چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
حضرت ابراہیم کے متعلق رو نما ہوا ۔خدا ان لوگوں کا سر پرست ہے

ولی “کا جیسا کے بعد میں ”انما ولیکم اللہ ورسولہ ۔۔۔۔۔۔۔“والی آیت کے ذیل میں آئے گا اصل میں ” نزدیکی اور عدم جدائی “ ہے۔ اس بناء پر سر پرست کو ولی کہتے ہیں اور جو شخص تر بیت اور سر پرستی کا محتاج ہو اس کے مربی کو ولی کہا جا تا ہے۔مخلص دوستو ں اور رفقاء کے لئے بھی ولی اور اولیاء کا اطلاق ہو تا ہے لیکن واضح ہے کہ اس آیت میں پہلے معنی میں ا ستعما ل ہو ا ہے
گذشتہ آیات میں کفر و ایمان ،حق وباطل اور راہ راست اور انحرافی راستے کی وضاحت کے بعد اب یہ آیت تکمیل مطلب کے لئے کہتی ہے:موٴمن وکافر ہر کسی کا رہبر اور راہنما اپنا مخصوص راستہ ہے ۔موٴمنین کا رہبر اور راہنما خدا ہے ،ان کا راستہ تاریکیوں سے جدا ہو کر نور کی طرف جا تا ہے ۔لیکن کافروں کا رہبر طاغوت ہے اور ان کی راہ موٴ منین کے برعکس نور سے ظلمت کی طرف جاتی ہے اور ان کا انجام بھی واضح ہے کیونکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آگ میں رہیں گے
(اولٰئک اصحٰب النار ھم فیھا خٰلدون )
چند اہم نکات
۱۔نور وظلمت کی تشبیہ :ایمان اورکفر کو نور اور ظلمت سے تشبیہ دینا اس موقع کی مناسب ترین تشبیہ ہے۔نور ۔۔۔۔۔۔زندگی اور تمام برکات وآثار حیات کا منبع ہے ۔اور نور ہی سکون بخش ،مطمئن کرمے والا کرنے والا ،آگاہ کرنے والا اور نشان دہی کرنے والا ہے جب کہ ظلمت وتاریکی سکوت ،موت ،خواب ،نادانی ،گمراہی اور وحشت کی رمز ہے۔
۲۔نور کے مقابل ظلمات کیوں:اس آیت میں اور مشابہ آیات قرآن میں لفظ ظلمت کی جمع ظلمات استعمال کیا گیا ہے اور نو ت صیغہ مفرد کے طور پر آیا ہے ۔یہ در اصل اس طرف اشارہ ہے کہ راہ حق میں کسی قسم کی کوئی پراگندگی اور انتشار نہیںبلکہ وہ الہام بخش وحدت ویگانگی ہے ۔راہ حق خط مستقیم کی طرح ہے جو دو لظوں کے درمیان کھینچا جائے تو ہمیشہ ایک ہی ہوگا اور اس میں ایک سے زیادہ کی تعداد ممکن نہیں لیکن اہل باطل اپنے باطل میں ہم آہنگ نہیں ہیں ۔ان میں ہدف اورمقصد کی وحدت نہیں ہے ان کی حالت بالکل دو نقطوں کے درمیان کھینچے جا نے والے غیر منظم خطوط کی سی ہے جن کی تعداد خط مستقیم کے دونوں طرف بے شمار ہے ۔
۲۵۸۔الم تری الی الذین حآج ابراھیم فی ربہ ان اٰتٰہ اللہ الملک اذقال ابرٰھیم ربی الذی یحی ویمیت قال انااحی وامیت قال ابرٰھیم فان اللہ یاتی بالشمس من المشرق فات بھا من المغرب فبھت الذین کفر واللہ لایھدی القوم الظٰلمین
ترجمہ۔
۲۵۸۔کیا دیکھتے نہیں ہو (اور اس سے آگاہ نہیں ہو)جس نے ابراہیم کے ساتھ اس کے پروردگار کے بارے میں حجت بازی کی اور کلام کیا کیونکہ خدانے اسے حکومت دیرکھی تھی (اور وہ کم ظرفی کی وجہ سے بادہ غرور سے سرمست ہو گیا تھا )جب ابراہیم نے کہا :میرا خدا وہ ہے جو زندہ کر تا اور مارتا ہے ۔اس نے کہا میں زندہ کر تا ہو ں اور مارتا ہو ۔
( اس کے بعد اس نے مغالطہ پیدا کرنے کا حکم دیا اور دو قیدی حاضر کئے گئے ،اس نے ایک کی آزادی اور دوسرے کے قتل کا فرمان جاری کر دیا )ابراہیم نے کہا خدا آفتاب کو افق مشرق سے نکالتا ہے (اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو کہ تم ہی جان ہستی پر حکمران ہو تو )تم خورشید کو مغرب سے نکال کر دکھاوٴ(یہاں)وہ کافر مبہوت ہو گیا اور خدا ظالم قوم کو ہدایت نہیں کرتا ۔
تفسیر
 

حضرت ابراہیم کے متعلق رو نما ہوا ۔خدا ان لوگوں کا سر پرست ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma