعوت نہیں دیتا اور دوسرے الفاظ میں وہ چیلنج نہیں کر تا ہے ،کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے اس کے شہر یا دوسرے شہر وں میں اس کے جیسے افراد موجود ہیں جو ایسا کام انجام دے سکتے ہیں۔
لیکن اس کے بر عکس انبیاء مکمل اطمینان کے ساتھ چیلنج کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ”اگر دنیا کے تمام لوگ بھی جمع ہو جائیں تب بھی ہمارے انجام دئے گئے کام کے مانند کام کو انجام نہیں دے سکتے ہیں۔“
سحر و جادو کے بارے میں بھی یہ فرق صادق ہو تا ہے۔مذکورہ فرقوں سے سحر اور معجزہ کے حدود بھی مکمل طور پر معلوم ہو جاتے ہیں ۔(غور کیجئے)


 غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔”معجزہ“کو معجزہ کیوں کہتے ہیں؟
۲۔کیا معجزہ”قانون علّیت“سے مستثنیٰ ہے؟
۳۔کن طریقوں سے ہم معجزہ کو جوگیوں اور جادوگروں کے کام سے الگ کر سکتے ہیں؟
۴۔معجزہ کی اصلی شرائط کیا ہیں؟
۵۔کیا آپ نے اپنی زندگی میں معجزہ جیسی کو ئی چیز دیکھی ہے؟

پانچواں سبق : پیغمبر اسلام( صلی الله علیه واله والسلم ) کاسب سے بڑا معجزہ تیسرا سبق: انبیاء کیوں معصوم ہیں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma