مجھے مال کے ذریعہ نہ ورغلائو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
پلک جھپکتے ہى تخت موجودبادشاہ تباہى لاتے ہیں

ملکہ سباء کے روانہ کئے ہوئے افراد نے سرزمین یمن کو خیر باد کہا اور شام اور جناب سلیمان(ع) کے مرکز حکومت کى طرف چل دیئے_دل میں یہى تصور لئے ہوئے کہ سلیمان(ع) ان کے تحائف قبول کرلیں گے اور خوش ہوکر انھیں شاباش کہیں گے_
لیکن جوں ہى وہ سلیمان(ع) کے حضور پیش ہوئے تو وہاں پر عجیب و غریب منظر دیکھا سلیمان(ع) نے نہ صرف ان کا استقبال نہیں کیا بلکہ ان سے یہ بھى کہا'' کیا تم یہ چاہتے ہو کہ(اپنے )مال کے ذریعے میرى مدد کرو؟حالانکہ یہ مال میرى نگاہ میں بالکل بے قیمت سى چیز ہے جو کچھ خدا نے مجھے عطا فرمایا ہے اس سے کئی حصے بہتر اور کہیں قیمتى ہے_''(1)''نبوت،علم ودانش،ہدایت اور تقوى کے مقابلے میں مال کى کیاحیثیت ہے؟یہ تم ہو جو اپنے تحفے پر خوش ہوتے ہو''_(2)
جى ہاں یہ تمہیں لوگ ہو کہ اس قسم کے حسین اور قیمتى تحفے اگر ایک دوسرے کے لئے بھى بھیجو تو اس قدر مسرور شادماں نظر آتے ہو کہ خوشى کى چمک تمہارى آنکھوں سے نمایاں ہوتى ہے لیکن میرى نگاہوں میں ان کى کوئی قدر و قیمت نہیں ہے_
اس طرح سے جناب سلیمان(ع) نے ان کى اقدار اور معیار کى نفى کردى اور تحائف کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا کر ثابت کردیا کہ ان کے نزدیک اقدار اور معیار کچھ اور ہیں_دنیا پرستو ںکے مقرر کردہ معیار ان کے سامنے ہیچ اور بے قیمت ہیں_
جناب سلیمان(ع) نے حق و باطل کے مسئلے میں اپنے اس عزم بالجزم کو ثابت کرنے کے لئے ملکہ سباء کے خاص ایلچى سے فرمایا:''تم ان کى طرف واپس پلٹ جائو(اور اپنے یہ تحفے بھى ساتھ لے جائو)لیکن یہ ضرور یادرکھو کہ ہم کئی لشکر لے کر ان کے پاس بہت جلد پہنچ رہے ہیں جن کے مقابلے کى طاقت ان میں نہیں ہوگی،اور ہم انھیں اس سرزمین سے ذلیل کرکے نکال دیں گے اور وہ نہایت ہى حقیر ہوں گے_''(3)
جناب سلیمان(ع) کى یہ دھمکى ان لوگوں کے نزدیک صحیح اور قابل عمل بھى تھى کیونکہ انھوں نے جناب سلیمان(ع) اور ان کے جاہ و جلال اور فوج و لشکر کو نزدیک سے دیکھا تھا_
چنانچہ جناب سلیمان(ع) نے ان سے دو چیزوں کا تقاضا کیا تھا ایک تو''بر ترى طلبى کو ترک کردیں''اور دوسرے ''حق کے آگے جھک جائیں''_
اہل سباء کا ان دونوں چیزوں کا مثبت جواب نہ دینا اور اس کى بجائے تحائف کا بھیجنا اس بات کى دلیل تھا کہ وہ حق کو قبول نہیں کرتے اور نہ ہى برترى طلبى سے باز آتے ہیں لہذا سلیمان(ع) نے انھیں پر فوجى دبائو ڈالنے کى کوشش کی_
جبکہ ملکہ سباء اور اس کے درباریوں نے دلیل اور ثبوت یا معجزہ وغیرہ کامطالبہ کیا تھا لہذا انھیں موقع فراہم کیا کہ مزید تحقیق کریں لیکن تحفوں کے بھیجنے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ انکار کرچکے ہیں_
یہ بات بھى ہمیں معلوم ہے کہ جناب سلیمان(ع) کو ہدہد نے جو ناخوشگوار خبر سنائی تھى وہ یہ کہ ملک سباء کے لوگ سورج پرست ہیں اور غیب و حضور کے جاننے والے سے روگردانى کئے ہوئے ہیں اور مخلوق کے آگے جھکے ہوئے ہیں_
حضرت سلیمان(ع) کو اسى بات سے سخت دکھ پہنچا تھا اور ہم جانتے ہیں کہ بت پرستى ایک ایسى بات ہے جسکے سامنے کوئی بھى خدائی دین خاموش تماشائی نہیں بن سکتا اور نہ ہى بت پرستوں کو ایک مذہبى اقلیت مان سکتا ہے بلکہ بوقت ضرورت زبردستى بھى بت کدوں کو مسمار اور شرک و بت پرستى کو نیست و نابود کرسکتا ہے_
مندرجہ بالا توضیحات سے بخوبى معلوم ہوتا ہے سلیمان(ع) کى یہ دھمکى ''
لا اکراہ فى الدین''کے بنیادى اصول سے بھى متصادم نہیں ہے کیونکہ بت پرستى کوئی دین نہیں بلکہ ایک خرافات اور راہ حق سے انحراف ہے_


(1)سورہ نمل آیت36
(2)سورہ نمل آیت 36
(3)سورہ نمل آیت37

 


پلک جھپکتے ہى تخت موجودبادشاہ تباہى لاتے ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma