ابوطالب تین سال تک شعب میں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
ابوطالب کا سال وفات ''عام الحزن''اشعار ابوطالب زندہ گواہ

6_ان تمام باتوں کو چھوڑتے ہوئے اگرانسان ہر چیز میں ہى شک کریں تو کم از کم اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں کرسکتا کہ ابوطالب اسلام اور پیغمبر اکرم (ص) کے درجہ اول کے حامى ومددگار تھے ، ان کى اسلام اور پیغمبر کى حمایت اس درجہ تک پہنچى ہوئی تھى کہ جسے کسى طرح بھى رشتہ دارى اور قبائلى تعصبات سے منسلک نہیں کیا جاسکتا _
اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب کى داستان ہے_ تمام مورخین نے لکھا ہے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم (ص) اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی، سماجى اور سیاسى بائیکاٹ کرلیا اور اپنے ہر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت (ص) کے واحد حامى اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ہاتھ کھینچے رکھا اور بنى ہاشم کو ایک درہ کى طرف لے گئے جو مکہ کے پہاڑوں کے درمیان تھا اور ''شعب ابوطالب'' کے نام سے مشہور تھا اور وہاں پر سکونت اختیار کر لی_
ان کى فدا کارى اس مقام تک جا پہنچى کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیرکرنے کے علاوہ ہر رات پیغمبر اکرم (ص) کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسرى جگہ ان کے آرام کے لئے مہیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند على کو ان کى جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت على کہتے: ''بابا جان میں تو اسى حالت میں قتل ہوجائوں گا '' تو ابوطالب جواب میں کہتے :میرے پیارے بچے بردبارى اور صبر ہاتھ سے نہ چھوڑو، ہر زندہ موت کى طرف رواںدواں ہے، میں نے تجھے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ہے _
یہ بات اور بھى طالب توجہ ہے کہ جو حضرت على علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ہیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بناپر نہیں تھا کہ میں راہ محمد میں قتل ہونے سے ڈرتاہوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کا اطاعت گزار اور احمد مجتبى کى نصرت ومدد کے لئے آمادہ و تیار ہوں_
قارئین کرام ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص بھى تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبدارى کے ساتھ ابوطالب کے بارے میں تاریخ کى سنہرى سطروں کو پڑھے گا تو وہ ابن ابى الحدید شارح نہج البلاغہ کا ہمصدا ہوکر کہے گا :

ولولا ابوطالب وابنہ لما مثل الدین شخصا وقاما
فذاک بمکة آوى وحامی وھذا بیثرب جس الحماما
'' اگر ابوطالب اور ان کا بیٹا نہ ہوتے تو ہرگزمکتب اسلام باقى نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرتا ،ابوطالب تو مکہ میں پیغمبر کى مدد کےلئے آگے بڑھے اور على یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کى راہ میں گرداب موت میں ڈوب گئے''

 

 

ابوطالب کا سال وفات ''عام الحزن''اشعار ابوطالب زندہ گواہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma