” و اللہ غنی حلیم “

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
راہ خدا میں خرچ کرنے کے اسباب و نتائج یہ آیت اشخاص کی اجتماعی قدر وقیمت

چھوٹے چھوٹے جملے جو عموما آیات کے آخر میں آتے ہیں اور جن میں خدا کی بعض صفات بیان کی گئی ہوتی ہیں آیت کے مضمون سے یقینا مربوط ہوتے ہیں ۔ اس نکتے کی طرف توجہ رکھتے ہوئے ” واللہ غنی حلیم “( یعنی خدابے نیاز اور بردبار ہے ) کے جملے سے مراد یہ ہے کہ انسان چونکہ طبعی طور پر سرکش ہے اور کسی مقام و مرتبہ اور ثروت و دولت تک پہنچ جانے کے بعد ااپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگتا ہے اور یہ حالت بعض اوقات اس کی طرف سے فقراء اور مساکین سے گرمی اور بد زبانی کا باعث بن جاتی ہے ۔ لہذا فرمایا گیا ہے کہ غنی باالذات صرف خدا ہے ۔ حقیقت میں وہی ہے جو تمام چیزوں سے بے نیاز ہے اور انسان کی بے نیازی تو سراب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی لہذا مقام اور دولت کی وجہ سے اسے فقراء سے بے اعتنائی نہیں برتنا چاہئے ۔ علاوہ از ایں خدا لوگوں کی ناشکری کے مقابلے میں بردبار ہے لہذا صاحب ایمان افراد کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ مذکورہ جملہ میں اس طرف اشارہ ہو کہ خدا تمہارے انفاق اور خرچ کرنے سے بے نیاز ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو تمہارے ہی فائدہ میں ہے ۔ اس لیے تمہارا کسی پر احسان نہیں ہے ۔ علاوہ از ایں وہ تمہاری سخت روی اور درشتی کے مقابے میں بردبار ہے اور سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا تاکہ تم بیدار ہوکر اپنی اصلاح کرلو۔
۲۶۴یا ایھا الذین آمنوا لا تبطلوا صدقٰتکم بالمن و الاٰذی کا الذی ینفق رئا ء الناس ولا یو من با للہ و الیوم الاٰخر ط فمثلہ کمثل صفوان علیہ تراب فاصابہ وابل فترکہ صلدا ط لا یقدرون علی شیء مما کسبواط واللہ لا یھدی القوم الکافرین

۲۶۵۔ و مثل الذین ینفقون اموالھم ابتغاء مرضات اللہ و تثبیتا من انفسھم کمثل جنة بربوة اصابھا وابل فاٰتت اکلھا ضعفین فان لم یصبھا وابل فطل واللہ بما تعملون بصیر
ترجمہ
۲۶۴۔ اے ایمان والوں ! اپنی بخششوں کو احسان جتانے اور آزار پہنچانے سے اس شخص کی طرح باطل نہ کرو جو دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے ، خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا( اور اس کا کام) پتھر کے ٹکڑے کی طرح ہے جس پر مٹی ( کی باریک تہ ) ہو اور اس میں بیج ڈالے جائیں اور خوب بارش اس پر برسے ( اور ساری مٹی اور بیج بہا لے جائے ) اور اسے ( مٹی اور بیج سے )خالی کردے ۔ ایسے لوگ جو کام بجالاتے ہیں اس سے کوئی چیز حاصل نہیں کرسکتے اور خدا کافرقوم کو ہدایت نہیںکرتا ۔
۲۶۵۔اور ان لوگوں کا ( کام ) جو اپنا مال خدا کی خشنودی اور اپنی روح ( میں ملکات انسانی ) باقی رکھنے کے لیے خرچ کرتے ہیں اس باغ کی طرح ہے جو بلند جگہ پر ہو ، اس پر تیز بارش برسے اور وہ کھلی ہوا اور نور آفتاب سے خوب بہرہ ور ہو ) اور اپنا پھل دو گنا دے اور اگر اس پر سخت بارش نہ برسے اور اس پر پھوار اور شبنم پڑے لہذا وہ ہمیشہ سر سبز ، شاداب اور ترو تازہ رہے)اور تم جو کچھ انجام دیتے ہو خدا اس سے بینا ہے ۔

راہ خدا میں خرچ کرنے کے اسباب و نتائج یہ آیت اشخاص کی اجتماعی قدر وقیمت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma