راہ خدا میں خرچ کرنے کے اسباب و نتائج

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
ایک اور مثال” و اللہ غنی حلیم “

ان دو آیات میں پہلے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ اہل ایمان کو نہیں چاہیے کہ وہ راہ خدا میں خرچ کیے گئے سرمائے کو احسان جتلا کر اور آزار پہنچا کر ضائع کردیں ۔ اس کے لیے دو عمدہ مثالوں کے ذریعہ دونوں طرح کے انفاق کی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے ۔ ایک وہ خرچ ہے جس میں احسان جتلانا ، آزار پہنچانا ،ریا کاری اور خود نمائی کی آمیزش ہے اور دوسرا وہ کہ جس کا سر چشمہ خلوص اور انسانی ہمدردی کے جذبات ہیں ۔
پہلی مثال : سخت پتھر کی ہے جس پر مٹی کی باریک سی تہ جمی ہو ، اس میں بیج ڈال دیا جائے ، اس پر کھلی ہوا چلے اور سورج چمکے ، پھر اس پر موٹے موٹے قطرات کی بارش خوب برسے ۔مسلم ہے کہ ایسی بارش مٹی کی پتلی سی تہ کو دھو ڈالے گی اور بیج کو بہا لے جائے گی سخت پتھر جس میں پانی اور بیج نہیں ڈالا جاسکتا اس پر سبز ہ کیسے اگ سکتا ہے  اس کی سختی ظاہر ہوجائے گی یہ سب اس لیے نہیں ہوا کہ سورج کی حدت کھلی ہو اور مذکورہ بارش کوئی برا اثر رکھتی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیج کے لئے جوجگہ منتخب کی گئی وہ مناسب نہیں تھی۔ ظاہری طور پر صحیح تھی اندرونی طورپر ناقابل نفوذتھی اس پر صرف مٹی کی پتلی سی تہ جمی ہوئی تھی جب کہ سبزے اور درخت کی جڑوں کے لئے گہری مٹی درکا رہے تاکہ پودوں کو اس ذریعے سے غذا بھی پہنچتی رہے ۔
قرآن نے ریاکاری ، احسان جتلانے اور آزارپہنچانے کے لیے کیے گئے خرچ کو جس کا سرچشمہ۔سخت اور قساوت رکھنے والے دل ہیں ،مٹی کی اس نازک تہ سے تشبیپہ دی ہے جس نے سخت پتھرکے بالائی حصہ کو چھپا رکھاہے اور جس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا یا جا سکتا ہو بلکہ وہ باغبان اور کسان کی محنت ضائع کردے۔ (۱)
دوسری مثال : ایک سرسبزشاداب باغ کی ہے جو بلند اور زرخیز زمین میں ہے اس پر آزاد ہوا چلے اور وافردھوپ پڑتی ہے ۔موسلا دھار اور نفع بخش بارش ا س پر برسے اورجب موسلا دھار بارش نہ برسے تب بھی شبنم اور پھوا ر کے ذریعہ اس کی زمین ایسی زرخیز ہے کہ شبنم اور پھوار بھی اس کے درختوں کے ثمر آور ہونے کے لئے کافی ہے ۔چونکہ وہ بلندی پر ہے اس لئے کھلی ہوا اور دھوپ سے خوب بہرہ مند ہو تا ہے۔ اس کا خوب صورت منظرہردیکھنے والے کی آنکھ کے لئے پرکشش ہے یہ سیلا ب کے خطرے سے بھی خالی ہے
جولوگ اپنا مال خدا کی خوشنودی اوراپنے قلب وروح میں ایما ن ویقین کو استوار کر نے کے لئے خرچ کر تے ہیں وہ ا س با غ کی طرح ہیںجو پر برکت ۔مفید اور بیش بہا پھل دینے والا ہو ۔
چند اہم نکات
(۱)بعض اعمال نیک اعما ل کے نتائج کو ختم کر دیتے ہیں :۔”لا تبطلو اصدقٰتکم بالمن والاذٰی“(یعنی اپنے صدقات کو احسان جتلا کراور ایذارسانی سے با طل نہ کرو ۔اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ کچھ اعمال نیک اعمال کے نتائج کو ختم کر دیں ۔ یہ وہی مسئلہ احباط ہے جس کی تفصیل اسی سورہ کی آیت ۲۱۷ کے ذیل میں گزر چکی ہے ۔
(۲)ریاکاری کی مشابہت :۔ وہ پتھر جس پر مٹی کی باریک سی تہ ہو اس کی ریاکارانہ عمل سے مشابہت واضح ہے ۔
ریا کار لوگ اپنے سخت اوربے ثمر باطن کو خیر خواہی اور نیکی کے چہرے سے چھپالیتے ہیں اور ایسے اعمال بجالاتے ہیں جن کی جڑیں ان کے وجود میں استوار نہیں ہیں لیکن زندگی کے واقعات وحوادث بہت جلد اس پردے کو ہٹادیتے ہیں اوران کے باطن کوآشکا ر کر دیتے ہیں ۔
(۳)انفاق کے اسباب :”ابتغاء مرضات اللہ تثبیتامن انفسھم “(یعنی جو اپنا ما ل خوشنو دی خدا اور اپنے آپ میں انسانی فضائل باقی رکھنے کے لئے خرچ کرتے ہیں )سے ظاہر ہو تا ہے کہ صحیح اور خدا کے لئے خرچ کر نے کے دو اسبا ب ہیں
(۱)خوشنوی خدا
(۲)روح وایمان کی تقویت اور اطمینانِ قلب
اس سے واضح ہو تا ہے کہ راہ خدا میں خرچ کرنے والے در اصل وہ لو گ ہیں جو صرف خدا اور فضائل انسانی کی پرورش اور اپنی روح میں ان صفات کے اثبات واستحکا م لے لئے خرچ کرتے ہیں ۔اسی طرح وہ اس اضطراب اور دکھ کو دور کر نے کے لئے خرچ کر تے ہیں جو محروم لوگوں کو دیکھ کر احساس ذمہ د اری اور مسئولیت کے پیش نظران کے وجدان میں پیدا ہوجاتا ہے (اس بناء پر آیت میں لفظ ”من “ ”فی “کے معنی میں ہوگا )۔
(۴)خدابصیر ہے :د وسری آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے ” وللہ بماتعملون بصیر“(یعنی تم جو کچھ انجام دیتے ہوخدا اسے دیکھنے والا ہے )یہ جملہ نیک اعمال انجام دینے والوں کے لئے ہے کہ جب بھی وہ کوئی عمل خیر انجام دیں توتوجہ رکھیں کہ نیت یا عمل میں ذراسی بھی آلودگی پیدا نہ ہو کیونکہ خدا تعالی ان کے اعمال کی نگرانی کر تا ہے
۲۶۶۔ایود احدکم ان تکون لہ جنة من نخیل واعناب تجری من تحتھالانھار لہ فیھا من کل الثمرات واصابہ الکبرولہ ذریة ضعفاء فا صابھااعصار فیہ نار فاحترقت ط کذالک یبین اللہ لکم الاٰیٰت لعلکم تتفکرون
ترجمہ
۲۶۶۔کیاتم میں سے کوئی یہ پسند کرے گاکہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کاباغ ہوجس کے درختوں کے نیچے نہریں جا ری ہو ں ۔اس با غ میں اس کے لئے ہر طرح کا پھل مو جو د ہو لیکن وہ بڑھاپے کو پہنچ چکا ہواور اس کی اولاد (چھوٹی اور کمزور ہو)(ایسے میں) آگ کا زبردست بگولہ اٹھے اور جلاڈالے (جو لوگ خرچ کر کے ریا کاری ،احسان جتلا نے اور ایذارسانی کے ذریعے اس عمل کو باطل دیتے ہیں ان کی حالت ایسی ہے )خدا اس طرح اپنی آیات آشکا ر کر تا ہے کہ شاید تم غوروفکر کرو (اور سوچ سمجھ کر راہ حق پا لو)۔
تفسیر


 

(۱) ”صفوان“ جمع ہے ۔ اس کا مفر د ” صفوانہ“ ہے اس کا معنی ہے صاف وشفاف پتھر۔ ” وابل“ سخت اور موٹے قطرات والی بارش کو کہتے ہیں۔” صلد“ کا معنی بھی صاف پتھر ہے۔ضفین” ضعف“ کا تثنیہ ہے اس کا معنی ہے دوگنا اور تثنیہ ہو نے کی وجہ سے اس کا معنی چوگنا نہیں ہو جاتا مثلا جیسے زوجین ہے جو کہ دوطرف کی نشاندہی کرتا ہے( غور کیجئے )
ایک اور مثال” و اللہ غنی حلیم “
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma