ایک نیک عمل نے موسى (ع) پر بھلائیوں کے دروازے کھول دیئے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
حضرت موسى (ع) جناب شعیب(ع) کے گھر میںمدین کہاں تھا؟

اس مقام پر ہم اس سرگزشت کے پانچوں حصے پر پہنچ گئے ہیں اور وہ موقع یہ ہے کہ حضرت موسى علیہ السلام شہرمدین میں پہنچ گئے ہیں _
یہ جوان پاکباز انسان کئی روز تک تنہا چلتا رہا یہ راستہ وہ تھا جو نہ کبھى اس نے دیکھا تھا نہ اسے طے کیا تھا بعض لوگوں کے قول کے مطابق حضرت موسى علیہ السلام مجبور تھے کہ پابرہنہ راستہ طے کریں، بیان کیا گیا ہے کہ مسلسل آٹھ روز تک چلتے رہے یہاں تک کہ چلتے چلتے ان کے پائوں میں چھالے پڑگئے _
جب بھوک لگتى تھى تو جنگل کى گھاس اور درختوں کے پتے کھالیتے تھے ان تمام مشکلات اور زحمات میں صرف ایک خیال سے ان کے دل کوراحت رہتى تھى کہ انھیں افق میں شہرمدین کا منظر نظر آنے لگا ان کے دل میں آسود گى کى ایک لہر اٹھنے لگى وہ شہر کے قریب پہنچے انہوں نے لوگوں کا ایک انبوہ دیکھا وہ فورا سمجھ گئے کہ یہ لوگ چرواہے ہیں کہ جو کنویں کے پاس اپنى بھیڑوں کو پانى پلانے آئے ہیں _
''جب حضرت موسى علیہ السلام کنویں کے قریب آئے تو انھوں نے وہاں بہت سے آمیوں کو دیکھا جو کنویں سے پانى بھر کے اپنے چوپایوں کو پلارہے تھے،انھوں نے اس کنویں کے پاس دو عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنى بھیڑوں کو لئے کھڑى تھیں مگر کنویں کے قریب نہیں آتى تھیں''_ (1)
ان باعفت لڑکیوں کى حالت قابل رحم تھى جو ایک گوشے میں کھڑى تھیں اور کوئی آدمى بھى ان کے ساتھ انصاف نہیں کرتا تھا چرواہے صرف اپنى بھیڑوں کى فکر میں تھے اور کسى اور کو موقع نہیں دیتے تھے حضرت موسى علیہ السلام نے ان لڑکیوں کى یہ حالت دیکھى تو ان کے نزدیک آئے اور پوچھا : '' تم یہاں کیسے کھڑى ہو''_(2)
تم آگے کیوں نہیں بڑھتیںاور اپنى بھیڑوں کو پانى کیوں نہیں پلاتیں ؟
حضرت موسى علیہ السلام کے لئے یہ حق کشى ، ظلم وستم ، بے عدالتى اور مظلوموں کے حقوق کى عدم پاسدارى جو انھوں نے شہر مدین میں دیکھی، قابل برداشت نہ تھى _
مظلوموں کو ظالم سے بچانا ان کى فطرت تھى اسى وجہ سے انھوں نے فرعون کے محل اور اس کى نعمتوں کو ٹھکرادیا تھا اور وطن سے بے وطن ہوگئے تھے وہ اپنى اس روش حیات کو ترک نہیں کرسکتے تھے اور ظلم کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے تھے
لڑکیوں نے حضرت موسى علیہ السلام سے جواب میں کہا :'' ہم اس وقت تک اپنى بھیڑوں کو پانى نہیں پلاسکتے، جب تک تمام چرواہے اپنے حیوانات کو پانى پلاکر نکل نہ جائیں ''_(3)
ان لڑکیوںنے اس بات کى وضاحت کے لئے کہ ان باعفت لڑکیوں کے باپ نے انھیں تنہا اس کام کے لئے کیوں بھیج دیا ہے یہ بھى اضافہ کیا کہ ہمارا باپ نہایت ضعیف العمرہے _
نہ تو اس میں اتنى طاقت ہے کہ بھیڑوں کو پانى پلاسکے اور نہ ہمارا کوئی بھائی ہے جو یہ کام کرلے اس خیال سے کہ کسى پر بارنہ ہوں ہم خود ہى یہ کام کرتے ہیں _
حضرت موسى علیہ السلام کو یہ باتیں سن کر بہت کوفت ہوئی اور دل میں کہا کہ یہ کیسے بے انصاف لوگ ہیں کہ انھیں صرف اپنى فکر ہے اور کسى مظلوم کى ذرا بھى پرواہ نہیں کرتے _
وہ آگے آئے ،بھارى ڈول اٹھایا اور اسے کنوئیں میں ڈالا، کہتے ہیں کہ وہ ڈول اتنا بڑا تھا کہ چند آدمى مل کر اسے کھینچ سکتے تھے لیکن حضرت موسى علیہ السلام نے اپنے قوى بازوئوں سے اسے اکیلے ہى کھینچ لیا اور ان دونوں عورتوں کى بھیڑوں کو پانى پلادیا ''_(4)
بیان کیا جاتاہے کہ جب حضرت موسى علیہ السلام کنویں کے قریب آئے اورلوگوں کو ایک طرف کیا تو ان سے کہا:'' تم کیسے لوگ ہو کہ اپنے سوا کسى اور کى پرواہ ہى نہیں کرتے ''_
یہ سن کر لوگ ایک طرف ہٹ گئے اور ڈول حضرت موسى کے حوالے کرکے بولے :
'' لیجئے، بسم اللہ، اگرآپ پانى کھینچ سکتے ہیں،انھوں نے حضرت موسى علیہ السلام کو تنہاچھوڑ دیا،لیکن حضرت موسى علیہ السلام اس وقت اگرچہ تھکے ہوئے تھے،اور انھیں بھوک لگ رہى تھى مگر قوت ایمانى ان کى مدد گار ہوئی ، جس نے ان کى جسمانى قوت میں اضافہ کردیا اور کنویں سے ایک ہى ڈول کھینچ کر ان دنوں عورتوں کى بھیڑوںکو پانى پلادیا _
اس کے بعد حضرت موسى علیہ السلام سائے میں آبیٹھے اور بارگاہ ایزدى میں عرض کرنے لگے :'' خداوند اتو مجھے جو بھى خیراور نیکى بخشے ، میں اس کا محتاج ہوں ''_(5)
حضرت موسى علیہ السلام ( اس وقت ) تھکے ہوئے اور بھوکے تھے اس شہر میں اجنبى اور تنہاتھے اور ان کے لیے کو ئی سرچھپانے کى جگہ بھى نہ تھى مگر پھر بھى وہ بے قرار نہ تھے آپ کا نفس ایسا مطمئن تھا کہ دعا کے وقت بھى یہ نہیں کہا کہ'' خدایا تو میرے لیے ایسا یاویسا کر'' بلکہ یہ کہا کہ : تو جو خیر بھى مجھے بخشے میں اس کا محتاج ہوں '' _
یعنى صرف اپنى احتیاج اور نیاز کو عرض کرتے ہیں اور باقى امور الطاف خداوندى پر چھوڑدیتے ہیں _
لیکن دیکھو کہ کار خیر کیا قدرت نمائی کرتا ہے اور اس میں کتنى عجیب برکات ہیں صرف ''
لوجہ اللہ'' ایک قدم اٹھانے اور ایک نا آشنا مظلوم کى حمایت میں کنویں سے پانى کے ایک ڈول کھیچنے سے حضرت موسى کی زندگى میں ایک نیاباب کھل گیا اور یہ عمل خیران کے لیے برکات مادى اور روحانى دنیا بطور تحفہ لایا اور وہ ناپیدا نعمت (جس کے حصول کےلئے انھیں برسوں کوشش کرنا پڑتى ) اللہ نے انھیں بخش دى حضرت موسى علیہ السلام کے لئے خوش نصیبى کا دور اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے یہ دیکھا کہ ان دونوں بہنوں میں سے ایک نہایت حیاسے قدم اٹھاتى ہوئی آرہى ہے اس کى وضع سے ظاہر تھا کہ اسکوایک جوان سے باتیں کرتے ہوئے شرم آتى ہے وہ لڑکى حضرت موسى علیہ السلام کے قریب آئی اور صرف ایک جمکہ کہا : میرے والد صاحب آپ کو بلاتے ہیں تاکہ آپ نے ہمارى بکریوں کے لئے کنویں سے جو پانى کھینچا تھا ، اس کا معاوضہ دیں ''_(6)
یہ سن کر حضرت موسى علیہ السلام کے دل میں امید کى بجلى چمکى گویاانھیں یہ احساس ہوا کہ ان کے لئے ایک عظیم خوش نصیبى کے اسباب فراہم ہورہے ہیں وہ ایک بزرگ انسان سے ملیں گے وہ ایک ایسا حق شناس انسان معلوم ہوتا ہے جو یہ بات پسند نہیں کرتا کہ انسان کى کسى زحمت کا، یہاں تک کہ پانى کے ایک ڈول کھیچنے کا بھى معاوضہ نہ دے یہ ضرور کوئی ملکوتى اور الہى انسان ہوگا یا اللہ یہ کیسا عجیب اور نادر موقع ہے ؟
بیشک وہ پیر مرد حضرت شعیب(ع) پیغمبر تھے انہوں نے برسوں تک اس شہر کے لوگوں کو'' رجوع الى اللہ''کى دعوت دى تھى وہ حق پرستى اور حق شناسى کا نمونہ تھے _
جب انھیں کل واقعے کا علم ہوا تو انھوں نے تہیہ کرلیا کہ اس اجنبى جوان کو اپنے دین کى تبلیغ کریں گے _


(1)سورہ قصص آیت23

(2) سورہ قصص آیت 23
(3)سورہ قصص آیت 24

(4) سورہ قصص آیت24
(5) سورہ قصص آیت 24

(6) سورہ قصص آیت 25

 

حضرت موسى (ع) جناب شعیب(ع) کے گھر میںمدین کہاں تھا؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma