حبط، احباط اور تکفیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
خمر کا معنی ہے ”ڈھکنا“ حرام مہینوں میں حرمت جنگ کی خبر دیتاہے

۱۔ حبط۔۔۔ کا معنی ہے عمل باطل اور بے اثر ہوجانا جیسا کہ قرآن میں آیاہے۔
”و حبط ما صنعوا فیہا و باطل ما کانوا یعملون“
۲۔ احباط۔۔۔ جیسا کہ متکلمین ارو علماء عقائد نے کہاہے، اس کا معنی ہے گذشتہ اعمال کا ثواب بعد کے گناہوں کی وجہ سے جاتارہنا۔
۳۔ تکفیر۔۔۔ اس کے بارے میں بھی کہا گیاہے کہ اسکا مفہوم یہ ہے کہ گذشتہ گناہوں کی سزا نیک اعمال کے اثر سے ختم ہوجاتی ہے
کیا حبط صحیح ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ کفر و ارتداد حبط عمل کا سبب ہیں۔ قرآن کی دیگر آیات اور محل بحث آیت بھی اس بات کی گواہ ہیں۔ لہذا اگر کوئی شخص حالت کفر میں دنیا سے چل بسے تو اس کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر کا گناہ اتنا زیادہ ہے کہ گذشتہ تمام تر ثواب سے بڑھ جاتاہے۔
اسی طرح اگر ایمان گناہوں کے بعد ہو اور آخر عمر تک باقی رہے تو گذشتہ گناہوں کو ختم کردیتا ہے لیکن بحث اس بات پر ہے کہ وہ صاحب ایمان افراد جنہوں نے گناہ بھی کئے ہیں ارو حکم خدا کی اطاعت بھی کی ہے اور بغیر تو بہ کیئے دنیا سے چلے گئے ہیں ان کے برے اعمال ان کے نیک اعمال کے ثواب کو ختم کرسکتے ہیں یا نہیں۔
اس ضمن میں متکلمین اور علمائے عقائد کے در میان اختلاف ہے۔
کچھ کہتے ہیں کہ احباط باطل ہے۔ اپنے اس نظریے پر علماء عقلی اور نقلی دونوں قسم کی دلیلوں سے استدلال کرتے ہیں
عقلی استدلال
جیسا کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے کتاب تجرید العقائد میں کہاہے کہ احباط ظلم کی ایک قسم ہے۔ کیونکہ کسی انسان کے پاس ثواب کم ہے اور گناہ زیادہ تو احباط کے بعد اس شخص کی طرح ہوجائے گا جس نے بالکل نیک کام نہ کیاہو اور یہ اس کے لیئے ایک قسم کا ظلم شمار ہوگا۔
نقلی استدلال
قرآن مجید کی بہت سی آیات نشاندہی کرتی ہیں کہ انسان اس جہان میں اپنے ہر نیک و بد عمل کا نتیجہ دیکھے گا۔ جب کہ مسئلہ احباط اس سے مختلف صورت پیش کرتاہے۔ سورہ زلزال میں آیاہے۔
”فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ و من یعمل مثقال ذرة شرا یرہ“ سورة زلزل
”یعنی جو شخص جتنی مقدار نیکی یا بدی کی کرے گا اسے دیکھے گا“
دوسرا گروہ معتزلہ کا ہے۔ یہ لوگ احباط کے قائل ہیں۔ انہوں نے آیات قرآن سے استدلال کیاہے۔ سورہ جن کی آیت ۲۳ میں ہے۔
”وَمَنْ یَعْصِ اللهَ وَرَسُولَہُ فَإِنَّ لَہُ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدِینَ فِیہَا اٴَبَدًا “
”جو شخص خدا اور رسول کی نافرمانی کرے گا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں معذب ہوگا۔
ابو ہاشم معتزلی نے احباط و تکفیر کو ملا کر موازنہ کیاہے۔ اس کے نزدیک گناہ اور ثواب کو ملا کردیکھا جائے گا۔ زیادہ سے کم کو تفریق کرے باقی مقدار دیکھی جائے گی۔ اس سلسلے میں کچھ اور نظریات بھی ہیں جن سے یہاں بحث نہیں ہو سکتی لیکن حق وہی ہے جسے علامہ مجلسی کہتے ہیں۔
ثواب کا سقوط اس کفر کے ذریعے جو آخر عمر تک باقی رہے اور اس طرح سزا کا سقوط اس ایمان کے وسیلے سے جو موت تک ساتھ دے قابل انکار نہیں ہے۔ بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بہت سے ایسے گناہ ہیں جن سے بہت سی اطاعتیں جاتی رہتی ہیں اور بہت سی اطاعتیں ایسی ہیں جو بہت سی برائیوں کو تلف کردیتی ہیں اور اس سلسلے میں متواتر اخبار و احادیث ہیں ۱
توجہ رہے کہ سورہ ہود کی آیت ۱۱۴ بھی اسی مفہوم پر دلالت کرتی ہے۔ وہاں نماز کا حکم دینے کے بعد ایک قانون کلی کی طرف اشارہ کیاگیاہے کہ۔
”ان الحسنات یذہبن السینات“
”نیکیاں برائیوں کولے جاتی ہیں“
سورہ حجرات میں آیاہے
” و لا تجہروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم“
جیسے ایک دوسرے کو بلند آوازسے پکارتے ہو پیغمبر کو اس طرح سے آواز نہ دو ورنہ تمہارے سارے اعمال حبط ہوجائیں گے۔ (حجرات ۔۲)
پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ آپ نے ابوذر سے فرمایا۔
”اتقق اللہ حیث کنت و خالق الناس بخلق حسن و ذا عملت سیئة فاعمل حسنة تمحوہا“
جہاں کہیں اور جس حال میں ہو خدا سے ڈرو اور لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ اور جب کبھی کوئی براکام انجام دے بیٹھو تو بعد ازاں کوئی اچھا کام بجالاؤ جو اُسے محو کردے 2
نیک اعمال بر کے اعمال کے ذریعے نابود ہوجاتے ہیں۔ اس بارے میں بھی پیشوائے اسلام سے روایات پہنچی ہیں مثلا ”ایاکم و الحسد فان الحسد یاکل الحسنات کما تاکل النار الحطب3
حسد سے ڈرو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھاجاتی ہے۔
لیکن یہ تمام گناہوں اور اطاعتوں کے بارے میں کوئی قانوں کلی نہیں صرف ان میں سے بعض سے مخصوص ہے اس طرح سے تمام آیات اور روایات کا مفہوم واضح ہوجاتاہے۔
۲۱۹۔یَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمَا اٴَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا وَیَسْاٴَلُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ قُلْ الْعَفْوَ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ الْآیَاتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُونَ
ترجمہ
۲۱۹۔ تم سے شراب اور قماربازی کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے (مادی نگاہ سے) لوگوں کے لیے ان میں منافع (بھی) ہیں (لیکن) ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ ہے اور تم سے سوال کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں۔ کہہ دو کہ تمہاری ضرورت سے جو زیادہ ہو۔ اس طرح خدا تمہارے لئے آیات کو واضح کرتاہے شاید تم فکر کرو۔
شان نزول
اصحاب کا ایک گروہ پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کرنے لگا کہ شراب اور قمار کے بارے میں حکم بیان فرمایئے کیونکہ یہ عقل کو زائل اور مال کو تباہ کرنے والی چیزیں ہیں۔ اس موقع پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی۔


 

۱ بحار، جلد۵ جدید، ص۳۳۳، ۳۳۴
2 بحار، جلد ۷۱، ص۲۴۲
3 بحار، جلد ۷۳، ص۲۵۵

خمر کا معنی ہے ”ڈھکنا“ حرام مہینوں میں حرمت جنگ کی خبر دیتاہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma