تجارتی دستاویزات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
خدا پرستی ، آگاہی ، روشن فکری اور علم و دانش سودخوری کے نقصانات

جیسے قرآن نے سود خوری ، ذخیرہ اندوزی اور بخل کے خلاف سخت جنگ کی ہے ۔ اسی طرح تجا رتی ا ور اقتصادی امور کے لیے تفصیلی قواعد بیان کیے ہیں تاکہ جتنا زیادہ ہو سکے سرمایہ طبیعی رشد حاصل کرے اور کسی قسم کا جھگڑا،اختلاف اور نزاع پیدا نہ ہو ۔
محل بحث آیت قرآن حکیم کی طویل ترین آیت ہے ۔ا س میں مالی لین دین کے قواعد کے سلسلے میں اٹھارہ ا حکام بیا ن کیے گیے ہیںذیل میںہم ا ن قوا عد کو ترتیب وار ذکر کرتے ہیں:
۱۔جب کوئی شخص کسی کو قرض دے یا کوئی معاملہ انجام پائے اور طرفین میں سے ایک مقروض ہوجائے تو بعد میں ممکنہ کسی اشتباہ یا نزاع سے بچنے کے لیے معاملہ کی ساری شرائط ضبط تحریر میں آجانا چاہئیں ۔
یا ایھا الذین آمنوا اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی” فاکتبوہ“:یہ بات قابل توجہ ہے کہ آیت میں لفط ” قرض “ نہیں بلکہ ”دین “ استعمال ہوا ،۔ قرض صرف وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں دو ایسی چیزوں کا تبادلہ ہو جو ایک دوسرے کی مثل ہوں ۔ مثلا نقدی یا جنس قرض کے طور پر لی جائے اور اس سے فائدہ اٹھا کر اس کی مثل واپس کر دی جائے لیکن دین کا دامن وسیع تر ہے کیونکہ جیسا معاملہ انجام پائے مثلا صلح ، اجارہ ، خرید و فروخت و غیرہ پھر اگر ایک طرف سے کچھ دیا جانا ہو تو اسے دین کہتے ہیں ، اس بنا ء پر زیر بحث آیت ان تمام معاملات پر محیط ہے جو سلف “ یا نسیہ کے طور پر انجام پاتے ہیں یہاں تک کہ قرض بھی اس کے مفہوم میں داخل ہے ۔
۲۔ اطمینان کے حصول کے لیے اور طرفین میں سے کسی کی ممکنہ بے جا مداخلت سے بچنے کے لیے حکم دیا گیا ہے کہ دستاویز کوئی تیسرا شخص لکھے ۔
و لیکتب بینکم کاتب “:اس جملے کے ظاہری مفہوم سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ دستاویز لکھنا واجب ہے ۔ لیکن بعد کی آیت میں فرمایا گیا ہے فان امن بعضکم بعضا فلیود الذی اوتمن امانتہ :
اگر تمہیں آپس میں اطمینان ہے کہ جس کے ذمہ حق ہے وہ ادا کردے گا ( تو تحریرموجود نہ ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر اس صورت میں ضروری ہے جب آپس میں مکمل اطمینان نہ ہو اور احتمال ہو کہ معاملہ نزاع اور کشمش تک جا پہنچے گا ۔
۳۔ کاتب کو چاہیے کہ دستاویز لکھتے وقت حق کو پیش نظر رکھے اور عین واقع کے مطابق لکھے ( بالعدل ) ۔
۴۔ جس شخص کو خدائے تعالی نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت عطا فرمائی ہے اور وہ معاملہ کے بارے میں احکام و شرائط سے آگاہ ہے اسے چاہیے کہ دستاویز لکھنے میں گریز نہ کرے بلکہ اس اجتماعی امر میں طرفین کی مدد کرے ۔
ولا یاب کاتب ان یکتب کما علمہ اللہ فلیکتب “:
” کما علمہ اللہ “ مندرجہ بالا تفسیر کی روشنی میں دیکھا جائے تو آیت کا یہ حصہ مزید تاکید اور تشویق کے لیے معلوم ہوتا ہے ۔ نیز یہ ایک اور نکتے کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ جیسے خدا نے اسے تعلیم دی ہے ، انتہائی حد تک عدل اور ایمان داری کو ملحوظ رکھے اور اصطلاح کے مطابق بینہ و بین اللہ دستاویز کو انتہائی سوچ بچار سے ترتیب دے ۔
البتہ دستاویز لکھنے کی دعوت قبول کرنا واجب عینی نہیں جیسا کہ اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے :
ولا تسئمو ا ٓ ان تکتبوہ صغیر اَ او کبیراَ”:یعنی کسی چھوٹی بڑی دستاویز لکھنے سے دل تنگ نہ ہوگا ۔
۵۔ چاہیے کہ معاملہ کے دونوں فریق میں سے ایک دستاویز کی املا کروائے یعنی وہ کہتا جائے تاکہ کاتب لکھتا جائے ۔ لیکن طرفین میں سے ایسا کون کرے؟اس بارے میں آیت کہتی ہے یعنی مقروض جسے حق ادا کرنا ہے وہ ایسا کرے (” ولیملل الذی علیہ الحق “)
ایسی دستاویزات میں ہمیشہ بنیادی اقرار تو مقروض ہی کا ہوتا ہے اور اسی کے دستخط بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور اسی لیے جو متن اس کے اعتراف اور املا کروانے سے تیار ہوگا وہ ایک ایسی بنیاد بن جائے گا جس کا انکار نہیں ہوسکتا ۔
۶۔ جس کے ذمہ حق واجب الا داہے اسے چاہیے کہ املا کرواتے وقت خدا تعالی کوپیش نظر رکھے اور کسی چیز کو فراموش نہ کرے اور تمام چیزیں کہے تاکہ کاتب لکھ لے ” ولیتق اللہ ربہ ولا یبخس منہ شیئا
۷۔ اگر مقراض سفیہ و نادان ہو اپنے مالی امور کی دیکھ بھال نہ کر سکتا ہو اور اپنے نفع و نقصان کو نہ سمجھ سکتا ہو ضعیف و کمزور ، کوتاہ فکر کم عقل اور گونگا ہو بات کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو ان صورتوں میں اس کی جگہ اس کا ولی املا کروائے گا اور دستاویز کو ترتیب دینے والا اسے لکھے گا ” فان کان الذی علیہ الحق سفیھا او ضعیفا اولا یستطیع ان یمل ھو فلیملل ولیہ “:
۸۔ ” ولی “ کو بھی چاہیے کہ املا میں عدالت کو محفوظ رکھے اور حق سے انحراف سے بچے ( ولیملل ولیہ بالعدل )
۹۔ طرفین کو دستاویز پر دو گواہ بھی بنانا چاہیے ( واستشھدوا شھیدین ) ۔
۱۰۔ ۱۱۔ یہ دونوں گواہ بالغ اور مسلمان ہوں ( من رجالکم ) ”( کم )“ مسلمان ہونے کا معنی دیتا ہے کیونکہ” من رجالکم “ کا لفظی معنی ہے ” ایسے مرد جو تمہاری جماعت میں سے ہوں “
۱۲۔ ایک مرد اور دو عورتیں بھی گواہ ہوسکتے ہیں فان لم یکونا رجلین فرجل و امراتین
۱۳۔ گواہ قابل اعتماد ہونا چاہیے ( ممن ترضون من الشھدآء --“) اس جملہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گواہ ہر لحاظ سے پسندیدہ ہو ں اور اس سے مراد ان کی عدالت ہی ہے جیسق کہ روایات میں بھی آیا ہے ۔
۱۴۔ جب گواہ دو ہوں تو ان میں سے ہر ایک مستقل گواہی دے سکتا ہے لیکن جب ایک مرد اور دو عورتیں ہو ں تو پھر ان دو عورتوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے سے مل کر منتقل ہوکر گواہی دیں تاکہ ان میں سے ایک اشتباہ کرے تو دوسری اسے یاد دلادے ۔
رہا یہ سوال کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر کیوں شمار کی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت نرم دل ہوتی ہے اور ممکن ہے کہ بعض اوقات کسی کے زیر اثر آجائے اس لیے اس کے ساتھ ایک اور عورت کو شامل کیا گیا ہے تاکہ وہ اسے کسی کے زیر اثر ہونے سے روک سکے ”ان تضل احدٰھما فتذکر احدٰھما الاخری
۱۵۔ قرض تھوڑا ہو یا زیادہ اسے تحریر میں آجانا چاہیے کیونکہ اسلام چاہتا ہے کہ اقتصادی روابط میں کسی قسم کا جھگڑا اور نزاع نہ ہو وہ کہتا ہے قرض کی کمی کی وجہ سے دستاویز لکھنے میں کوتاہی نہیں ہونا چاہیے ( ” ولا تسئموا ان تکتبوہ صغیرا او کبیراََ الی اجلہ “ )
مستی اور خستگی کو سامہ کہتے ہیں ” لا تسئموا “ یعنی خستہ و دل تنگ نہ ہوجاؤ ۔
یہاں قرآن مندرجہ بالا احکام کے فلسفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دستاویزات کی تیاری ایک طرف تو عدل و انصاف کی ضامن ہے اور دوسری طرف گواہوں کے لیے شہادت کے وقت تقویت اور اطمینان کا باعث ہے اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ افراد معاشرہ کے مابین نزاع پیدا ہونے میں رکاوٹ کا کام دیتی ہے ” ذٰلکم اقسط عنداللہ و اقوم للشھادة و ادنی الا تر تابوا
۱۶۔ جب معاملہ نقد بنقد ہو تو کسی سند یا دستاویز کی ضرورت نہیں ہے ” الا ان تکون تجارة حاضرة تدیرونھا بینکم فلیس علیکم جناح الا تکتبوھا
”تجارة حاضرة “ کا معنی ہے نقد معاملہ “ اور” تدیرونھا “ کا مطلب ہے دست بدست پھیرنا جو کہ نقد معاملہ ہی کی تاکید ہے ۔
” فلا جناح “ یعنی کوئی حرج نہیں ۔ یہ لفظ ظاہر کرتا ہے کہ جب نقد معاملہ انجام پا رہا ہو اس وقت بھی دستاویز تیار کرلینا بہتر ہے کیونکہ اس طرح ہر طرح کا ممکنہ اشتباہ اور اعتراض ختم ہوجاتا ہے ۔
۱۷۔ نقد معاملہ میں اگر چہ تحریر ضروری نہیں البتہ گواہ بنا لینا چاہئیں ( واشھدوا ٓ اذا تبایعتم “ )
۱۸۔ آیت کے آخر میں حکم دیا گیا ہے کہ گواہوں اور کاتبوں پر کسی قسم کا تشدد اور سختی نہیں کی جانی چاہیے تاکہ وہ حق اور عدالت سے اپنا کام سر انجام دیں (” ولا یضار کاتب ولا شھید “) ۔
جو کچھ ہم نے مندرجہ بالا جملے میں کہا ہے اس سے معلوم ہوا کہ ” یضار “ اصطلاح کے مطابق فعل مجہول ہے یعنی اسے اذیت نہ پہنچائی جائے۔
باقی رہا عدالت کے بارے میں کاتبوں اور گواہوں کے لیے حکم ۔۔۔ تو وہ آیت کی ابتداء میں آچکا ہے اس لیے ضرورت نہیں کہ ” لا یضار “ کو فعل معلوم سمجھیں اور اس کے معنی یہ لیں ” کہ وہ اذیت نہ پہنچائے تو وہ فسق و گناہ کا مرتکب قرار پائے گا اور ایسا کرنا بندگئی خدا کے تقاضوں کے منافی ہے ( و ان تفعلو ا فانہ فسوق بکم “) ۔
یہ تمام احکام بیان کرنے کے بعد آخر میں لوگوں کو تقوی و پرہیز گاری اور اوامر الہی ٰ کی اطاعت کی دعوت دی گئی ہے (”واتقوا اللہ “)۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ جو چیز تمہاری مادی اور معنوی زندگی کے لیے ضروری ہیں ،خدا تعالی تمہیں ان کی تعلیم دیتا ہے (” و یعلمکم اللہ “) وہ لوگوں کے فائدے اور نقصان سے آگاہ ہے اور جن چیزوں میں ان کی بہتری اور صلاح ہے وہی ان کے لیے مقرر کرتا ہے ( ” واللہ بکل شیء علیم “) ۔

خدا پرستی ، آگاہی ، روشن فکری اور علم و دانش سودخوری کے نقصانات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma