مباشرت سے قبل طلاق کی صورت میں اگر حق مہر معین

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
نماز انسان کو خالق کائنات سے مربوط کرنے کا ایک ذریعہ ہےجب تک عدت ختم نہ ہو نکاح نہ کیا جائے۔

۱۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مباشرت اور تعیین حق مہر سے قبل طلاق دینا صحیح نہیں۔ آیت نے ان کے خیال کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔
” لاجناح علیکم ان طلقتم النساء ما لم تمسوھن او تعرضوا لھن فریضة
البتہ اس کی صورت یہ ہے کہ طرفین عقد کے بعد مباشرت سے قبل کئی ایک وجود کی بنیاد پر یہ سمجھیں کہ وہ ایک ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتے ۔ اس موقعہ پر طرفین طلاق کے ذریعہ ایک دوسرے سے جدا ہو سکتے ہیں۔
۲۔مباشرت سے قبل طلاق کی صورت میں اگر حق مہر معین شدہ نہ ہو تو ایسا ہدیہ جو کہ عورت کے شایان شان ہو اسے ادا کیا جائے۔ ( متعوھن )
حق مہر معین ہو چکا ہو تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے ، اس کی وضاحت اگلی آیت میں آئیگی ۔ اس بیان کے مطابق لفظ ” او“ واو کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
ہدیہ دینے کے بارے میں لوگوں کی طاقت اور استطاعت کو مد نظر رکھتے ہوئے آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے گ ” علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ “
” موسع “ کامعنی ہے تو” تونگر “ اور ” مقتر “ کا معنی ہے ” تنگدست “ اس لیے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ صاحب ثروت اپنی حیثیت کے مطابق اور تنگدست اپنی استطاعت کے مطابق ہدیہ ادا کرے۔
” متاعاً بالمعروف “ یعنی یہ ہدیہ شائستہ طور پر ہو۔ اسراف و بخل دونوں سے پاک ہو۔ دینے والے اور لینے والے ہر دو حسب حال ہو۔
یہ ہدیہ اہم ناثیر کا حامل ہے۔ جذبہ انتقام کو ختم کرنے اور عورت کوکئی ایک مشکلات سے بچانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ( یہ مشکلات اس رشتہ ازدواج کو ٹوٹنے سے پیدا ہو سکتی ہے ) لہذا آیت میں اس عمل کو نیکی اور اس احسان کے جذبے سے وابستہ کر دیا گیا ہے اور فرمایاگیا ہے گ ( حقاً علی المحسنین ) یعنی نیک لوگوں کے لےے یہ عمل ضروری ہے۔ یعنی اسے نیکی اور صلح و صفائی کے جذبے سے شرسار ہونا چاہیے۔
یہ بات بن کہے بھی واضح ہے کہ ” محسنین“ کی تعبیر کا یہ مقصد نہیں کہ مذکورہ ہر حکم الزامی و ضروری نہیں بلکہ اس فریضہ کی ادائیگی کے لےے لوگوں کے جذبات و احساسات کو تحریک دینے کے لیے یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے ورنہ جیسا کہ اشارہ کیا جا چکا ہے یہ حکم بجا لانا لازمی اور ضروری ہے۔
دوسرا اہم نکتہ جو اس آیت سے سامنے آتا ہے یہ ہے کہ مرد کی طرف سے عورت کو دےے جانے والے اس ہدےے کو ” متاع “ کے لفظ سے یا د کیا گیا ہے ۔ لغت میں متاع کا معنی ہے وہ چیزیں جن سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے اور ان سے متمتع ہوتا ہے۔ یہ لفظ زیادہ تر نقدی کے علاوہ چیزوں پر بولا جاتا ہے کیونکہ روپے پیسے سے براہ راست فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا بلکہ ضروری ہے کہ وہ متاع میں تبدیل ہو۔ اسی بنا پر قرآن ہدیے کو متاع سے تعبیر کرتا ہے۔
یہ بات نفسیاتی طور پر خاص اثر رکھتی ہے ۔دیکھا گیا ہے کہ وہ ہدیہ جو قابل استعمال اجناس کی صورت میں ہو مثلا خوراک، لباس وغیرہ کتنا ہی کم قیمت کیوں نہ ہو دل و دماغ پر ایسا اثر ڈالتا ہے کہ اگر انہیں نقدی میں تبدیل کر دیا جائے تو وہ ہر گزنہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ اطہار علیہم السلام سے پہنچنے والی روایات میں زیادہ تر لباس ۔ غذائی اجناس اور زراعی زمین جیسی چیزوں کا ہدیے کے نمونوں کے طور پر ذکر آیا ہے۔
ضمنا آیت سے یہ بھی اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ نکاح دائمی میں پہلے سے حق مہر کا معین ہونا ضروری نہیں اور طرفین میں بعد از آں بھی اس پر اتفاق ہو سکتا ہے۔
آیت سے یہ بھی ظاہر ہو تا ہے کہ مہر معین ہونے اور مباشرت سے پہلے طلاق ہو جائے تو حق مہر واجب نہیں ہوگا اور مذکورہ ہدیہ حق مہر کا قائم مقام ہو جائے گا۔
اس آیت میں بھی طلاق کے بارے میں حکم بیان کیا گیا ہے ۔ گذشتہ صورت کی طرح اگر مباشرت کا عمل نہیں ہوا لیکن حق مہر ہو چکا ہے تو اس سلسلے میں آیت پہلے قانون اسلام کی نگاہ میں جو حکم ہے اسے بیان کرتی ہے اور وہ یہ کہ مرد کو چاہےے کہ مقر ر شدہ حق مہر سے آدھا ادا کرے ( فنصف ما فرضتم ) قانونی حکم جو اجتماعی نظام کی حقیقی بنیاد ہے اسے بیان کرنے کے بعد اخلاقی پہلو بیان کئے گئے ہیں ارشاد ہوتا ہے۔ آدھے حق مہر کی ادائیگی کا حکم تو عفو اور بخشش سے صرف نظر کرتے ہوئے ہے لیکن اگر عورت اپنے مسلمہ حق سے در گزر کرے توپھر شوہر پر کچھ واجب نہیں ہے ۔
اسی طرح اگر جس کے ہاتھ میں نکاح کا معاملہ ہے وہ حق مہر سے چشم پوشی کرلے تو شوہر پر کوئی چیز واجب نہیں ہوگی ۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ ” الذی بیدہ عقدةالنکاح “ (یعنی جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے ) اس سے کون شخص مراد ہے ۔
بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے مراد شوہر ہے لیکن آےت پر غور و خوض کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس عورت کے اولیاء مراد ہیں۔
ابتداء سے روئے سخن کیونکہ شوہروں کی طرف ہے اس لیے فرماتا ہے ۔ ” و ان طلقتموھن “ ( اگر تم انہیں طلاق دے دو ) اور آیت کے آخر میں بھی روئے سخن شوہروں کی طرف ” و ان تعفوا اقرب للتقوی “ ( اگر تم تعاف کردو تو یہ پرہیزگاری کے نزدیک ہے ) اس لیے ” او یعفو الذی بیدہ عقدة النکاح “ کا کا جملہ فعل غائب کی شکل میں ہے یقینا شوہروں سے مربوط نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ اس سے مقصود عورت کے اولیاء ہی ہیں ۔ وہی حق مہر کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ مثلا اگر بیوی نادان یا بچی ہو تو اس صورت میں اولیاء حق مہر بخشنے یا لینے کے بارے میں اس کے منافع کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرسکتے ہیں۔
معصوم پیشواؤں سے مروی روایات میں بھی آیت کا یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے ۔ شیعہ مفسرین نے بھی آیت کے مضمون اور روایات اہل بیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی نظیر کو انتخاب کیا ہے اور ان کے نزدیک بھی اس عبارت سے بیوی کے اولیاء مراد ہیں۔
” و ان تعفوا اقرب للتقوی “ یہ جملہ مراد اس کے انسانی فرائض کے بارے میں ایک اور حکم بیان کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بہتر ہے کہ مرد در گزرکی راہ اپنائے اور اگر تمام حق مہر ادا کر چکا ہے تو اس میں سے کچھ واپس نہ لے اور اگر ادا نہیں کیا تو سارے کا سارا ادا کردے اور اپنے آدھے حق سے صرف نظر کرلے ۔ آیت کے اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ اگر مرد عفو اور در گزر سے کام لے تو یہ پرہیزگاری کے نزدیک ہے۔
عقد کے بعد اور رخصتی سے قبل شوہر سے جدا ہو جانے والی لڑکی اور عورت بہت سی معاشرتی اور نفسیاتی مشکلات سے دوچار ہو جاتی ہے اور مسلم ہے کہ مرد اگر در گذر نہ سے کام نہ لے اور تمام حق مہر ادا کردے تو یہ اس کے زخموں کے لیے ایک طرح کا مرہم ہو سکتاہے۔
” ولا تنسوالفضل بینکم ان اللہ بما تعملون بصیر“
اسلام چاہتا ہے کہ جدائی اور علیحدگی کا مرحلہ بھی ” معروف “ اور ” احسان “ کی بنیاد پر انجام پذیر ہو یعنی انتقام ہی سے خالی نہ ہو بلکہ مرد اور عورت دونوں عظمت و بزرگی کی روح کو بھی فراموش نہ کریں فرماتا ہے : اپنے درمیان سے کبھی نیکی عظمت اور احسان کو فراموش نہ کرو۔ کیونکہ خدا تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔
۲۳۸۔ حافظو اعلی الصلوات والصلاة الوسطی وقومو للہ قانتین۔
۲۳۹۔ فان خفتم فرجالا او رکبانا فاذا آمنتم فاذکرو اللہ کما علمکم ما لم تکونواتعملون۔
ترجمہ :
۲۳۸۔ تمام نمازیوں کی انجام دہی اور ( خصوصاً) نماز وسطی ( نماز ظہر ) کی ادائیگی میں کوشاں رہو اور خضوع و اطاعت کے ساتھ خدا کے قیام کرو۔
۲۳۹۔ اور اگر( جنگ یا کسی اور خطرے کی وجہ سے) تمہیں خوف ہو تو (نماز کو) پیادہ یا سواری کی حالت میں انجام دو لیکن جب حالت امن لوٹ آئے تو خدا کو یاد کرو ( اور نماز کو معمول کے مطابق ادا کرو) جیسا کہ اس نے تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دی ہے جنہیں تم نہیں جانتے تھے۔
شان نزول
بعض منافقین نے گرمی کا بہانہ تراشا اور مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ ڈالنے کے لیے وہ نماز با جماعت میں شرکت نہیں کرتے تھے ۔ ان کے دیکھا دیکھی اور لوگوں نے بھی جماعت میں شرکت ترک کردی ۔ اس طرح مسلمانوں کی جماعت میں کمی آگئی ۔ اس پر پیغمبر اکرم (ص) بہت پریشان تھے ۔ آپ نے انہیں سخت سزا کی دھمکی دی ۔ زید بن ثابت سے منقول ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) سخت ترین گرمی میں بھی دوپہر ہوتے ہی نماز ظہر جماعت کے ساتھ ادا کرتے تھے۔ یہ عمل آپ کے اصحاب کے لیے بہت گراں تھا۔ اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی جس میں نماز کی اہمیت بالعموم اور نماز ظہر کی اہمیت بالخصوص بیان ہوئی۔
 

 

نماز انسان کو خالق کائنات سے مربوط کرنے کا ایک ذریعہ ہےجب تک عدت ختم نہ ہو نکاح نہ کیا جائے۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma