(ب) اپنے اموال خدا کے پاس محفوظ کرو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
دولت کا بهترین مصرف
(ج)مفہوم انفاق کی وسعتالف)انفاق اضافہ کا سبب ہے کمی اور نقصان کا نہیں

اس مقام ایک پر مفسر قرآن نے ایک بہت خوبصورت تحلیل پیش کی ہے وہ کہتے ہیں :تعجب کی بات ہے کہ اگر کسی تاجر کو معلوم ہو جائے کہ اس کا مال ضائع اور برباد ہونے والا ہے تو وہ قرض پر بھی اسے بیچنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے چاہے خریدار فقیرہی کیوں نہ ہو وہ کہتا ہے کہ فقیر کے ہاتھ قرض کے طور پربیچنا اس سے بہتر ہے کہ اسے ایسے ہی چھوڑ دیا جائے وہ ضائع ہو جائے۔
اور اگر ایسی حالت میں کوئی تاجر اپنے سامان کو بیچنے پر اقدام نہ کرے اور سرمایہ ضائع ہو جائے تو ہر ایک اسے”خطا کار“کہے گا۔
اور اگر ایسی صورت میں تاجر کو کوئی مالدار خریدار مل جائے اور اس کے ہاتھ نہ بیچے تو اسے بے عقل کہا جائے گا۔
اور اگراسے ایک مالداراور ثروت مند انسان مل جائے جو قابل اطمینان سند اور قول نامہ لکھ کر اسے دے اور تاجر اس کے ہاتھ فروخت نہ کرے تو اس کو دیوانہ کہا جاتاہے ۔ لیکن تعجب ہے کہ ہم سب یہی کام کرتے ہیں اور کوئی بھی اسے جنون اور دیوانگی نہیں کہتا۔
اس لئے کہ ہمارے سارے اموال زائل اور ختم ہو جانے والے ہیں ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے فنا ہو جانے والے مال کو راہ خدامیں خرچ کرنا گویا اس کو قرض دینا ہے اور وہ بہت ہی معتبر ضامن ہے جو فرماتا ہے: وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہ“
حا لانکہ خود پروردگار نے ان ساری نعمتوںکو ہمارے پاس رہن رکھا ہے اس لئے کہ جو کچھ بھی انسان کے اختیار میں ہے وہ خدا کی طرف سے عاریہ کے طور پر ہے۔
ان تمام باتوںکے با وجودہم اپنے بہت سے اموال میں سے انفاق نہیں کرتے اور آخر کار وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں نہ ہی ان میں کوئی اجر ملتا ہے اور نہ ہی کوئی شخص ہمارا شکر یہ ادا کرتا ہے۔
 

(ج)مفہوم انفاق کی وسعتالف)انفاق اضافہ کا سبب ہے کمی اور نقصان کا نہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma