بہت سے مفسرین اور موٴرخین نے اس آیت کے ذیل میں یہ واقعہ لکھا ہے :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
چارپرندےواقعے کی تفصیلات

ایک دن حضرت ابراہیم دریا کے کنارے سے گزر رہے تھے ۔ آپ نے ایک مردار دریا کے کنارے پڑا ہو ا دیکھا ۔اس کا کچھ حصہ دریا کے اند ر اورتکچھ حصہ دریا کے باہرتھا۔دریا اور خشکی کے جا نور دونو ں طرف سے اسے کھارہے تھے بلکہ کھاتے کھاتے ایک دوسر ے سے لڑنے لگتے تھے ۔اس منظر نے حضرت ابراہیم  کو ایک ایسے مسئلے کی فکر میں ڈال دیا جس کی کیفیت سب تفصیل سے جا ننا چاہتے ہیں اور وہ ہے موت کے بعد مردوں کے زندہ ہو کی کیفیت ۔ابراہیم  سوچنے لگے کہ ا گرایسا ہی انسانی جسم کے ساتھ ہو اور انسا ن کا بدن جانوروں کے بدن کا جزبن جائے تو قیامت میں اٹھنے کا معاملہ کیسے عمل میں آئے گا جب کہ وہا ں انسا ن کواسی بدن کے ساتھ اٹھنا ہے ۔
حضرت ابراہیم  نے کہا : خدایا !مجھے دکھا کہ تو مردو ں کو کیسے زندہ کرے گا ۔اللہ تعالی نے فرما یا :کیاتم اس بات پرایمان نہیں رکھتے ۔انہوں نے کہا:ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتاہوںایمان کو تسلی ہوجائے ۔
خداتعالی نے حکم دیا: چارپرندے لے لواور ان کا گوشت ایک دوسرے سے ملا دو ۔پھر اس سارے گوشت کے کئی حصے کردو اور ہر حصہ ایک پہاڑپر رکھ دو ۔اس کے بعد ان پرندوں کو پکارو تاکہ میدان حشر کا منظر دیکھ سکو،انہوں نے ایسا ہی کیا توانتہائی حیرت کے ساتھ دیکھا پرندوں کے اجزاء مختلف مقامات سے جمع ہو کر ان کے پاس آگئے ہیں اور ان کی ایک نئی زندگی کا آغاز ہو گیاہے ۔
اس مشہور واقعہ کے مقابلے میں ایک مفسر ابو مسلم نے ایک نظر یہ پیش کیاہے جسے مشہور مفسر فخررازی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے ۔ابو مسلم کا نظریہ باقی مفسرین کے بر خلا ف ہے لیکن چونکہ ایک معاصر مفسر موٴلف المنا ر نے اس کی تائید کی ہے ،لہذاہم اسے نقل کرتے ہیں ۔
موصوف نے کہا ہے کہ آیت اس بات پر ہر گز دلالت نہیں کرتی کہ حضرت ابراہیم نے پرندوں کو ذبح کیا اور پھر حکم خدا سے انہیںزندہ کیا ۔بلکہ آیت میں تو مسئلہ حشرونشر واضح کرنے کے لئے ایک مثال پیش کی گئی ہے ۔یعنی اے ابراہیم !چارپرندے لے لو اور انہیں اپنے ساتھ ایسے مانوس کر لو کہ جب انہیں پکارو تو تمہارے پاس آجائیں اگرچہ ان میںسے ہر ایک کو پہاڑکی چوٹی پر بٹھا دو تو یہ کا م تمہا رے لئے کتنا آسان ہے ۔اسی طرح مردوں کو زندہ کرنا اور مختلف مقامات عالم سے ان کے پراگند ہ اجزاء جمع کرنا بھی خدا کے لئے آسان ہے ۔
اس لئے خدا نے ابراہیم کو جو پرندوںکے بارے میں حکم دیا تھاوہ یہ نہ تھاکہ وہ ایسا کو ئی کا م کریں صرف ایک مثال اور تشبیہ کے ذریعہ بیان کیاگیا تھا۔یہ بعینہ ایساہے جیسے کوئی دوسرے سے کہے کہ میں فلا ںکام نہایت آسانی اور تیزی کر سکتا ہوں ۔بس تم پانی کا ایک گھونٹ پیو اور میں یہ کام کئے دیتا ہوں ۔یعنی میرے لئے اس قدر آسان ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسر ے پر پانی کا پینا فرض ہو گیا ہے ۔
دوسرے نظریے کے حامی ”صرھن الیک“سے استدلال کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ جب لفظ ”الی “سے متعدی ہو تو اس کا معنی ہو تاہے ”مائل “کرنا اور ”مانوس بنانا “اس لئے جملے کا مفہوم ہوگا کہ مذکورہ پرندوں کو اپنے ساتھ مانوس کرو۔علاوہ ازینں ”صرھن “ ”منھن “ اور ”ادعھن“ کی ضمیریں پرندو ں کی طرف لوٹتی ہیں اور یہ اسی صورت میں صحیح ہے کہ ہم دوسری تفسیرکو درست مان لیں کیونکہ پہلی تفسیر کے مطابق بعض ضمیریں پرندوں سے متعلق ہیں اور بعض ان کے اجزاء سے متعلق جب کہ یہ مناسب دکھائی نہیں دیتا۔
ا ن ا ستد لال کا جواب ہم آیت کی تفسیر میں بیان کریں گے لیکن جس بات کی طرف یہا ں اشارہ کر نا ضروری ہے وہ یہ کہ آیت یہ حقیقت وضاحت سے پیش کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم نے حشر ونشر کے محسوس مشاہدے کا تقاضا کیا تھا تاکہ ان کا دل مطمئن ہو جا ئے اور واضح ہے کہ ایک مثا ل حشر ونشر کی پیش کی منظر کشی نہیں کرسکتی اور نہ ہی دل کے لئے باعث اطمینا ن ہو سکتی ہے۔در حقیقت عقل ومنطق کے ذریعے تو حضرت ابراہیم  پہلے ہی حشرو نشر پر ایمان رکھتے تھے لیکن وہ چاہتے تھے کہ وہ اس کا حسی طور پر مشاہدہ کریں ۔
اب ہم آیت کی تفسیر کی لوٹتے ہیں تاکہ واضح ہو جا ئے کہ کونسا نظر یہ تفسیر سے میل کھاتا ہے ۔
وازقال ابراہیم رب ارنی کیف تحی الموتی “:
جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ حشر ونشر کے بارے میں یہ آیت گذشتہ آیت کے موضوع کی تکمیل کرتی ہے
ارنی کیف۔۔۔۔۔۔ “ سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت ابراہیم  مشاہدہ ،رویت اور شہود کا تقاضا کر رہے تھے اور وہ بھی اصل معاد کا نہیں بلکہ اس کی کیفیت کا ۔
قال اولم توٴمن قال بلی ولٰکن لیطمئن قلبی “:
ممکن تھا کہ مذکورہ مطالبے پر لوگ حضرت ابراہیم کے ایمان کے بارے میں تزلزل کا گمان کرتے لہٰذا انہیں وحی ہو ئی :تو کیا تم ایمان نہیں لائے ہو ؟یہ اس لئے تھاتاکہ وضاحت ہو جائے اور اس واقعے سے کسی کو غلط فہمی نہ ہولہٰذا انہو ں نے کہا :جی ہاں ،میرا ایمان تو ہے لیکن چاہتاہوں دل مطمئن ہو جا ئے۔
ضمنا اس جملے سے معلو م ہو تاہے کہ اس با ت کا امکا ن ہو تا ہے کہ مسئلے میں علمی اور منطقی دلائل سے یقین پیدا ہو جائے لیکن اطمینان قلب نہ ہو کیونکہ استد لا ل عقل انسانی کو تو راضی کرلیتاہے لیکن دل اور جزبا ت انسانی کو نہیں۔جو دونو ں کو سیراب کرتاہے وہ شہود عینی اورمشاہدات حسی ہی ہیں ۔یہ ایک اہم بات ہے جس کے بارے میں اس کے مقام پر مزید وضاحت کریں گے ۔
قال فخذاربعةمن الطیر فصرھن الیک ثم اجعل علی کل جبل منھن جزء ا
” صرھن“کامادہ ہے” صور“ (بروزن ”قول“اس ک امعنی ہے ”ٹکڑے کرنا“”مائل کرنا“اور ”بلند آواز سے پکارنا “یہا ں پہلا معنی ہی مناسب ہے۔یعنی چار پر ندے انتخاب کرلو ،انہیں ذبح کرواور انہی ٹکڑے ٹکڑے کر کے ایک دوسرے سے ملا دو۔
مقصد یہ تھا کہ حضرت ابراہیم  حشرونشر اور مردوں کے اجزاء بدن کے بکھر جانے کے بعد زندہ ہو نے کے نمونے کا مشاہدہ کر لیں اور یہ بات پکا رنے اور مایل کرنے کے معانی سے حاصل نہیںہوتی خصوصا جب کہ آیت کا بعد کاحصہ کہتاہے : پھر ” ہر پہاڑ پر ان میں سے ایک حصہ ر کھ د و “آیت کایہ حصہ واضح گواہی دے رہا ہے کہ پہلے پرندوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیاگیاہے ا وران کے اجزاء بنے ہیں ۔جولوگ ”صرھن“کاترجمہ” مانوس اور مائل کرنا “کرتے ہیںوہ دراصل ”جزء کے معنی سے غافل ہیں -

چارپرندےواقعے کی تفصیلات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma