ابراہیم علیہ السلام کى بت شکنى کا زبردست منظر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
تم یہ بہترین اور شیرین غذا کیوں نہیں کھاتےہمارے بڑے بھى بتوں کى پوجا کرتے تھے

یہاں پر پہلے حضرت ابراہیم (ع) کى بت شکنى کے واقعہ اور ان سے بت پرستوں کى شدید مڈھ بھیڑکے بارے میں گفتگوکى گئی ہے _(1)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ یہ بات سوفى صد صحیح اور محکم ہے اور وہ اس عقیدہ پر ہر مقام تک قائم ہیں اور اس کے نتائج و لوازم کو جو کچھ بھى ہوں انھیں جان و دل سے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں، مزید کہتے ہیں: مجھے خدا کى قسم جس وقت تم یہاں پر موجود نہیں ہوں گے اور یہاںسے کہیں باہر جائوگے تو میں تمہارے بتوں کو نابود کرنے کا منصوبہ بنائوں گا''_(2)
ان کى مراد یہ تھى کہ انھیں صراحت کے ساتھ سمجھادیں کہ آخر کار میں اسى موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں نابود اور درہم و برہم کردوں گا_
لیکن شاید ان کى نظر میں بتوں کى عظمت اور رعب اس قدر تھا کہ انھوں نے اس کو کوئی سنجیدہ بات نہ سمجھا او رکوئی ردّ عمل ظاہر نہ کیا شاید انھوں نے یہ سوچا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص کسى قوم و ملّت کے مقدسات کے ساتھ ایسا کھیل کھیلے ، جبکہ ان کى حکومت بھى سو فى صد ان کى حامى ہے وہ کس طاقت کے بل بوتے پر ایسا کام کرے گا_
وہ اسى راہ توحید وعدل اورراسى راہ تقوى واخلاص پر گا مزن تھا جو نوح کى سنت تھی،کیونکہ انبیاء سارے کے سارے ایک ہى مکتب کے مبلغ اور ایک ہى یونیورسٹى کے استاد ہیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے پروگرام کو دوام بخشتا ، اسے آگے بڑھاتا اور اس کى تکمیل کرتاہے ، کیسى عمدہ تعبیر ہے کہ ابراہیم، (ع) نوح کے شیعوں میں سے تھے حالانکہ ان دونوں کے زمانے میں بہت فاصلہ تھا (بعض مفسرین کے قول کے مطابق تقریباً2600/ سال فاصلہ تھا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ مکتبى رشتے میں زمانے کى کوئی حیثیت نہیں ہے اس سے یہ بات بھى واضح ہوجاتى ہے کہ یہ جو بعض نے کہا کہ حضرت ابراہیم(ع) نے یہ جملہ اپنے دل میں کہا تھا یا بعض مخصوص افراد سے کہا تھا کسى لحاظ سے اس کى ضرورت نہیں ہے، خاص طور پر جبکہ یہ بات کامل طور سے قرآن کریم کے خلاف ہے_
اس کے علاوہ قرآن مجید میں یہ بھى بیان ہوا ہے کہ بت پرستوں کو ابراہیم کى یہ بات یاد آگئی اور انھوں نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ ایک جوان بتوں کے خلاف ایک سازش کى بات کرتا ہے_
بہر حال حضرت ابراہیم نے ایک دن جبکہ بُت خانہ خالى پڑا تھا، اور بُت پرستوں میں سے کوئی وہاں موجود نہیں تھا، اپنے منصوبہ کو عملى شکل دےدی_
بابل کے بت پرست ہر سال ایک مخصوص عید کے دن کچھ رسومات ادا کیا کرتے تھے بت خانہ میں کھانے تیار کرتے ہیں اور وہیں انھیں دسترخوان پر چن دیتے تھے اس خیال سے کہ یہ کھانے متبرک ہوجائیں گے _اس کے بعد سب کے سب مل کر اکٹھے شہرسے باہر چلے جاتے تھے اور دن کے آخرمیں واپس لوٹتے تھے اور عبادت کرنے اور کھانا کھانے کے لئے بت خانہ میں آجاتے تھے _ ایک روز اسى طرح جب شہر خالى ہوگیا اور بتوں کو توڑنے اور انھیں درہم برہم کرنے کے لئے ایک اچھا موقع حضرت ابراہیم (ع) کے ہاتھ آگیا _یہ ایسا موقع تھا جس کا ابراہیم عرصے سے انتظار کررہے تھے اور وہ نہیںچاہتے تھے کہ موقع ہاتھ سے نکل جائے _
لہذا جب انھوں نے ابراہیم (ع) کو جشن میں شرکت کى دعوت دى تو '' اس نے ستاروں پر ایک نظر ڈالى ''اور کہا میں تو بیمارہوں'' _(3) اور اس طرح سے اپنى طرف سے عذرخواہى کی_
''انھوں نے رخ پھیرا اور جلدى سے اس سے دورہوگئے ''_(4)
اور اپنے رسم ورواج کى طرف روانہ ہوگئے _(5)
 


(1)قرآن مجید میں واقعہ ابراہیم کو قصہ کے ساتھ اس طرح سے منسلک کیا گیا ہے :'' اور ابراہیم ،نوح کے پیروکاروں میں سے تھے_''( سورہ صافات ایت 83)

(2) سورہ انبیاء آیت 57

(3) سورہ صافات 88_89
(4)سورہ صافات آیت90
(5)یہاں دوسوال پیدا ہوتے ہیں : پہلایہ کہ حضرت ابراہیم (ع) نے ستاروں کى طرف کیوں دیکھا ،اس دیکھنے سے ان کا مقصد کیا تھا ؟ --
 

 

تم یہ بہترین اور شیرین غذا کیوں نہیں کھاتےہمارے بڑے بھى بتوں کى پوجا کرتے تھے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma