پانچواں سبق;آفات و بلیّات کا فلسفہ (۳)

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
چھٹا سبق : جبر و اختیارکا مسئلہ چوتھا سبق:آفات و بلیّات کا فلسفہ(۲)

چونکہ خدا کی معرفت اور توحید کے مباحث کا مطالعہ کر نے والوں کے لئے ناخوشگوار آفات و حوادث کی مشکل ایک قابل غور مشکل ہے،اس لئے ہم آفات و حوادث کے بارے میں مزید فلسفوں کو بیان کر نا ضروری سمجھتے ہیں ،لہذا اس بحث کو آگے بڑھا تے ہیں ۔

۵۔مشکلات اور نشیب وفراز زندگی کو روح بخشتے ہیں

شاید بعض افراد کے لئے اس مسئلہ کا ادراک مشکل ہو گا کہ اگر خدا کی نعمتوں کا سلسلہ جاری اور یکساں ہو تو وہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں۔
آج ثابت ہو چکا ہے کہ اگرایک جسم کوایک کمرہ کے بیچ میں رکھا جائے اور اسپر ہر طرف سے یکساں اور تیز روشنی ڈالی جائے اور خود جسم اور کمرہ بھی مکمل طور پر شفاف اور گول ہوں،تواس جسم کو ہر گز دیکھا نہیں جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہمیشہ جب روشنی کے کنارے سائے قرار پاتے ہیں تو وہ جسم کے ابعاد کو مشخص کر تے ہیں اور اسے اپنے اطراف سے جدا کرتے ہیں اور ہم اسے دیکھ سکتے ہیں۔
زند گی کی نعمتوں کی قدر و قیمت بھی مشکلات کے پرُ رنگ اور کم رنگ سایوں کے بغیر قابل مشاہدہ نہیں ہے ۔اگر کوئی شخص زندگی بھر کبھی بیمار نہ ہو تو وہ ہر گز صحت و سلا متی کے مزہ کا احساس نہیں کر سکتا ہے ۔اس کے بر عکس اگر وہ ایک رات کو شدید بخار اور سر درد میں مبتلا ہو جا ئے اور صبح ہو نے پر وہ اس بخار اور سر درد سے نجات پا جائے تو صحت و سلامتی کا مزہ اس کے ذائقہ کو اس قدرشیرین کر تا ہے کہ جب کبھی اسے اس بحرانی اور المناک رات کی یاد آتی ہے تو اسے معلوم ہو تا ہے کہ اس کے پاس صحت وسلامتی نام کا کون ساقیمتی گوہر ہے۔
یکساںزندگی۔حتی خوشحال ترین زندگی۔بالکل تھکا دینے والی،بے روح اور مہلک زندگی ہو تی ہے ۔اکثر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض افراد خوشحال اور ہر قس کے رنج والم سے خالی زندگی سے اس قدر تھک چکے ہیں کہ خود کشی کر نے پر مجبور ہو گئے ہیں یا ہمیشہ اپنی زندگی کے بارے میں گلہ شکوے کرتے ہیں۔
آپ کسی باذوق معمار کو پیدا نہیں کر سکتے ہیں ،جو ایک بڑے ہال کی دیواروں کو ایک زندان کی دیواروں کے مانند صاف اور یکساں تعمیر کرے،بلکہ وہ اس ہال کی دیواروں کو اتار چڑھاؤاور پیچ و خم کے ساتھ تعمیر کرکے پُر کشش بنا دیتا ہے ۔
یہ عالم طبیعت کیوں اس قدر خوبصورت ہے؟
پہاڑوں پر موجود جنگلوں کے مناظر اور چھوٹے بڑے درختوں کے بیچ میں سے مار پیچ کے مانندگزرنے والی نہریں کیوں اس قدرخوبصورت اور دل آویز ہوتی ہیں؟!
اس کی ایک واضح وجہ ان کا یکساں نہ ہو نا ہے۔
”روشنی“اور”تاریکی“،اورشب وروز کی آمد ورفت کا نظام ،جس کا ذکر قرآن مجید نے مختلف آیات میں کیا ہے،اس کا ایک اہم مقصد انسانوں کی یکساں زندگی کو ختم کر نا ہے ،کیو نکہ اگر سورج آسمان کے ایک کو نے سے یکساں اور مسلسل طور پر کرئہ زمین پر اپنی روشنی پھیلاتا اور نہ اپنی حالت میں تبدیلی لاتا اور نہ اس کی جگہ رات کا پردہ پڑتا،تو دوسرے مشکلات کے علاوہ ،تھوڑی ہی مدت میں سب انسان تھک جاتے۔
اس وجہ سے ماننا چاہئے کہ کم از کم زندگی کے بعض ناخوشگوار حوادث اور مشکلات میں یہ فلسفہ ہے کہ یہ بقیہ زندگی کو روح بخشتے ہیں اسے شرین اور قابل برداشت بناتے ہیں،نعمتوں کی قدر وقیمت کو واضح کر دیتے ہیں اور انسانوں کے لئے یہ ممکن بناتے ہیں کہ موجودہ نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
۶۔خود ساختہ مشکلات
ایک اور نکتہ،جس کی طرف ہم اس بحث کے اختتام پر اشارہ کر نا ضروری سمجھتے ہیں ،یہ ہے کہ بہت سے لوگ ناخوشگوار حوادث اور مصائب کے عوامل کا محاسبہ کر نے میں بعض اوقات مغالطہ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ظالم انسانوں کے ذریعہ وجود میں آئے ظلم کو خلقت کے نظام کی نا انصافی جانتے ہیں اور انسان کے کام کی بد نظمی کو خلقت کی بد نظمی شمار کرتے ہیں۔
مثلاًکبھی اعتراض کرتے ہیں کہ مصیبت زدہ پر ہی کیوں مصیبتیں ٹوٹ پڑ تی
ہیں ؟!زلزلوں میں کیوں شہروں میں نقصا نات کم ہوتے ہیں اور گاؤں میں زیادہ قربانیاں رو نما ہو تی ہیں اور بہت سے لوگ ملبے میں پھنسے رہ جاتے ہیں ،یہ کونسا انصاف ہے؟اگر کوئی مصیبت قسمت میں طے ہو تو کیوں یکساں نہیں آتی؟
درد ناک حادثات سے کیوں اکثر مستضعفین (کمزرولوگ)دو چار ہو تے ہیں؟اور وبائی بیماروں کے کیوں یہی لوگ زیادہ تر شکار ہو تے ہیں؟
جبکہ حقیقت میں ان میں سے کوئی بھی چیز خلقت کے نظام اور خدا کی خلقت اور عدالت سے مربوط نہیں ہے،بلکہ یہ خود انسانوں کے ایک دوسرے پر ظلم واستعمار کا نتیجہ ہو تا ہے۔
اگر گاؤں والے شہر نشینوں کے ظلم کی وجہ سے فقر و محرومیت سے دو چار نہ ہو تے اور اپنے لئے مضبوط مکانات تعمیر کر سکتے تو وہ زلزلہ میں زیادہ نقصا نات سے کیوں دوچار ہو تے اور دوسرے کم؟
لیکن جب ان کے گھر معمولی مٹی،پتھر اور لکڑی کے بنے ہوں اور ان میں چونا اورسمینٹ کا نام تک نہ ہو اور ہوا کے ایک جھونکے یا معمولی زلزلہ سے زمین بوس ہو جائیں تو انھیں اس سے بہتر حالت کی توقع نہیں کر نی چاہئے ،لیکن اس کا خدا کے کام سے کیا ربط ہے؟
ہمیں اس شاعر کے مانند اعتراض نہیں کر نا چاہئے ،جس نے کہا ہے:
”یکے را دادہ ای صد نازو نعمت“
ایک کو سو نعمتیں عطا کی ہیں اور دوسرے کو خاک ذلت پر بٹھا دیا ہے،
ایک کومحل کو عطا کئے ہیں اور دوسرے کو جھونپڑی!
حقیقت میں یہ اعتراض معاشرہ کے غیر عادلانہ اور غلط نظام پر کئے جانے چاہئے ۔ہمیں ان اجتماعی نا انصافیوں کا خاتمہ کرنا چاہئے فقر و پسماند گی سے مقابلہ کر نا چاہئے اور مستضعفین کو ان کے حقوق دینے چاہئے تاکہ معاشرہ میںاس قسم کے حالات پیدا نہ ہو نے پائیں۔
اگر معاشرہ کے تمام لوگوں کو مناسب غذا ،صحت اور طبی خدمات ملیں تو وہ عام بیماریوں کے مقابلہ میں مقاومت پیدا کریں گے۔
لیکن جب ایک معاشرہ کاغلط اجتماعی نظام اور اس پر حاکم استکبارایک شخص کے لئے اس قدر وسائل فراہم کرے کہ اس کے پالتو کتے اور بلی کے لئے بھی مخصوص ڈاکٹر معین ہو اور اس کے مقا بلہ میں دوسرے کے ایک نوزاد بچے کے لئے بھی صحت وسلامتی کے ابتدائی وسائل مہیا نہ ہوں تو اس قسم کے ناخوشگوار حالات زیادہ رو نما ہوتے ہیں۔
ایسے حالات میں ہمیں خدا کے کام پر اعتراض کر نے کے بجائے خود اپنے ہی کام پر اعتراض کر نا چاہئے۔
ہمیں ظالم سے کہنا چاہئے کہ ظلم نہ کرے ۔
ہمیں مظلوم سے کہنا چاہئے کہ ظلم برداشت نہ کرے!
ہمیں کو شش کر نی چاہئے کہ معاشرے کے ہر فرد کو کم از کم صحت و صفائی ،علاج و معالجہ ،کھانے پینے،رہائشی ،ثقافتی اور تعلیم وتر بیت کے ابتدائی ضروریات سے بہرہ مند ہو نا چاہئے ۔
مختصر یہ کہ ہمیں اپنے گناہوں کو خلقت کے نظام کی گردن پر نہیں ڈالنا چاہئے۔
خدا وند متعال نے ہم پر کب ایسی زندگی مسلط کی ہے؟اور کہاں پر اس قسم کے نظام کی تعریف کی ہے؟
اس نے ہمیں آزاد خلق کیا ہے ،کیونکہ آزادی ہمارے تکامل اور ارتقا اورتر قی کا راز ہے۔
لیکن ہم اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں اور دوسروں پر ظلم وستم کرتے ہیں اوریہی ظلم وستم معاشرہ کی بد حالی کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔
افسوس کہ بہت سے لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں ،یہاں تک کہ معروف ومشہور شعراء کے اشعار میں بھی اس کے نمونے ملتے ہیں۔
قرآن مجید ایک مختصر اور بامعنی جملہ میں فر ماتا ہے:
<إن اللّٰہ لا یظلم النّاس شیئاً ولکن النّاس انفسھم یظلمون ( سورہ یونس/۴۴)
”اللہ انسا نوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں۔“
اب ہم آفات وبلیّات کے فلسفہ کی بحث کو ختم کرتے ہیں ۔اگر چہ یہ ایک طولانی موضوع ہے لیکن ہم اسی مختصر بحث پر اکتفا کرتے ہیں۔


غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔ آفات وبلیّات کے فلسفہ کی بحث کو ہم نے کیوں تین اسباق میں بیان کیا؟
۲۔زندگی کے یکساں ہو نے میں کون سے برُے اثرات ہیں؟کیا آپ نے کسی کو دیکھا ہے جو اپنی عیش وعشرت کی زندگی سے بیزار ہو؟
۳۔کائنات میں نور وظلمت کے نظام کے فلسفہ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
۴۔کیا معاشرے میں موجود تمام مصیبتیں خلقت کے نظام سے مربوط ہیں یا ان کے ہم بھی ذمہ دار ہیں؟
۵۔کیا معاشرے کی مصیبتوں کو ختم کر نے کے لئے کوئی صحیح طریقہ موجود ہے؟مستضعفین کے بارے میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟

 

چھٹا سبق : جبر و اختیارکا مسئلہ چوتھا سبق:آفات و بلیّات کا فلسفہ(۲)
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma