چوتھا سبق:آفات و بلیّات کا فلسفہ(۲)

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
پانچواں سبق;آفات و بلیّات کا فلسفہ (۳) تیسرا سبق: آفات و بلیّات کا فلسفہ(۱)

ہم نے کہا کہ انسانی زندگی میں رو نما ہو نے والے ناخوشگوار حوادث،آفات،مشکلات اور ناکامیوں پر اعتراض کر نے والوں نے ان چیزوں کوعدل الہٰی سے انکار کر نے کا بہانہ قرار دیا ہے بلکہ بعض اوقات اسی بہانہ سے پرور دگار کے وجود کے بھی منکر بن گئے ہیں!
گزشتہ بحث میں ہم نے ان حوادث کے ایک حصہ پر بحث و تحقیق کی اور اس کے دو فلسفوں کی وضاحت کی ۔یہاں پر ہم اسی بحث کو جاری رکھتے ہیں ۔

۳۔انسان مشکلات میں پرورش پاتا ہے

ہم پھر یہ بات کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ہاتھوں اپنے لئے مشکلات اور حوادث ایجاد نہیں کر نے چاہئے ۔لیکن اس کے باوجود بہت سے مواقع پر سخت اور نا خوشگوار حوادث اور مشکلات ہمارے ارادہ کو تقویت بخشنے کا سبب بنتے ہیں،جس طرح لوہا بھٹی میں ڈال کر گرم کیا جاتا ہے اور وہ سرد و گرم جھیل کر پائدار ہو جاتا ہے ،اسی طرح ہم بھی حوادث کی بھٹی میں سرد و گرم زمانہ جھیل کر پختہ اور قوی بن جاتے ہیں۔
جنگ ایک بری چیز ہے،لیکن کبھی ایک سخت اور طولانی جنگ ایک ملت کی استعداد کو وسعت بخشتی ہے ،اختلافات کو اتحاد و یکجہتی میں تبدیل کرتی ہے اور پسماند گیوں کی تیزی کے ساتھ تلافی کر تی ہے۔
ایک معروف مغربی مورّخ کہتا ہے :”پوری تاریخ میں دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہر نمایاں تہذیب کا ظہور،ایک ملک پر کسی بیرونی بڑی طاقت کے حملہ کے بعد رونما ہو تا ہے اور یہی بیرونی حملہ اس ملک کی سوئی ہوئی قوتوں کو بیدار کر کے انھیں منسجم و متحد کر دیتا ہے“
لیکن زندگی کے تلخ حوادث کے مقابلہ میں ہر فرد اور ہر معا شرہ کا رد عمل یکساں نہیں ہو تا ہے ۔بعض لوگ ان حوادث کے مقا بلہ میں یاس و نا امیدی اور ضعف وبد ظنی کے شکار ہو جاتے ہیں اور منفی نتیجہ حاصل کرتے ہیں۔لیکن جن لوگوں کے پاس مناسب وسائل موجود ہو تے ہیں ،وہ ان حوادث کے مقابلہ میں جوش وجذبہ سے حرکت میں آجاتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کی تیزی کے ساتھ اصلاح کرتے ہیں۔
چونکہ ایسے مواقع پر اکثر لوگ سطحی فیصلہ کر تے ہیں اورصرف مشکلات اور سختیوں کو دیکھتے ہیںاس لئے وہ ان کے مثبت اور تعمیری آثار کو نہیں دیکھ پاتے۔
ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کے تمام تلخ حوادث کے ایسے ہی اثرات ہوتے ہیں ،لیکن کم از کم ان میں سے بعض ایسے ہی ہیں۔
اگر آپ دنیا کے غیر معمولی انسانوں کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہو جائے گا تقریباً وہ سب مشکلات اور سختیوں میں پلے ہیں ،ایسے بہت کم لوگ پائے جاتے ہیں ،جو عیش وعشرت میں پلے ہوں اور غیر معمولی شخصیت بن کر شہرت پائے ہوں۔فوج کے کمانڈر وہ بنتے ہیںجوسخت اور طولانی میدان کار زار میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں ۔عظیم اقتصاددان وہ ہو تے ہیں جو بحران زدہ اقتصادی بازاروں میں گرفتار رہے ہیں ۔
بڑے اور قدرتمند سیاست دان وہ ہوتے ہیں جو اپنی سیاسی تحریک میں مشکلات سے مقابلہ کرتے ہیں اور سختیاں جھیلتے ہیں ۔
مختصر یہ کہ انسان مشکلات اور سختیوں کی آغوش میں پرورش پاتا ہے۔
ہم قرآن مجید میں یوں پڑھتے ہیں:
<فعسیٰ ان تکرھوا شیئاً ویجعل اللّٰہ فیہ خیرا کثیراًً
( سورہ نساء/۱۹)
”ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور خدا اسی میں خیر کثیر قرار دے۔“

۴۔ مشکلات خدا کی طرف پلٹنے کا سبب ہیں

ہم نے گزشتہ بحثوں میں پڑھا کہ ہمارے وجود کے ہر ایک حصہ کا ایک مقصد ہے۔آنکھ ایک مقصد کے لئے ہے ،کان ایک دوسرے مقصد کے لئے ،دل،دماغ اور اعصاب میں سے ہرایک کسی نہ کسی مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ،یہاں تک کہ ہماری انگلیوں کی لکیروں میں بھی ایک فلسفہ مضمر ہے۔
اس بنا پر کیسے ممکن ہے کہ ہمارا پورا وجود مقصد اور فلسفہ کے بغیر ہو؟
ہمیںگزشتہ بحثوں میں معلوم ہوا کہ یہ مقصد،انسان کے تمام جہتوں میں تکامل حاصل کر نے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیںہے۔
اس تکامل تک پہنچنے کے لئے یقینا،تعلیم وتر بیت کے ایک ایسے عمیق نظام کی ضرورت ہے جو انسان کے پورے وجود پر حاوی ہے ۔اسی لئے خداوند متعال نے انسان کو پاک توحیدی فطرت عطا کر نے کے علاوہ عظیم انبیاء کو آسمانی کتابوں کے ساتھ بھیجا تاکہ اس راہ میں انسان کی رہبری کی ذمہ داری نبھائیں ۔
اس کے ساتھ اس مقصد کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ کبھی کبھی انسان کو اس کے گناہوں اور خطاؤں کا رد عمل دکھا یا جائے اور خدا کی نافر مانی کے نتیجہ میں وہ اپنی زندگی میں مشکلات سے دو چار ہو تاکہ اپنے برے اعمال کے نتائج سے آگاہ ہو کر خدا کی طرف پلٹ آئے ۔ایسے ہی مواقع پر بعض بلائیں اور نا خوشگوار حوادث رحمت و نعمت الہٰی ہو تے ہیں۔
جیساکہ قرآن مجید یاددہانی کرتا ہے:
<ظھر الفساد فی لبرّ والبحر بما کسبت ایدی النّاس لیذیقھم بعض الّذی عملوا لعلّھم یرجعون
( سورہ روم/۴۱)
”لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بناپر فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تا کہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھادے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں ۔“
مذکورہ بیان کے پیش نظر درد ناک حوادث کو”شر“ کامصداق جاننا، انھیں ”بلائیں“کہنا،اور انھیں عدل الہٰی کے خلاف سمجھنا عقل و منطق کے خلاف ہے،کیو نکہ جتنا ہم اس مسئلہ میں عمیق تر غور کریں گے زیادہ سے زیادہ اس کے اسرار و رموز سے آگاہ ہوں گے۔


غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔ہماری خلقت کا مقصد کیا ہے؟اس مقصد تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے؟
۲۔انسان مشکلات کا مقابلہ کر کے کیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند قوی بن سکتا ہے؟
۳۔کیا آپ نے ایسے افراد کو دیکھا ہے یا تاریخ میں پڑھا ہے جو مشکلات اور سختیوں سے مقابلہ کر نے کے نتیجہ میں عظیم مرتبہ پر فائز ہو چکے ہوں؟ ان کے حالات زندگی بیان کیجئے۔
۴۔ہمارے گناہوں کے رد عمل کے بارے میں قرآن مجید کیا فر ماتا ہے؟
۵۔تلخ اور نا خوشگوار حوادث سے کون لوگ مثبت نتیجہ حاصل کرتے ہیں اور کون لوگ منفی نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟
 

پانچواں سبق;آفات و بلیّات کا فلسفہ (۳) تیسرا سبق: آفات و بلیّات کا فلسفہ(۱)
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma