اپنے کام کى مزدورى لے لو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
فراق دوست ،زندگى کے سخت ترین ایامکیوں اس بچے کو قتل کررہے ہو؟

اس گفتگو اور نئے معاہدے کے بعد ''موسى (ع) اپنے استاد کے ساتھ چل پڑے ،چلتے چلتے وہ ایک بستى میں پہنچے انہوں نے اس بستى والوں سے کھانا مانگا لیکن بستى والوں نے انہیں مہمان بنانے سے انکار کردیا ''(1)
اس میں شک نہیں کہ حضرت موسى اور حضرت خضر(ع) کوئی ایسے افراد نہ تھے کہ اس بستى کے لوگوں پر بوجھ بننا چاہتے تھے،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا زاد وتوشہ راستے میں کہیں دے بیٹھے تھے یا پھر ختم ہوگیا تھا لہذاوہ چاہتے تھے کہ بستى والوں کے مہمان ہوجائیں (یہ احتمال بھى ہے کہ اس عالم نے جان بوجھ کرلوگوں سے ایسا کہا ہوتاکہ حضرت موسى کو ایک اور درس دیا جاسکے)_(2)
بہر حال مفسرین میں اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ یہ شہر کو نسا تھا اور کہاں واقع تھا ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ شہر ''
انطاکیہ'' تھا_
بعض نے کہا ہے کہ یہاں '' ایلہ '' شہر مراد ہے کہ جو آج کل ''
ایلات''نام کى مشہور بندرگاہ ہے اور بحیرہ احمر کے کنارے خلیج عقبہ کے نزدیک واقع ہے _
بعض دوسروں کا نظریہ ہے کہ اس سے '' ناصرہ''شہر مراد ہے کہ کہ جو فلسطین کے شمال میں واقع ہے اور حضرت عیسى کى جائے پیدائشے ہے_
مرحوم طبرسى نے اس مقام پر حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کى ایک حدیث نقل کى ہے کہ جو آخرى احتمال کى تائید کرتى ہے _
مجمع الجرین کے بارے میں ہم کہہ چکے ہیں کہ اس سے مراد'' خلیج عقبہ'' اور'' خلیج سویز ''کا سنگم ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ شہر ناصرہ اور بندرگاہ ایلہ اس جگہ سے انطاکیہ کى نسبت زیادہ قریب ہیں _
بہرصورت جو کچھ حضرت موسى علیہ السلام اور ان کے استاد کے ساتھ اس شہر میں پیش آیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کے رہنے والے بہت بخیل اور کم ظرف لوگ تھے پیغمبر اکرم (ص) سے اس شہر والو ںکے بارے میں ایک حدیث منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :''وہ کمینے اور کم ظرف لوگ تھے ''_
قرآن کہتا ہے :'' اس کے باوجود انہوں نے اس شہر میں ایک گرتى ہوئی دیوار دیکھى تو اس عالم نے اس کى مرمت شروع کردى اور اسے کھڑا کردیا _''(3)اور اس کو ویرانى سے بچالیا_
حضرت موسى اس وقت تھکے ہوئے تھے انہیں بھوک بھى ستارہى تھی، کوفت الگ تھى وہ محسوس کررہے تھے اس آبادى کے نا سمجھ لوگوں نے ان کى اور ان کے استاد کى ہتک کى ہے دوسرى طرف وہ دیکھے رہے تھے ، اس بے احترامى کے باوجود حضرت خضر اس گرتى ہوئی دیوار کى تعمیر میں لگے ہوئے تھے جیسے ان کے سلوک کى مزدورى دے رہے ہوں وہ سوچ رہے تھے کہ کم از کم استاد یہ کام اجرت لے کر ہى کرتے تاکہ کھانا تو فراہم ہوجاتا _
لہذا وہ اپنے معاہدے کو پھر بھول گئے انہوں نے پھر اعتراض کیا لیکن اب لہجہ پہلے کى نسبت ملائم اور نرم تھا '' کہنے لگے: اس کام کى کچھ اجرت ہى لے لیتے ''(4)
درحقیقت حضرت موسى علیہ السلام یہ سوچ رہے تھے کہ یہ عدل تو نہیں کہ انسان ان لوگوں سے ایثار کا سلوک کرے کہ جو اس قدر فرومایہ اور کم ظرف ہوں _دوسرے لفظوں میں نیکى اچھى چیز ہے مگر جب محل پر ہو، یہ ٹھیک ہے کہ برائی کے جواب میں نیکى کرنا مردان خدا کا طریقہ ہے لیکن وہاں کہ جہاں بروں کے لئے برائی کى تشویق کا باعث نہ ہو ''


(1)سورہ کہف آیت77
(2)اس نکتے کى یاد دہانى بھى ضرورى ہے کہ '' قریة'' قرآن کى زبان میں ایک عام مفہوم رکھتا ہے اور ہر قسم کے شہر اور آبادى کے معنى میں آیا ہے لیکن یہاں خصوصیت سے شہر مراد ہے کیونکہ چند آیات کے بعد اس کے لئے لفظ '' المدینہ''(یعنى شہر) آیاہے _

(3)سورہ کہف آیت77
(4)سورہ کہف آیت77

 

 

فراق دوست ،زندگى کے سخت ترین ایامکیوں اس بچے کو قتل کررہے ہو؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma