اے ابراہیم تم پر پتھر برسائوںگا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
اسمانوں میں توحید کے دلائلآزرسے گفتگو

حضرت ابراہیم علیہ السلام کى ان کے چچا کى ہدایت کے سلسلے میں منطقى باتیں جو خاص لطف ومحبت کى آمیزش رکھتى تھیں گزرچکى ہیں اب آزرکے جوابات بیان کرنے کى نوبت ہے تاکہ ان دونوں کا آپس میں موازنہ کرنے سے حقیقت اور واقعیت ظاہر ہوجائے _قرآن کہتاہے کہ نہ صرف ابراہیم کى دل سوزیاں اور ان کا مدلل بیان آزر کے دل پر اثرانداز نہ ہوسکا بلکہ وہ ان باتوں کو سنکر سخت برہم ہوا ،اور اس نے کہا : ''اے ابراہیم(ع) کیا تو میرے خدائوںسے روگردان ہے ،اگر تو اس کام سے باز نہیں آئے گاتو میں ضرور ضرور تجھے سنگسار کروں گا،اور تو اب مجھ سے دور ہوجامیں پھر تجھے نہ دیکھوں''_ (1)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اولاًآزر یہ تک کہنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ بتوںکے انکار ،یا مخالفت اور ان کے بارے میں بدگوئی کا ذکر زبان پر لائے،بلکہ بس اتنا کہا:کیا تو بتوں سے روگردان ہے ؟ تاکہ کہیں ایسانہ ہو بتوں کے حق میںجسارت ہوجائے ثانیاًابراہیم (ع) کو تہدید کرتے وقت اسے سنگسار کرنے کى تہدید کى وہ بھى اس تاکید کے ساتھ کہ جو ''لام'' اور '' نون '' تاکید ثقیلہ سے جو ''
لارجمنک'' میں واردہے، اور ہم جانتے ہیں کہ سنگسار کرنا قتل کرنے کى ایک بدترین قسم ہے ثالثاً اس مشروط تہدید اور دھمکى پر ہى قناعت نہیں کى بلکہ اس حالت میں جناب ابراہیم کو ایک ناقابل برداشت وجود شمار کرتے ہوئے ان سے کہا کہ تو ہمیشہ کے لئے میرى نظروں سے دور ہوجا_
یہ تعبیر بہت ہى توہین آمیزہے،جسے سخت مزاج افراد اپنے مخالفین کے لئے استعمال کرتے ہیں ،اور فارسى زبان میں اس کى جگہ ''گورت راگم کن''کہتے ہیں ، یعنى نہ صرف اپنے آپ کو مجھ سے ہمیشہ کے لئے چھپالے بلکہ کسى ایسى جگہ چلے جائو کہ میں تمہارى قبرتک کو بھى نہ دیکھوں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حضرت ابراہیم نے تمام پیغمبروں اور آسمانى رہبروں کى مانند اپنے اعصاب پر کنڑول رکھا، اور تندى اور تیزى اور شدید خشونت وسختى کے مقابلے میں انتہائی بزرگوارى کے ساتھ کہا:'' سلام ہو تجھ پر''_(2)
ممکن ہے کہ یہ ایسا سلام الوداعى اورخدا حافظى کا سلام ہو، کیونکہ اس کے چند جملوں کے کہنے کے بعد حضرات ابرہیم علیہ السلام نے آزرکو چھوڑدیا یہ بھى ممکن ہے کہ یہ ایسا سلام ہوکہ جودعوى اور بحث کو ترک کرنے کے لئے کہاجاتاہے جیسا کہ سورہ قصص میں ہے : ''اب جبکہ تم ہمارى بات قبول نہیں کرتے ہو، ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے،تم پر سلام ہے ہم جاہلوں کے ہواخواہ نہیں ہیں''_(3)
اس کے بعد مزید کہا :'' میں عنقریب تیرے لئے اپنے پروردگار سے بخشش کى درخواست کروں گا، کیونکہ وہ میرے لئے رحیم ولطیف اور مہربان ہے''_(4)
حقیقت میں حضرت ابراہیم(ع) نے آزرکى خشونت وسختى اور تہدیدودھمکى کے مقابلے میں اسى جیسا جواب دینے کى بجائے اس کے برخلاف جواب دیا اور اس کے لئے پروردگار سے استغفار کرنے اور اس کے لیئے بخشش کى دعا کرنے کا وعدہ کیا _
اس کے بعد یہ فرمایا کہ :''میں تم سے (تجھ سے اوراس بت پرست قوم سے )کنارہ کشى کرتاہوں اور اسى طرح ان سے بھى کہ جنہیںتم خدا کے علاوہ پکارتے ہو، یعنى بتوں سے بھى (کنارہ کشى کرتاہوں)''اور میں تو صرف اپنے پروردگار کو پکارتاہوں اورمجھے امید ہے کہ میرى دعا میرے پروردگارکى بارگاہ میں قبول ہوئے بغیر نہیں رہے گا ''_(5)
قرآن ایک طرف حضرت ابراہیم (ع) کے آزر کے مقابلے میں ادب کى نشاندہى کرتاہے _کہ اس نے کہا کہ مجھ سے دور ہوجا تو ابراہیم(ع) نے بھى اسے قبول کرلیا اور دوسرى طرف ان کى اپنے عقیدہ میں قاطعیت اوریقین کوواضح کرتى ہے یعنى وہ واضح کررہے ہیں کہ میرى تم سے یہ دورى اس بناء پر نہیں ہے کہ میں نے اپنے توحید اعتقاد راسخ سے دستبردارى اختیار کرلى ہے بلکہ اس بناء پر ہے کہ میں تمہارے نظریہ کو حق تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں، لہذا میں اپنے عقید ے پر اسى طرح قائم ہوں_
ضمنى طور پر یہ کہتے ہیں کہ اگر میں اپنے خداسے دعا کروں تو وہ میرى دعا کو قبول کرتاہے لیکن تم بیچارے تو اپنے سے زیادہ بیچاروں کو پکارتے ہو اور تمہارى دعا ہرگز قبول نہیں ہوتى یہاں تک کہ وہ تو تمہارى باتوں کو سنتے تک نہیں _
ابراہیم (ع) نے اپنے قول کى وفا کى اور اپنے عقیدہ پر جتنا زیادہ سے زیادہ استقامت کے ساتھ رہا جاسکتا ہے، باقى رہے ،ہمیشہ توحید کى منادى کرتے رہے اگرچہ اس وقت کے تمام فاسد اور برے معاشرے نے ان کے خلاف قیام کیا لیکن وہ جناب بالآخراکیلے نہ رہے اور تمام قرون واعصارمیں بہت سے پیروکار پیدا کرلئے اس طورپر کہ دنیا کے تمام خدا پرست لوگ ان کے وجود پر فخرکرتے ہیں _ (6)
لفظ ''اب ''عربى زبان میںعام طور پر باپ کے لئے بولا جاتا ہے،اور جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ بعض اوقات چچا،نانا،مربى و معلم اور اسى طرح وہ افراد کہ جو انسان کى تربیت میں کچھ نہ کچھ زحمت و مشقت اٹھاتے ہیں ان پر بھى بولا جاتا ہے --
لیکن اس میں شک نہیں کہ جب یہ لفظ بولا جائے اور کوئی قرینہ موجود نہ ہو تو پھر معنى کے لئے پہلے باپ ہى ذہن میں آتا ہے_
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سچ مچ قرآن کہتا ہے کہ وہ بت پرست شخص(آزر) حضرت ابراہیم علیہ السلام کاباپ تھا، تو کیا ایک بت پرست اور بت ساز شخص ایک اولوالعزم پیغمبر کا باپ ہوسکتا ہے،اس صورت میں کیا انسان کى نفسیات و صفات کى وراثت اس کے بیٹے میں غیر مطلوب اثرات پیدا نہیں کردے گی_
اہل سنت مفسرین کى ایک جماعت نے پہلے سوال کا مثبت جواب دیا ہے اور آزر کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حقیقى باپ سمجھا ہے،جب کہ تمام مفسرین و علماء شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ نہیں تھا،بعض اسے آپ کا نانا اور بہت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا چچا سمجھتے ہیں_
وہ قرائن جو شیعہ علماء کے نقطہ نظر کى تائید کرتے ہیں حسب ذیل ہیں:
1_کسى تاریخى منبع و مصدر اور کتاب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر شمار نہیں کیا گیا بلکہ سب نے''تارخ''لکھا ہے_کتب عہدین میں بھى یہى نام آیا ہے،قابل توجہ بات یہ ہے کہ جو لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ آزر تھا،یہاں انہوں نے ایسى توجیہات کى ہیں جو کسى طرح قابل قبول نہیں ہیں_منجملہ ان کے یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام تارخ اور اس کا لقب آزر تھا_حالانکہ یہ لقب بھى منابع تاریخ میں ذکر نہیں ہوا_یا یہ کہ آزر ایک بت تھا کہ جس کى ابراہیم علیہ السلام کا باپ پوجا کرتا تھا،حالانکہ یہ احتمال قرانى آیت کے ظاہر کے ساتھ جو یہ کہتى ہے کہ آزر ان کا باپ تھا کسى طرح بھى مطابقت نہیں رکھتی،مگر یہ کہ کوئی جملہ یا لفظ مقدر مانیں جو کہ خلاف ظاہر ہو_
2_قرآن مجید کہتا ہے کہ مسلمان یہ حق نہیں رکھتے کہ مشرکین کے لئے استغفار کریں اگر چہ وہ ان کے عزیز و قریب ہى کیوں نہ ہوں_اس کے بعد اس غرض سے کہ کوئی آزر کے بارے میں ابراہیم علیہ السلام کے استغفار کو دستاویز قرار نہ دے اس طرح کہتا ہے: ''ابراہیم علیہ السلام کى اپنے باپ آزر کے لئے استغفار صرف اس وعدہ کى بنا پر تھى جو انہوں نے اس سے کیا تھا_(سورہ توبہ آیت114)
چونکہ آپ نے یہ کہا تھا کہ:''یعنى میں عنقریب تیرے لئے استغفار کروں گا_''
یہ اس امید پر تھا کہ شاید وہ اس وعدہ کى وجہ سے خوش ہوجائے اور بت پرستى سے باز آجائے لیکن جب اسے --
بت پرستى کى راہ میں پختہ اور ہٹ دھرم پایا تو اس کے لئے استغفار کرنے سے دستبردار ہوگئے_
یہاں سے یہ بات اچھى طرح معلوم ہوجاتى ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے آزر سے مایوس ہوجانے کے بعد پھر کبھى اس کے لئے طلب مغفرت نہیں کی_اور ایسا کرنا مناسب بھى نہیں تھا_ تمام قرائن اس بات کى نشاندہى کرتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کى جوانى کے زمانے کا ہے جب کہ آپ شہر بابل میں رہائشے پذیر تھے اور بت پرستوں کے ساتھ مبارزہ اور مقابلہ کررہے تھے_
لیکن قرآن کى دوسرى آیات نشاندہى کرتى ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنى آخرى عمر میں خانہ کعبہ کى تعمیر کے بعد اپنے باپ کے لئے طلب مغفرت کى ہے(البتہ ان آیات میں جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا،باپ سے''اب''کو تعبیر نہیں کیا بلکہ''والد''کے ساتھ تعبیر کیا ہے جو صراحت کے ساتھ باپ کے مفہوم کو ادا کرتا ہے)_
جیسا کہ قرآن میں ہے: ''حمدوثنا اس خدا کے لئے ہے کہ جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا کیے ،میرا پروردگار دعائوں کا قبول کرنے والا ہے، اے پروردگار مجھے ،میرے ماں باپ اور مومنین کو قیامت کے دن بخش دے ''_(سورہ ابراہیم آیت39و41 سورہ ابراہیم کى اس آیت کو سورہ توبہ کى آیت کے ساتھ ملانے سے جو مسلمانوں کو مشرکین کےلئے استغفار کرنے سے منع کرتى ہے اور ابراہیم کو بھى ایسے کام سے سوائے ایک مدت محدود کے وہ بھى صرف ایک مقدس مقصدوہدف کے لئے روکتى ہے، اچھى طرح معلوم ہوجاتاہے کہ زیربحث قرآنى آیت میں ''اب''سے مراد باپ نہیں ہے بلکہ چچایانانا یا کوئی اور اسى قسم کارشتہ ہے دوسرے لفظوں میں '' والد'' باپ کے معنى میں صریح ہے جب کہ'' اب'' میں صراحت نہیں پائی جاتى _
قرآن کى آیات میں لفظ'' اب'' ایک مقام پرچچا کے لئے بھى استعمال ہوا ہے مثلا سورہ بقرہ آیت133:
یعقوب (ع) کے بیٹوں نے اس سے کہا ہم تیرے خدا اور تیرے آباء ابراہیم واسماعیل واسحاق کے خدائے یکتا کى پرستش کرتے ہیں_
ہم یہ بات اچھى طرح سے جانتے ہیں کہ اسماعیل (ع) یعقوب (ع) کے چچا تھے باپ نہیں تھے _
3_مختلف اسلامى روایات سے بھى یہ بات معلوم ہوتى ہے ،پیغمبر اکرم (ص) کى ایک مشہور حدیث میں آنحضرت(ص) سے منقول ہے:
''خداوند تعالى مجھے ہمیشہ پاک آبائو اجداد کے صلب سے پاک مائوں کے رحم میں منتقل کرتارہا اور اس نے
 


(1)سورہ مریم ایت 46

(2) سورہ مریم آیت 47
(3)سورہ قصص ایت 55
(4)سورہ مریم آیت 47

(5) سورہ مریم آیت 48
(6)کیا آزر حضرت ابراہیم(ع) کا باپ تھا؟

 

 

اسمانوں میں توحید کے دلائلآزرسے گفتگو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma