بے شک روئے زمین پر موجود پروردگار کی نعمتیں،زمین پر بسنے والوں کے لئے کافی ہیں مگراس شرط کے ساتھ کہ انھیں بلا وجہ ضائع اور اسراف نہ کیا جائے بلکہ صحیح اور معقول طریقہ سے ان سے استفادہ کیا جائے اس لئے کہ یہ نعمتیں اتنی زیادہ اور لامحدود بھی نہیں ہیں کہ غلط استعمال اور اسراف سے متاٴثر ہو کر ختم نہ ہو جائیں ۔
بے شک زمین کے ایک حصہ پر اسراف وتبذیر، دوسرے حصے والو ں کی محرومی کا سبب ہے یا آج کے انسانوں کا اسراف کرنا آئندہ نسلوں کی محرومی کا باعث ہے یہ بات اس دور میںبھی بہت واضح ہے اور ہر شخص اس کوسمجھ سکتا ہے کہ اس زمانہ میں جب اخراجات آج کی طرح نہ تھے، اسلام نے انسانوں کو خبردار کیا کہ زمین پر موجود خدا کی نعمتوں کے استعمال میں اسراف وتبذیر سے کام نہ لیں ۔ اور قرآن کریم نے متعدد آیات میں اسراف کرنے والوں کی سختی سے مذمتاور ملامت کی ہے اور انھیں اس نا پسندیدہ عمل سے منع کیا ہے ۔
ایک جگہ فرماتا ہے: اسراف نہ کرو کہ خدا وند اسراف کرنے والوںکو دوست نہیں رکھتا : <وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (۱)
دوسرے مقام پر اسراف اورزیادتی کرنے والوں کو جہنمی قرار دیتے ہو ئے فرمایا: <انَّ الْمُسْرِفِیْنَ ہُمْ اَصْحَا بُ النَّارِ (۲)
ایک مقام پر ایسے افراد کی اطاعت اورپیروی کرنے سے لوگوں کو منع فرمایا :<وَلَا تُطِیْعُوْااَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ (۳)
عذاب الٰہی ان کے انتظار میں ہے :<مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِیْنَ (۴)
اور اسراف اور زیادہ روی ایک فرعونی عمل ہے:<وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ وَ اِنَّہُ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ (۵)
ایسے افراد ہدایت الٰہی سے محروم ہوتے ہیں:<اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ (۶)
آخر کار اسراف اور زیادتی کرنے والوں کا انجام ہلاکت اور نابودی ہے: <وَاَہْلَکْنَا الْمُسْرِفِیْنَ (۷)
جیسا کہ پہلے بھی ملاحظہ کر چکے ہیں کہ ان آیات میں بھی اسراف اورزیادتی کرنے والوں کو شیطان کا بھا ئی اور ساتھی قرار دیا گیا ہے۔
اسراف کیا ہے؟
اسراف ایک عام معنی میں ہے۔ اسراف ہر اس کام کو کہتے ہیں جسے انجام دینے میں انسان حد سے تجاوز کر جائے عام طور سے یہ کلمہ مالی اخراجات کے سلسلہ میں استعمال ہوتا ہے۔
آیات قرآنی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسراف سختی کے مقا بلے میں ہے جیسا کہ پروردگار عالم نے فرما یا ہے: ” وَالَّذِیْنَ اِذَااَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذَالِکَ قِوَاماً“
اور وہ لوگ جو انفاق کرتے وقت نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ سختی سے کام لیتے ہیں بلکہ درمیانی راستہ اختیار کرتے ہیں۔(سورئہ فرقان/آیت/۶۷)