مذہب جبری نہیں ہو سکتا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
خدا ان لوگوں کا سر پرست ہےدین قبول کرنے میں کو ئی جبر واکراہ نہیں ہے

رشد“ لغت میں راستہ پانے اور واقع تک پہنچنے کے معنی میںہے ۔اس کے بر عکس ”غی “ حقیقت سے انحراف اور واقع کے دور ہونے کے معنی میں ہے ۔دین مذہب کا تعلق چونکہ لوگوں کی فکر اور روح سے ہے اوراس کی اساس وبنیا د ایمان ویقین پر استوار ہے لہٰذا منطق واستدلال کے علاوہ اس کے لئے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ۔
جیسا کہ آیت کی شان نزول سے معلوم ہوتا ہے بعض افراد پیغمبر اکرم سے چاہتے تھے کہ آ پ بھی جابر حکمرانو ں کی طرح طاقت اور زور سے لوگوں کے عقائدتبدیل کرنے کے لئے عملی اقدام کریں ۔مندرجہ بالاآیت نے اس پر صراحت سے جواب دیا کہ دین وآئین ایسی چیز نہیں کہ جس کی جبری تبلیغ کی جائے ۔
یہ آیت ان لوگو ں کا دندان شکن جواب ہے جو اسلام کوزبردستی اورجبری پہلوکا حامل قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ا س کی ترقی فوج اور تلوار کی مر ہون منت ہے ۔
جب اسلام باپ کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے بیٹے کو مذہبی عقیدہ زبردستی بدلنے پر مجبور کرے تو دوسروں کی ذمہ داری اس سے واضح ہو جاتی ہے ۔اگر عقیدہ بدلنے کے لئے جبر ممکن اور جائز ہوتا تو ضرور ی تھا کہ سب سے پہلے باپ کو بیٹے کے بارے میں اجازت دی جاتی جبکہ اسے یہ حق نہیں دیا گیا۔
مذہب جبری نہیں ہو سکتا
اصولی طور پر اسلام یا کوئی مذہب حق دو وجوہ کی بناء پر جبر واکراہ کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
۱۔ ان تمام واضح دلائل منطقی استدلال اور آشکار معجزات کے ہوتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہی نہیں کہ جبر واکراہ کا راستہ اختیار کیا جائے ۔ جبر و اکراہ تو وہ اختیار کرتے ہیں جومنطق سے عاری ہو تے ہیں نہ کہ اسلام جیسا دین جو واضح اور قوی استدلالات کا حامل ہے ۔
۲۔اصولی طور پر دین جس کی بنیا د قلبی اعتقادات کاایک سلسلہ ہے ممکن ہی نہیں کہ جبری ہو ۔زور، طاقت ، تلوار اور فوجی قوت ہمارے جسمی اعمال وحرکات پر تو اثر اند از ہو سکتے ہیں لیکن ہما رے افکار وعقائد کو تو نہیں بدل سکتے
جو کچھ کہا گیا ہے کلیسا کی زہریلی تبلیغ کا واضح جواب ہے کیو نکہ قر آن کے ان الفاظ”لااکراہ فی الدین “سے بڑھ کر اس سلسلے کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔
البتہ یہ لوگ اسلامی جنگوں کو غلط رنگ دینے کے درپے رہتے ہیںجب کہ ان اسلامی جنگوں کے مطالعے سے پو ری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ ان میں سے بعض تو دفاعی تھیں اور بعض ابتدائی جہاد کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ان میں کشور کشائی اورلوگوں کو دین اسلام کے لئے مجبو ر کر نے کا کو ئی پہلو نہ تھا۔ان کا مقصدغلط اور ظالمانہ نظام کو تہ و بالاکرنا تھا تاکہ لوگو ں کو آزدانہ طور پر مذہب اور اجتماعی زندگی کے مطالعے کو موقع فراہم کیا جا ئے ۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلما ن جب کسی شہر کو فتح کرتے تو دوسرے مذہب کے پیروں کارو ں کو مسلمانوں کی طرح آزادی دیتے تھے اور جزیہ کے طور پر جو ٹیکس ان سے وصول کیا جاتا وہ در اصل امن وامان بر قرار رکھنے والی قو توں کے اخراجات کی تکمیل کے لئے ہو تا تھاکیونکہ کے اسلام میں غیر مسلموں کی جان و مال ا ور عزت وناموس محفوظ تھی ۔یہا ں تک کے وہ اپنی مذ ہبی رسوم بھی آزادانہ بجا لاتے تھے ۔
وہ سب لو گ جو تاریخ اسلام سے واقف ہیں اس حقیقت کو جانتے ہیں ۔حتی کہ وہ عیسائی جنہیوں نے اسلام کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں انہو نے اس با ت کا اعتراف کیا ہے مثلا کتاب تمد ن اسلام وعرب میں ہے :
مسلما نو ں کا دوسرے لوگوں سے سلوک اس قدر محبت بھرا اور نرم تھا کہ ان کے سردارو ں نے انہیں اپنی مذہبی تقریبا ت تک منعقد کرنے کی اجاززت دے رکھی تھی۔
کئی ایک تواریخ میں ہے کہ عیسائیوں کا ایک گروہ جو بعض سوالات اور تحقیقات کے لئے پیغمبر اکرم کی خدمت میں پہنچا تھا اس نے اپنی مذہبی عباد ت مد ینہ کی مسجد نبوی میں آزادانہ انجام دی۔
اسلام میں فوجی طاقت کے استعمال کے مواقع
اصولی طور اسلام صرف تین مواقع پر فوجی طاقت کو ذریعہ قرار دیتا ہے
۱۔شرک اور بت پرستی کی بیخ کنی کے لئے :شرک اور بت پرستی کے آثار محو کرنے کے لئے اسلام فوجی طاقت ا ستعمال میں لاتا ہے کیونکہ بت پرستی اسلام کی نظر میںکوئی دین آئین نہیں ہے بلکہ کجروی بیماری اور بے ہودہ چیز ہے اور اس کی ہرگز اجازت نہیں دینا چاہیئے کہ لوگ سو فیصد غلط اور بےہودہ راستے پر چلتے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کی جانا چاہیئے ۔لہذا اسلام نے بت پرستو ں کو تبلیغ کے ذریعے راہ توحید کی طرف دعوت دی لیکن جہا ں انہوں نے مقابلے کا راستہ اختیا ر کیا اسلام نے طاقت اسعتمال کی ،ان کے بت خانہ توڑے گئے اور بت اوربت پرستی کے تمام آثار مٹا دیئے گئے تاکہ اس روحانی اور فکری بیماری کی مکمل ریشہ کنی کی جاسکے۔
مشرکین سے قتال کرنے کی آیات اسی مفہو م کی حامل ہیں سورہ بقرہ کی آیت ۱۹۳میں ہے
وقاتلوھم حتی لاتکون فتنة
مشرکین سے جنگ جاری رکھو یہا ں تک کے شرک کا فتنہ معاشرے سے ختم ہو جائے۔
ا س بناء پر محل بحث اور اس قسم کی آیا ت میں کو ئی تضاد نہیں کہ جس کی بنیا د پر نسخ کا ذکر ضروری ۔
۲۔اسل م کے خلاف حملے کی تیاری کر نے والو ں سے:جو لوگ مسلمانوں کی نابودی کے لئے ان پر حملے کی سازش کررہے ہو ں وہا ں دفاعی جہاد اور فوجی قوت کرنے کا حکم دیا گیا ہے پیغمبر اسلام کے زمانے کی اسلامی جنگیںشاید زیادہ اسی قسم کی تھیں ۔مثال کے طور پر احد ،احزاب ، حنین ، موتہ اور تبوک کے غزوات کے نام لئے جاسکتے ہیں
۳۔تبلیغ کی آازادی حاصل کرنے کے لئے :ہر دین حق رکھتا ہے کہ منطقی طریقوں سے اس کا آزادانہ تعا رف کردیا جا سکے ۔اگر کچھ لوگ اس میں ما نع ہوں اور رکا وٹ پیدا کریں تو یہ حق طاقت کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
فمن یکفر بالطا غوت ویوٴمن بااللہ فقد استمسک بالعر وة الوثقی
”طاغو ت “ صیغہ مبالغہ ہے اسکا مادہ ہے ”طغیان “اس کا معنی ہے حد سے تجاوز کرنا اور زیادتی کرنا ۔ہر وہ چیزجو حد سے تجاوز کا ذریعہ بنے اسے طاغوت کہا جاتا ہے ۔اسی بناء پر شیطان ،بت ، جارح اور ظالم و متکبر حاکم کو طا غوت کہا جا تا ہے ۔حتی کے پر وردگارکے علاوہ ہر معبود اور ہر راستہ جو غیر حق تک پہنچائے اس پر طا غوت کا اطلاق ہوتا ہے یہ لفظ مفرد اور جمع دونو ں معانی میں استعما ل ہوتا ہے ۔
آیت کے اس حصے میں قرآن کہتا ہے :قرآن جو شخص طاغوت سے کفر کرے اور اس سے منہ پھیر لے اور خداپر ایما ن لے آئے اس نے گویا مضبوط کڑے پر ہاتھ ڈالا ہے جو کبھی ٹوٹ نے والا نہیں ۔
عروة الوثقی اس آلے کو کہتے ہیں جو در وازہ کی پشت پر نصب کر تے ہیں اوردروازہ کھو لتے یا بند کرتے وقت اس پر ہا تھ ڈالتے ہیں ۔
طاغوت سے یہا ں کیا مراد ہے ۔اس بارے میں مفسرین نے مختلف باتیں کی ہیں بعض نے بت کہا ہے بعض نے شیطا ن مراد لیا ہے ، بعض نے کاہنو ں کو طاغو ت قرار دیا ہے اور بعض نے جادو گر مراد لئے ہیں ۔لیکن یوں معلو م ہو تا ہے کہ یہا ں اس سے وسیع تر مفہو م مرا د ہے یعنی ہر سر کش ، ٹیڑھے اور غلط مذہب اور راستے کو یہ لفظ اپنے اندر سمو ئے ہو ئے ہے ۔
در حقیقت یہ حصہ آیت کے سابقہ حصوں کے لئے ایک دلیل ہے۔دین مذ ہب جبرواکراہ کا محتاج نہیں کیونکہ دین خدا کی طرف دعوت دیتا ہے جو ہر خیروبر کت کا منبع ہے جب کہ دوسرے لوگ تباہی ،انحراف اور فساد کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔بہر حال خدا پر ایمان لانا ایسا ہی ہے جیسے کسی محکم کڑے پر ہاتھ ڈالنا کہ جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہ ہو ۔
آیت کے آخرمیں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ کفر وایما ن کا ایسا مسئلہ نہیں جو دکھا ئی دینے سے حل ہو جائے کیونکہ خدا سب کی باتو ں کو سنتا ہے چاہے آشکارہوں یابند کمروں اور مخفی اجلاسوں میں اس طرح وہ لوگوں کے دلوں میں چھپی ہو ئی چیزوںاور لوگو ں کے ضمیروں کی حالت سے آگاہ ہے۔
یہ جملہ در اصل حقیقی ایمان لانے والوں کے لئے تشویق اور منافقین کے لئے تہدید اور دھمکی ہے ۔
 

خدا ان لوگوں کا سر پرست ہےدین قبول کرنے میں کو ئی جبر واکراہ نہیں ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma