۳۱ ۔ تفسیر بہ رای کے خطرات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
ہمارے عقیدے
۳۲ ۔ سنّت کا منبع اللہ کی کتاب ہے ۳۰۔ تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط

ہمارا عقیدہ ہے کہ تفسیر بہ رای قرآن کے وجود کے لئے سب سے خطرناک چیز ہے جسے اسلامی روایات میں گناہ کبیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور تفسیر بہ رای کرنے والا بارگاہ قرب خداوند ی سے مردود ہو جاتا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ خداوند نے ارشاد فرمایا کہ ما امن بی من فسّر برایہ کلامی ۔ جس نے میرے سخن کی اپنے میل اور من سے اپنے ھوای نفس کے مطابق تفسیر کی وہ ایسا ہے کہ گویا مجھ پر ایمان ہی نہیں لایا۔
بہت سی معروف مشہور کتابوں میں (جیسے صحیح ترمذی و سنن نسائی و سنن ابی داوود )( یہ حدیث پیغمبر اسلام ﷺ سے نقل ہو ئی ہے آپ نے فرمایا :
من قال فی القرآن برایہ او بما لا یعلم فلیتّبوء مقعدہ فی النار ۔
جس نے قرآن مجید کی تفسیر اپنے ھوا و ھوس اور میل کے مطابق کی یا نہ جاننے کے باوجود اس بارے میں اپنی رای کا اظہار کیا ، اس کا مقام اور ٹھکانا جہنم ہے۔
تفسیر بہ رای سے مراد یہ ہے کہ انسان قرآن مجید کو اپنی تمایلات اور شخصی عقیدہ یا گروہی عقیدہ کے مطابق معنا و تفسیر کرے یا ان پر تطبیق کرے حالانکہ اس پر کوئی قرینہ یا شاھد موجود نہ ہو ایسا کرنے والا وقعیت میں قرآن کے حضور میں تابع اور اس کا مطیع نہیں ہے بلکہ وہ قرآن کو اپنا تابع بنانا چاہتا ہے اور اگر وہ قرآ ن مجید پر کاملا ً ایمان رکھتا تو ہر گز ایسا نہیں کرتا ۔ اگر تفسیر بہ رای قرآن کے بارے میں ہوتی رہی تو بلا شبہ پوری طرح سے اس کا اعتبار ختم ہوجائے گا اور جب ہر شخص اپنی میلان کے مطابق اس کے معنا اور تفسیر کرنے لگے گا تو ہر باطل عقیدہ قرآن کے اوپر تطبیق دیا جانے لگے گا ۔
لہذا تفسیر بہ رای یعنی قوانین و مقررات علم لغت اور ادبیات عرب ، فھم اھل زبان کے خلاف قرآن مجید کی تفسیر اور اسے اپنے باطل گمان اور خیالات و رای اور تمایلات شخصی و گروہی کے مطابق تطبیق دینا ، قرآن مجید میں معنوی تحریف کا سبب ہو جائے گا ۔ تفسیر بہ رای کی کئی شاخیں ہیں ان میںسے ایک آیات قرآن کے ساتھ جدا جد نا برتاؤ کرنا ہے ، اس معنا میں کہ انسان مثلاً شفاعت و توحید و امامت وغیرہ کی بحث میں صرف ان آیات کا انتخاب کرے جو اس کے نظریہ کے موافق ہو ں اور ان آیات کو جو اس کے مزاق سے موافقت نہ رکھتی ہوں اور دوسری آیات کی تفسیر کر سکتی ہوں انھیں نظر انداز کرے یا ان کی بحث سے سرسری اور بے توجھی سے گزرجائے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ : جس طرح سے الفاظ قران کریم کے بارے میںجمود اختیار کرنا اور معتبر وعقلی و نقلی قرینوں پر توجہ نہ کرنا ایک طرح سے انحراف ہے تفسیر بہ را ی بھی اسی طرح کا انحراف شمار کی جائے گی جبکہ دونوں ہی قرآن کی اعلی و مقدس تعلیمات سے دوری کا سبب بنتا ہے یہ نکتہ غور طلب ہے ۔

۳۲ ۔ سنّت کا منبع اللہ کی کتاب ہے ۳۰۔ تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma