واقعے کی تفصیلات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
بہت سے مفسرین اور موٴرخین نے اس آیت کے ذیل میں یہ واقعہ لکھا ہے :بت پرستی کی ابتد اء کا تعین بہت مشکل ہے

یہ آیت ایک گذشتہ نبی کا دوسرا واقعہ بیان کرتی ہے یہ واقعہ معاد اور قیامت پر ایک زندہ گواہ ہے ۔در حقیقت گذشتہ آیا ت میں جن حضر ت ابراہیم کی نمرود سے ہونےوالی گفتگوکو بیان کیاگیا تھاتوحید اور خدا شناسی کے بارے میں تھیں اور یہ آیت معاد اور موت کے بعد زندگی کے بارے میں ہے ۔پہلے ہم اجمالی طور پر اس واقعے کو دیکھیں گے اور پھر آیت کی تفسیر کریں گے آیت ایک ایسے شخص کی سر گذشت بیا ن کرہی ہے جو اثنائے سفر میں تھا ،ایک سو اری پر سوا رتھا ۔کھانے پینے کا کچھ سامان اس کے ساتھ تھا اور ایک آبادی سے گذررہاتھا جو وحشت ناک حالت میں گری پڑی تھی اور ویران ہو چکی تھی اور اس کے باسیوں کے جسم اور بوسیدہ ہڈیا نظر آرہی تھی ۔جب اس نے یہ وحشت ناک منظر دیکھا تو کہنے لگا :خدا ان مردو ں کو کس طرح زندہ کرے گا : ہاں البتہ اس کی یہ بات شک اور انکا ر کے طور پر نہ تھی بلکہ از روئے تعجب تھی کیونکہ آیت میں موجو د ق رائن نشان دہی کر تے ہیں کہ وہ ایک بنی تھے ۔جیسا کہ ایک آیت کے مطابق خدا نے اس سے گفتگو کی ۔روایا ت بھی اس حقیقت کی تا ئید کرتی ہیں جس کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے
خداتعالی نے اسی وقت اس کی روح قبض کرلی اور پھر ایک سو سال کے بعد اسے زندہ کیا۔اب اس سے سوال کیا کہ اس بیابان میں کتنی د یر ٹھہر ے رہے ہو۔۔وہ تو یہ خیا ل کرتا تھا کہ یہاں تھوڑی ہی دیر توقف کیاہے ۔۔فورا جواب دیا ایک دن یا اس سے بھی کم۔اسے خطاب ہو ا ۔تتم ایک سوسال یہاں رہے ہو لیکن اپنے کھانے پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو کیسے طویل مدت میں حکم خدا کیوجہ سے ان میں تغیر نہیں آیا ۔اب اس د لیل کے لئے کہ تم جان لو تمہیں سوسا ل موت کے عالم میں گزرگئے ذرا اپنی سواری کی طرف نگاہ کرواور دیکھو کہ کھانے پینے کی چیزو ں کے بر عکس وہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر چکی ہیں اور طبیعت کے عام قوانین اسے اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں اور موت نے اس کے جسم کو منتشر کردیا ہے ۔اب دیکھو کہ ہم اس کے پراگند ہ اجزء کوکیسے جمع کرکے اسے زندہ کرتے ہیں ۔اس نے یہ منظردیکھا تو کہنے لگا میں جانتا ہو کہ خدا ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے یعنی میں مطمئن ہو چکا ہو اور مردو ں کے دوبا رہ اٹھنے کا معاملہ متشکل ہو کے میرے سامنے آگیا ہے اس بارے میں کی وہ پیغمبر کو ن تھے ،مختلف احتمالات دیئے گئے ہیں ۔بعض نے ”ارمیا “کہا ہے اور بعض ”خضر “سمجھتے ہیںلیکن مشہور یہ ہے کہ وہ ” عزیر “تھے ۔امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بھی حضرت عزیر  کے نام کی تائید ہو تی ہے ۔
یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ یہ آبادی کہا ں تھی ۔بعض اسے بیت المقدس سمجھتے ہیں جو بخت النصر کے حملوں کی وجہ سے ویران اور برباد ہوچکا تھا لیکن یہ احتمال بعید نظر آتا ہے۔
اب آیت کی تفسیر کی طرف لوٹتے ہیں ۔”او کا لذی مر علی قریة وھی خاویة علی فروشھا “ جیسا کہ ہم کہ چکے ہیں یہ آیت گذشتہ آیت کی تکمیل کررہی ہے ۔گذشتہ ا ٓیت میں توحید کے بارے میںبحث تھی۔یہ اور اس سے گلی آیت معاد ااور قیامت کے حسی نمونے پیش کررہی ہے ۔ابتدا یوں ہوتی ہے :کیا تونے اس شخص کو نہیں دیکھاجوایک ایسی جگہ سے گذررہاتھا جو بالکل ویران ہوچکی تھی ۔
”عروش“جمع ہے ”عرش “کی ۔یہا ں ”چھت “کے معنی میں ہے ”خاویة “در اصل ” خالی“کے معنی میں ہے اور یہاں ویران ہونے کے مفہوم کے لئے کنائے کے طور پر آیا ہے کیونکہ گھر عموما سکونتی ہوتے ہیں اور جو گھرخالی ہو تے ہیں ،پہلے سے ویران ہوتے ہیں یا خالی رہنے کی وجہ سے ویران ہو جاتے ہیں ۔اس لئے ”وھی خاویةعلی عروشھا “کا مطلب ہے کہ اس آبادی کے سب گھر ویران ہو چکے ہیں لیکن اس شکل میں کہ پہلے ان کی چھتیں گری تھیں اور اسکے بعد ان کی مدیواقریں زمین بوس ہو گئی تھیں ۔ایسی ویرانی ایک مکمل ویرانی ہو تی ہے کیونکہ کسی عمارت کی تباہی کے وقت عموما پہلے چھت تباہ ہوتی ہے اور ایک مدت تک دیواریں کھڑی رہتی ہیںاور پھر وہ بھی تباہ شدہ چھتوں پر آجاتی ہیں ۔”قال انی یحی ھٰذہ اللہ بعد موتھا “: ظاہرا اس ماجرے میں پیغمبر کے ساتھ اور کوئی نہیں تھا لہذا انہوں نے اپنے آپ سے کہا :خدا ا س بستی کو موت کے بعد کیسے زندہ کرےگا ”قریہ “سے مرا د یہاں بستی والے ہیں ۔ یہ جملہ نشان دہی کرتا ہے کہ وہ ا س حادثہ میں اہل بستی کی بکھری پڑی ہڈیوں کو اپنی آنکھو ں سے دیکھ کر ان کی طرف اشارہ کرکے یہ کہ رہے تھے ۔
فاما تہ اللہ عام ثم بعثہ “: اکثرمفسر ین اس جملے سے یہ سجھتے ہیں کہ خدا نے پیغمبر مذکور کو ایک سو سال کے لئے مار دیا تھا ۔پھر انہیں زندہ کیا۔”اماتہ“کالفظ بھی جو ”موت ‘ ‘ کے مادہ سے ہے اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن تفسیرالمنار کا موٴلف کہتا ہے :ممکن ہے یہ ایک قسم کی نیند کی طرف اشارہ ہو ، جسے آج کے علما ء ”سبات “کہتے ہیں ،جس کے مطابق موجود زندہ ایک طویل مدت تک گہری نیند میں مستغرق رہتا ہے لیکن اس میں شعلہ حیا ت خاموش نہیں ہو تاجیسا کہ ہم نے اصحاب کہف کے بارے میں پڑھ رکھا ہے،،پھر وہ مزید لکھتا ہے”اس طویل نیند کے بارے اب تک جو اتفاق ہو ا ہے وہ چند سال سے زیادہ نہیں لہذا اس کا سو سال تک طویل ہو جانا خلا ف معمول ہے لیکن یہ مسلم ہے کہ جب چند سال کے لئے ایسا ممکن ہے تو سو سال کے لئے بھی ممکن ہو سکتا ہے خارق عادت امور قبول کر نے کے لئے جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کام ممکن ہو محال عقلی نہ ہو ۔
اس کے لئے ظاہرا آیت میں کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ آیت کاظہور یہ ہے کہ پیغمبر مذکو ر دنیا سے چل بسے اور سو سال کے بعد پھر سے زند ہو ئے ۔ایسی موت البتہ ایک خارق عادت اور غیر معمولی چیز ہے لیکن محال ہر گز نہیں اور پھرخارق عادت واقعات صرف اسی موقع کے لئے منحصر نہیں کہ ہمیںاسکی توجیہ وتاویل کرناپڑے ،
بہت سے حیوانا ت ایسے ہیں جو سردوں کے موسم میں سوئے پڑے رہتے ہیں اور جب ہوا گرم ہوتی ہے تو بیدار ہو جا تے ہیں ۔بعض طبیعی طور پرمنجمد ہو جا تے ہیں اور انسا ن بھی جانوروں کو مصنوعی طریقے سے منجمد کر سکتاہے۔
اگر یہا ں چند سال رک کی طویل نیند کے امکا ن کے حوالے سے سوسال تک مر دہ رہنے کے بعدزندہ ہو نے کو بھی ایک ا مر ممکن شمار کیاجائے تو یہ ایک اچھی بات ہوگی ۔اس کا معنی یہ ہوگا کہ وہ خدا جو جانورں کو سالہا سال تک طویل نیند یاحالت ِانجماد میں رکھ کر پھر انہیں بیدار کر دیتاہے اور وہ پہلی حالت پر لوٹ آتے ہیں وہ اس پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو موت کے بعد دوبا رہ زندہ کرے ۔
اصولی طور پر معاد ،قیا مت کے دن مردوں کی دوبا رہ زندگی ،خارق عا دت واقعات اور ا نبیا ء کے معجزات تسلیم کر لینے کا فائدہ یہ ہے کہ تمام آیات قر آن کی طبیعی قوانین کی روشنی میں تفسیرکر نے پر اصرار کی کو ئی و جہ باقی نہیں رہتی اور نہ ظاہری مفہو م کے خلاف بیان کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایسا کر نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی صحیح ہے۔”قال کم لبثت قال لبثت یوما او بعض یوم “اس جملہ میں خداتعالی پیغمبر سے پوچھتاہے :اس جگہ کتنی دیر ٹھہرے رہے ہو۔وہ جواب میں ترددسے کہتے ہیں :ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔جواب میں تردد سے معلو م ہو تاہے کہ ان کے مرنے کا وقت اور زندہ ہو نے کا وقت دن کی کوئی ایک معین گھڑی نہ تھی ۔مثلا َ موت کاوقت ظہر سے پہلے تھا اور زندہ ہو نے کا وقت زوال کے بعدتھا ۔لہذا وہ شک میں پڑ گئے کہ کیا ایک شب وروز گزرگئے ہیں یا دن کے چند گھنٹے گزرے ہیں۔اسی لئے ایک دن کہنے کے بعد پھر تردد کے عالم میں کہا :یا دن کا کچھ حصہ ۔لیکن فورا خطاب ہو کہ انہیں بلکہ تم تو یہا ں ایک سو سال سے ٹھہر ے ہو ئے ہو ۔”بل لبثت مائة عام ِ“”فانظرالی طعامک وشرابک لم یتسنہ “: ”یتسنہ “کا مادہ ہے ”سنة“بمعنی ایک سال ”لم یتسنہ “کا معنی ہے ” اسے ایک سال نہیں گزرا“ ۔یہ اس بات کے لئے کنایہ ہے کہ یہ متغیر اور خراب نہیں ہو ا۔اس طرح جملے کا مجموعی معنی یہ ہوگا کہ اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ سالہا سال گزرجانے کے بعد یوں لگتا ہے گویا ان پر ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا اور ان میں کوئی تغیر بھی نہیں آیا ۔یعنی وہ خداجو تیری کھانے پینے کی چیز وں کوان کی اصل حالت میں محفوظ رکھ سکتا ہے جب کہ قاعدة انہیں بہت جلد فاسد اور خراب ہو جانا چاہیئے اسی خدا کے لئے مردو ں کو زندہ کر نا کیا مشکل ہے ۔کھانے پینے کی چیزوں کو اتنی مدت تک خراب ہو نے سے بچا نا در اصل حیا ت کو باقی رکھنا ہے کیونکہ ایسی چیزوں کی مدت عمر تو بالعموم بہت کم ہو جا تی ہے جو کہ بذات خود مردوں کو زندہ کرنے سے آسان تر نہیں ہے (۱)
رہا یہ سوال کہ پیغمبر کے پا س کھانے پینے کی چیزیں کیا تھیںتو آیت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ۔بعض کہتے ہیں کہ کھانے کے لئے انجیر اور پینے کے لئے کسی پھل کا جو س تھااور یہ معلوم ہے کہ یہ چیزیں جلدی خراب ہو جا تی ہیں اس لیے ایک طویل مدت تک ان کی بقا ایک اہم امر ہے ۔
وانظر الی حمارک “: یعنی۔۔۔۔اپنے گدھے کو دیکھو ۔قرآن نے ان کی سواری کے متعلق اس سے زیادہ نہیں کہا لیکن بعد کے جملوں سے معلوم ہو تاہے کہ ان کی سوا ری وقت گزرنے کے ساتھ گل سڑ چکی تھی کیونکہ اس کے علاوہ سوسال گزرنے پر کوئی دلیل نہ تھی ۔یہ خود ایک عجیب وغریب چیز ہے کہ جانور جس کے لئے طویل عمر کا امکان ہے اس کے اجزاء اس طرح بکھر جا ئیں لیکن پھل اور پھلوں کاجوس جسے بہت جلد خراب ہو نا چا ہیئے اس میں کو ئی تبدیلی نہ آئے یہا ں تک کے اس کا ذائقہ اور بو نہ بدلے ۔یہ خدا تعالی کی انتہائی قدرت نمائی ہے ۔
ولنجعلک اٰیةللناس“یعنی یہ واقعہ نہ صرف تمہا رے لئے قیامت میں اٹھا ئے جانے کی دلیل ہے بلکہ تمام لوگوں کے لئے نشانی ہے
وانظر الی العظام کیف ننشزھا ثم نکسوھا لحماََ:”ننشزھا “کا مادہ ہے ” نشوز“اس کا معنی ہے ”ارتفاع “اور ”بلند ہونا“یہا ںمراد ہے بکھری ہو ئی چیزعں کا جمع ہو کر باہم پیوست ہو نا ۔اس بناء پر اس جملے کا معنی یوں ہوگا :بکھری ہو ئی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم انہیں کیسے اٹھا کر ایک دوسر ے سے پیوست کرتے ہیںاور ان پر گوشت(لباس )پہناتے ہیں اوراسے زیادہ کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ بوسیدہ ہڈیو ں سے مرا د ان کی سواریوں کے جانوروںکی ہڈیاں ہیںنہ کہ اہل بستی کی بوسیدہ ہڈیاں کیونکہ یہ امر گذشتہ جملوں سے مناسبت نہیں رکھتا ۔ ”فلما تبیں لہ قال اعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر
یہ مسائل جب پیغمبر پر آشکا ر ہو گئے تووہ کہنے لگے۔:میں جانتاہوں کہ خدا ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔یہ با ت قابل توجہ ہے کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ میں نے اب جا ن لیا ہے۔جب کہ زلیخا کی حضرت یو سف سے گفتگومیں اس طرح ہے ”الان حصحص الحق“ یعنی اب حق واضح ہو اہے ۔بلکہ پیغمبر کہتے ہیں:میں جانتا ہوں ۔یعنی اپنی آگاہی کا اعتراف کرتا ہوں۔
۲۶۰۔واذ قال ابراہیم رب ارنی کیف تحی الموتی ط قال اولم توٴمن  قال بلی ولٰکن لیطمئن قلبی ط قال فخذ اربعةمن الطیر فصر ھن الیک ثم اجعل علی کل جبل منھن جزءََ اثم ادعھن یا تینک سعیا  واعلم ان اللہ علی عزیز حکیم
ترجمہ
۲۶۰۔اور اس وقت (کو یاد کرو)جب ابراہیم نے کہا :خدایا ! مجھے دکھاکہ تو کیسے مردو ں کو زندہ کر تا ہے۔فرمایا :کیا تم ایمان نہیں لائے ۔کہنے لگے :کیوں نہیں میں چاہتا ہوں میرے دل کو اطمینا ن ہوجائے ۔فرمایا:یہ بات ہے تو چار پرند ے انتخاب کرلو(ذبح کرنے کے بعد ) انہیں ٹکڑ ے ٹکڑے کرلو()پھر ان کے گوشت کو آپس میں ملادو )پھر پہاڑ پر ہر ایک حصہ رکھ دو ،پھر انہیں پکارو ،وہ تیزی سے تمہارے پاس آئیں گے اور جا ن لو کہ خدا غالب اور حکیم ہے (وہ مردو ں کے اجزائے بدن کو بھی جا نتاہے اور انہیں جمع کر نے کی طاقت بھی رکھتا ہے )،
تفسیر


  

(۱) توجہ رہے کہ لم یتسنہ کی ضمیر مفرد ہے جب کہ اس کا تعلق ”طعام “سے بھی ہے اور ”شراب “سے بھی اس لئے ضمیر بظاہر تثنیہ کی ہو نی چاہیئے تھی لیکن چونکہ یہا ں مراد جنس ہے اور سب ایک چیزمیں شمار ہوتی ہے لہٰذا ضمیر بھی مفرد کی شکل میں ہے

بہت سے مفسرین اور موٴرخین نے اس آیت کے ذیل میں یہ واقعہ لکھا ہے :بت پرستی کی ابتد اء کا تعین بہت مشکل ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma