ایک درخشاں تمدن جو کفران نعمت کى وجہ سے برباد ہو گیا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
ہم نے انھیں اس طرح منتشر کیا کہ ضر ب المثل بن گئےقوم سبا

قران مجید نے ان کى عبرت انگیز سر گزشت بیان کى ہے ،اور ان کى زندگى کے جزئیات و خصوصیات کے اہم حصہ کى طرف اشارہ کیا ہے _
پہلے کہتاہے :''قوم سبا کے لئے ان کے محل سکونت میں خدائی قدرت کى ایک نشانى تھی''_(1)
جیسا کہ ہم دیکھیں گے ،خدا کیس بزرگ ایت کا سرچشمہ یہ تھا کہ ،قوم سباء اس علاقے کے اطراف میں واقع پہاڑوں کے محل وقوع اور ان کے خاص حالات و شرائط ،اور اپنى خدا داد ذہانت اور ہو شمندیسے استفادہ کرتے ہوئے ،ان سیلابوں کو کہ جو سوائے ویرانى و تباہى کے کوئی نتیجہ نہ دیتے تھے ،ایک قوى اور مستحکم باندھ کے پیچھے روک دینے پر قادر ہو گئے تھے اور اس کے ذریعہ انھوں نے بہت ہى اباد ملک تعمیر کر لیا تھا ،یہ کتنى عظیم ایت ہے کہ ایک ویران اور برباد کر نے والا عامل ،عمران و ابادى کے اہم ترین عوامل میں بدل جائے _
جب کہ زیر بحث ایت کا ظاہر یہ ہے کہ سبا ایک قوم تھى کہ جو اس علاقے میں رہتى تھى ،کیونکہ ضمیر جمع مذکر (ھم) ان کى طرف لوٹ رہى ہے _ لیکن ان دونوں تفسیروں میں کوئی منافات نہیں ہے ،کیونکہ ممکن ہے کہ ابتداء میں سبا کسى شخص کا نام ہو ، پھر اس کے تما م بیٹے اور قوم اس نام سے موسوم ہوں اور اس کے بعد یہ نام اس سرزمین کى طرف بھى منتقل ہو گیا ہو
اس کے بعد قران اس خدا ئی ایت کى تفسیر کى تشریح کر تے ہوئے کہ جو قوم سباء کے ا ختیار میں قرار پائی تھى ،اس طرح کہتا ہے :''دوبڑے باغ تھے دائیں اور بائیں طرف''
یہ دونوںباغ کوئی معمولى اور سادہ قسم کے باغ نہیں تھے ،بلکہ یہ ایک عظیم نہر کے دونوں طرف باغوں کا مسلسل اور ملا ہوا سلسلہ تھا ،جو اس عظیم باندھ کے ذریعہ سیراب ہوتے تھے قوم سبا ء اس عظیم باندھ کے ذریعہ ،جو انھوں نے اس علاقہ کے اہم پہاڑوں کے درمیان بنایا تھا ،اس بات پر قادر ہوگئی تھى کہ ان فراواں سیلابوں کو ،جو ویرانى کا سبب بنتے تھے یا کم از کم بیابانوں میں بے کار و فضول طورسے ضائع اور تلف ہو جاتے تھے ،اس باندھ کے پیچھے ذخیرہ کر لیں، اور اس کے اندر کھڑکیاں بنا کر پانى کے اس عظیم مخزن سے استفادہ کر نے کے لئے اپنے کنٹرول میں کر لیں اور اس طرح سے وسیع و عریض زمینوں کو زیر کاشت لائیں _
وہیسیلاب کہ جو خرابى و بر بادى کا باعث بنیں ،وہ اس طرح سے ابادى کا باعث بن جائیں ،کیا یہ عجیب بات نہیں ہے ؟کیا یہ خدا کى عظیم ایت اور نشانى شما ر نہیں ہوتی_؟
یہ بات تو ابادى کے لحاظ سے ہے ،لیکن چونکہ لوگوں کى ابادى کافى نہیں ہے ،بلکہ اہم اور بنیاد ى شرط امن و امان ہوتا ہے ،لہذا مزید کہتا ہے:'' ہم نے ان ابادیوں کے درمیان مناسب اور نزدیک نزدیک فاصلے رکھے ''(تاکہ وہ اسانى اور امن وامان کے ساتھ ایک دوسرى جگہ اجاسکیں )_اور ہم نے ان سے کہا: ''تم ان بستیوں کے درمیان راتوں میں اوردنوں میں پورے امن و امان کے ساتھ سفر کرو،اور ان ابادیوں میں چلو پھرو_''(2)
اس طرح یہ ابادیاں مناسب اور جچا تلافاصلہ رکھتى تھیں ،اور و حوشى اور بیابانى درندوں ،یا چوروں اور ڈاکوو ں کے حملہ کے لحاظ سے بھى انتہائی امن و امان میں تھیں ،اس طرح سے کہ لوگ زاد راہ ،سفر خرچ اور سوارى کے بغیر ہى ،اس صورت میں کہ نہ اکٹھے قافلوں میں چلنے کى ضرورت تھى اور نہ ہى مسلح افراد ساتھ لینے کی کوئی احتیاج تھى ،راستے کى بے امنى کى جہت سے ،یا پانى اور غذا کى کمى کى وجہ سے کسى ڈر اور خوف کے بغیر اپنا سفر جارى رکھ سکتے تھے_
اس کے بعد مزید کہتا ہے :''ہم نے ان سے کہا کہ اپنے پروردگار کیس فراواں روزى میں سے کھاو اور اس کا شکر اداکرو_ ایک پاک وپاکیزہ شہر ہے اور پروردگار بخشنے والا اور مہربان ہے_''
اس چھوٹے سے جملے نے تمام مادى و معنوى نعمتوں کے مجموعے کو زیبا ترین شکل میں منعکس کر دیا ہے ،مادى نعمتوں کے لحاظ سے تو وہ پاک و پاکیزہ زمین رکھتے تھے کہ جو چوروں،ظالموں ،افات و بلیات، خشک سالى و قحط اور بد امنى و وحشت جیسے طرح طرح کے مصائب سے پا ک تھى ،یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ وہ زمین موذى حشرات سے بھى پاک و پاکیزہ تھى ،پاک وپاکیزہ ہوائیں چلتى تھیں اور فرحت بخش نسیم رواں دواں تھى ،زمین زر خیز تھى اور درخت پُر بار تھے _
اور معنوى نعمت کے لحاظ سے خدا کى بخشش و غفران ان کے شامل حال تھى ،وہ ان کى تقصیر و کوتاہى پر صرف نظر کرتا تھا اور انھیں مشمول عذاب اور ان کیسر زمین کو بلا و مصیبت میں گرفتار نہیں کرتا تھا _
لیکن ان ناشکر ے لوگوں نے ان تمام نعمتوں کى قدردانى نہیں کى اور ازمائشے کى بھٹیسے صحیح و سالم باہر نہ اسکے ،انھوں نے کفران نعمت اور روگردانى کى راہ اختیار کر لى لہذا خدا نے بھى ان کیسختى کے ساتھ گوشمالى کى _
اسى لئے خداوند عالم فرماتا ہے :''وہ خدا سے رو گرداں ہوگئے _''(3)
یہ وہ موقع تھا کہ عذاب کا کوڑا ان کے پیکر پر اکر پڑا ،جیسا کہ قران کہتا ہے :''ہم نے بنیادوں کو اکھاڑ کر پھینک دینے والا وحشتناک سیلاب ان کے پاس بھیجا ''اور ان کى ابادسر زمین ایک ویرانے میں بدل گئی _
اس کے بعد قران اس سرزمین کى باقى ماندہ حالت و کیفیت کیس طرح سے توصیف کرتا ہے: ''ہم نے ان کے دو وسیع اور پر نعمت باغوں کو ، بے قدر و قیمت کڑوے پھلوں والے ،اور جھاو کے بے مصرف درختوں اور تھوڑے سے بیرى کے درختوں میں بدل دیا _''
اور اس طرح سے ان تمام سر سبز و شاداب درختوں کے بجائے ،بہت ہى کم قدر و قیمت والے بیابانى اور جنگلى قسم کے چند ایک درخت ،کہ شاید ان میں سے سب زیادہ اہم درخت وہى بیرى کے درخت تھے ،کہ وہ بھى تھوڑیسى ہى مقدار میں ،باقى رہ گئے تھے ،(اب تم اس کیس مجمل داستان کو پڑھنے کے بعد خود ہى ان کى مفصل داستان کا انداز ہ لگا لو،کہ خود ان کے اوپر او ر ان کى اباد سر زمین پر کیا گزرى ؟)
ممکن ہے کہ ان تین قسم کے درختوں کا بیان ہے کہ جو اس سر زمین میں باقى رہ گئے تھے ،(درختوں کے )تین مختلف گروہوں کى طرف اشارہ ہو، کہ ان درختوںمیں سے ایک حصہ نقصان دہ تھا ،بعض بے مصرف تھے _اور بعض بہت ہى کم نفع دینے والے تھے _


(1)سورہ سباء ایت 15

(2)سورہ سباء ایت 18

(3)سورہ سباء ایت 16
 


ہم نے انھیں اس طرح منتشر کیا کہ ضر ب المثل بن گئےقوم سبا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma