داؤد اور سلیمان علیہما السلام کا فیصلہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
ہد ہد اور ملکہ سبا کى داستانسلیمان (ع) اپنى فوجى طاقت کامظاہرہ دیکھتے ہیں

قرآن میں دوسرى جگہ داؤد(ع) و سلیمان(ع) کى زندگى کے ایک حصہ کى طرف اشارہ ہورہا ہے_ابتداء میں ایک فیصلہ کا ذکر ہے کہ جو حضرت داؤد(ع) اور سلیمان(ع) نے کیا تھا__ایک اجمالى اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا :
''اور داؤد(ع) و سلیمان(ع) کو یاد کرو کہ جس وقت وہ ایک کھیت کے بارے میں فیصلہ کررہے تھے کہ جس کو ایک قوم کى بھیڑیں رات کے وقت چرگئی تھیں،اورہم ان کے فیصلے کے شاہد تھے''_(1)
اگر چہ قرآن نے اس فیصلے کا واقعہ کاملاًسر بستہ طور پر بیان کیا ہے_اور ایک اجمالى اشارہ پر ہى اکتفا کیا ہے،اور صرف اس کے اخلاقى اور تربیتى نتیجہ پر کہ جس کى طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے قناعت کى ہے،لیکن اسلامى روایات اور مفسرین کے بیانات میں اس سلسلے میں بہت سى بحثیں نظر آتى ہیں_
کچھ مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ واقعہ اس طرح تھا:کہ بھیڑوں کا ایک ریوڑرات کے وقت انگوروں کے ایک باغ میں داخل ہوگیا اور انگوروں کى بیلوں اور انگوروں کے گچھوں کو کھا گیا اور انہیں خراب اور ضائع کردیا_
باغ کا مالک حضرت داؤد(ع) کے پاس شکایت لے کر پہنچا_حضرت داؤد(ع) نے حکم دیا کہ اس اتنے بڑے نقصان کے بدلے میں تمام بھیڑیں باغ کے مالک کو دے دى جائیں_
سلیمان(ع) جو اس وقت بچے تھے باپ سے کہتے ہیں کہ،اے خدا کے عظیم پیغمبرآپ اس حکم کو بدل دیں اور منصفانہ فیصلہ کریںباپ نے کہاکہ وہ کیسے؟آپ(ع) جواب میں کہتے ہیں کہ:بھیڑیں تو باغ کے مالک کے سپرد کى جائے تا کہ وہ ان کے دودھ اور اون سے فائدہ اٹھائے اور باغ کو بھیڑوں کے مالک کے حوالے کیا جائے تا کہ وہ اس کى اصلاح اور درستى کى کوشش کرے_جس وقت باغ پہلى حالت میں لوٹ آئے تو وہ اس کے مالک کے سپرد کردیا جائے اور بھیڑیں بھى اپنے مالک کے پاس لوٹ جائیںگی(اور خدا نے سلیمان(ع) کے فیصلہ کى تائید کی)_
یہاں پر ایک اہم سوال باقى ہے: ان دونوں فیصلوں کى بنیاد او رمعیارکیا تھا؟
اس سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ معیار اور بنیاد خسارے اور نقصان کى تلافى کرنا تھا_حضرت داؤد(ع) نے غور کیا اور دیکھا کہ انگوروں کے باغ میں جو نقصان ہوا ہے،وہ بھیڑوں کى قیمت کے برابر ہے_ لہذا انہوں نے حکم دیا کہ اس نقصان کى تلافى کرنے کے لئے بھیڑیں باغ کے مالک کو دے دى جائیں کیونکہ قصور بھیڑوں کے مالک کا تھا_
(اس بات کى طرف توجہ رہے کہ بعض اسلامى روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ رات کے وقت بھیڑوں والے کى ذمہ دارى ہے کہ وہ اپنے ریوڑ کو دوسروں کے کھیتوں میں داخل ہونے سے روکے اور دن کے وقت حفاظت کى ذمہ دارى کھیتوں کے مالک کى ہے)_
اور حضرت سلیمان(ع) کے حکم کا ضابطہ یہ تھا کہ انہوں نے دیکھا کہ باغ کے مالک کا نقصان بھیڑوں کے ایک سال کے منافع کے برابر ہے_ اس بناء پر فیصلہ تو دونوں نے حق و انصاف کے مطابق کیا ہے لیکن اس میں فرق یہ ہے کہ حضرت سلیمان(ع) کا فیصلہ زیادہ گہرائی پر مبنى تھا،کیونکہ اس کے مطابق خسارہ ایک مشت نہیں کیا گیاتھا بلکہ اس طرح خسارہ تدریجى طور پر پورا ہوتا اور یہ فیصلہ بھیڑوں والے پر بھى گراں نہ تھا_
علاوہ ازیں نقصان اور تلافى کے درمیان ایک تناسب تھا،کیونکہ انگور کى جڑیں ختم نہیں ہوئی تھیں،صرف ان کا وقتى منافع ختم ہوتا تھا،اندازاً زیادہ منصفانہ فیصلہ یہ تھا کہ اصل بھیڑیں باغ کے مالک کو نہ دى جائیں،بلکہ اسے ان کا منافع دیا جائے_
بہر حال سلیمان(ع) کے فیصلہ کى اس صورت میں تائید کى گئی ہے:''ہم نے یہ فیصلہ سلیمان(ع) کو سمجھا دیا تھا''_(2)
اور ہمارى تائید سے اس نے اس جھگڑے کے حل کى بہترین راہ معلوم کرلی_
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت داؤد(ع) کا فیصلہ غلط تھا_کیونکہ قرآن ساتھ ہى کہتا ہے:''ہم نے ان دونوں میں سے ہر ایک کو آگاہى اور فیصلے کى اہلیت اور علم عطا کیا تھا''_(3)


(1)سورہ انبیاء آیت 78

(2)سورہ انبیاء آیت79
(3)سورہ انبیاء آیت79

 

 

 


ہد ہد اور ملکہ سبا کى داستانسلیمان (ع) اپنى فوجى طاقت کامظاہرہ دیکھتے ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma