ج: صحابہ اور تابعین کی سیرت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
ہم جب اصحاب رسول(صلی الله علیه و آله وسلم)اور تابعین کے حالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بھی زمین ہی پر سجدہ کیا کرتے تھے بعنوان نمونہ ملاحظہ کریں :
١۔ جناب جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں : کنت اصلی مع النبی الظھر فآخذ قبضة من الحصی فاجعلھافی کفی ثم احولھا الی الکف الاخری حتی تبرد ثم اضعھا لجبینی حتی اسجد علیہا من شدةالحر میں جب بھی آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کے ساتھ نماز ادا کرتا تھا تو دھوپ کی شدت کی وجہ سے چند سنگریزوں کو ہاتھوں میں لے کر ٹھنڈا کرتا اور پھر ان پر سجدہ کرتا تھا ۔
اس حدیث سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اصحاب زمین پر سجدہ کرنے میں مقید تھے یہاں تک کہ وہ چلچلاتی دھوپ کے باوجود زمین پر سجدہ کرنے کے لئے راہ چارہ تلاش کرتے تھے پس اگر زمین پر سجدہ کرنا ضروری نہیں تھا تو پھر اتنی زحمت برداشت کرنے کی ضرورت کیا تھی؟
٢۔ انس بن مالک کی روایت میں وارد ہوا ہے : کنا مع رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)فی شدة الحر فیاخذ احدنا الحصباء فی یدہ فاذا برد وضعہ وسجد علیہ
ایک مرتبہ ہم لوگ کڑی دھوپ میں آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کے ہمراہ تھے تو ہم میں سے ایک شخص نے چند سنگریزوں کو ہاتھوں میں لے کر ٹھنڈا کیا اور پھرزمین پر رکھ کراس پر سجدہ کیا ۔
انس بن مالک کی اس تعبیر سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ کام اصحاب کے درمیان رائج تھا ۔
٣۔ابو عبیدہ نقل کرتے ہیں: ان ابن مسعود لا یسجد ۔ او قال لایصلی ۔ الا علی الارض ابن مسعود سجدہ نہیں کرتے تھے مگر زمین پر یا کہا کہنماز نہیں پڑھتے تھے مگر زمین پر ۔
اگر زمین سے مراد فرش ہوتا تو پھر اسے کہنے کی ضرورت نہیں تھی لہذا یہاں پر زمین سے مراد خا ک ،پتھراور ریت وغیرہ ہیں ۔
٤۔ابن مسعود کے دوستوں میں مسروق بن اجدع کے حالات میں نقل ہوا ہے کہ کان لایرخص فی السجود علی غیر الارض حتی فی السفینة وکان یحمل فی السفینة شیئا یسجد علیہ وہ کسی کو زمین کے سوا کسی دوسری چیز پر سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ جب کشتی کا سفر درپیش ہوتا تو اپنے ساتھ کوئی چیز لے جاتے تھے اور اس پر سجدہ کرتے تھے ۔
٥۔جناب علی ابن عبد اللہ بن عباس نے رزین کو لکھا کہ ابعث الی بلوح من احجار المروة علیہ اسجد؛ میرے لئے مروہ کا ایک ٹکڑا بھیجو تاکہ میں اس پر سجدہ کرسکوں ۔
٦۔ایک دوسری روایت میں فتح الباری ( شرح صحیح بخاری ) کی نقل کے مطابق آیا ہے کان عمر ابن عبد العزیز لایکتفی بالخمرة بل یضع علیہا التراب ویسجد علیہ
عمر ابن عبد العزیز سجدہ کے لئے چٹائی پر اکتفاء نہیں کرتے تھے بلکہ اس پر تھوڑی سی خاک رکھتے اور پھر سجدہ کرتے تھے ۔
ان تمام روایات کا مفہوم کیا ہوسکتا ہے ؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صدر اسلام میں اصحاب اور تابعین زمین یعنی خاک ، پتھر وغیرہ پر سجدہ کیا کرتے تھے ؟
اب اگر کوئی اس دور میں اسی سنت کو زندہ کرنا چاہے تو کیا اس کے اس عمل کو بدعت کہنا صحیح ہے ؟!
کیا اہلسنت کے فقہاء کا فریضہ نہیں ہے کہ وہ اس سنت کو زندہ کرنے کے لئے پیشقدم ہوں جو خدا کی بارگاہ میں نہایت خضو ع کی علامت ہے اور سجدہ کی حقیقت کے موافق بھی ہے ۔
1) مسند احمد ، جلد 3، ص 327 ، سنن بیہقى ، جلد1 ، ص 439_
2) السنن الکبرى بیہقى ، جلد 2، ص 106_
3) مصنف ابن ابى شیبہ ، جلد 1، ص 397_
4) طبقات الکبرى ، ابن سعد، جلد 6، ص 53_
5) اخبار مکّہ ازرقی، جلد 2 ،ص 151_
6) فتح البارى ، جلد 1 ، ص 410_
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma