راه وصول به وحدت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
دین اور معاشرہخودخواہ اور دنیا پرست

ابتداء میں انسان کی زندگی اور معاشرہ سادہ تھا۔ رفتہ رفتہ جب انسانوں کی تعداد بڑھنے لگی ۔ منافع کا تضاد ابھرا اور اختلافات پیدا ہونے لگے۔ یہ مقام وہ تھا کہ راہنما اور قانون کی ضرورت پیدا ہوئی۔ سب سے پہلے ضروری تھا کہ خدا کے بھیجے ہوئے نمائندے لوگوں کو دوسرے جہاں کی زندگی کی طرف متوجہ کریں جو سیر تکامل اور سفر ارتقاء کا آخری مرحلہ ہے۔ ضروری تھا کہ وہ انہیں متنبہ کریں کہ موت کے بعد ایک اور جہاں ہے جس میں لوگ اپنے کردار کی جزا و سزا سے دوچار ہوں گے انبیاء کرام اس ذریعے سے اور ثواب کی بشارت اور بدکاروں کو عذاب سے ڈرانے کے طریقے سے لوگوں کو احکام الہی کی طرف راغب کرتے تھے (فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذرین
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان محسوس کرتاہے کہ اسے ایسے صحیح قوانین کی ضرورت ہے جو اس کی سعادت کا سبب بنیں۔ اسی لیے خداوند الم نے انبیاء کے پاس سعادت بخش قوانین بھیجے تا کہ وہ لوگوں کے اختلافات کو ختم کریں۔ در حقیقت زیر نظر آیت ان مراحل کو بیان کرتی ہے جو انبیاء کی بعثت اور آسمانی احکام کے نزول پر منتھی ہوتے ہیں۔
پہلا مرحلہ:۔ یہ مرحلہ ابتدائی سادہ زندگی پر مشتمل ہے جب انسان اجتماعی زندگی کا عادی نہ ہواتھا اور فطرتا تضاد اور تصادم وقوع پذیر نہ ہوتا تھا۔ قانون فطرت کے مطابق خدا کی پرستش ہوتی تھی اور اس کے آسان و سادہ فرائض اس کی بارگاہ میں انجام دیئے جاتے تھے۔
دوسرا مرحلہ:۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب انسانی زندگی اجتماعی شکل اختیار کرلیتی ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئیے تھا کیونکہ انسان تکامل و ارتقاء کے لیے پیدا کیاگیاہے اور اس تکامل کے لیے اجتماعی و معاشرتی زندگی ناگزیر ہے۔
تیسرا مرحلہ:۔ یہ تضاد و تصادم کا مرحلہ ہے اور معاشرتی زندگی میں اس سے بچا نہیں جاسکتا۔ اختلاف پیدا ہوتے ہیں اور نوع انسانی کے لیے انبیاء کے قوانین اور تعلیمات کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔
چوتھا مرحلہ:۔ اس مرحلے میں انبیاء خدا کی طرف سے نجات بشر کے لیے مامور کئے جاتے ہیں۔ افکار اور قلوب کو آمادہ کرنے کے لیے سب سے پہلے بشارت و نذارت کا پروگرام پیش کیاجاتاہے ( یہ نیکوکاروں کو جزا کی بشارت دینے اور بدکاروں کو سزا سے ڈرانے کا پروگرام ہے) حب ذات اور خود پرستی کے زیر سایہ جب انسان نے بشارت اور نذارت کا پروگرام تسلیم کرلیا اور اس نے محسوس کرلیا کہ انبیاء کے پاس ایسی تعلیم ہے جو انسانی سرنوشت سے براہ راست مربوط ہے تو آسمانی کتب ، احکام اور قوانین نازل ہونا شروع ہوئے تا کہ تضادات اور مختلف کشمکشیں (جو فکری، اجتماعی، اخلاقی اور نظریاتی بنیادوں پر تھیں ) ختم ہوجائیں۔
”وَمَا اخْتَلَفَ فِیہِ إِلاَّ الَّذِینَ اٴُوتُوہُ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَتْہُمْ الْبَیِّنَاتُ بَغْیًا “
یہ جملہ در اصل تعلیمات انبیاء کے آغاز کے بعد کے مرحلے کی طرف اشارہ کرتاہے۔ اس میں اس اعتراض کا جواب ہے کہ اگر انبیاء فکری ، اجتماعی اور عقائد کے اختلافات کے حل کے لیے آتے ہیں تو ان کے آجانے کے بعد بھی کم و بیش اختلافات کیوں باقی رہتے ہیں۔
آیت کہتی ہے کہ موجودہ اختلاف اور پہلے تضاد میں فرق ہے۔ پہلے اختلافات کا سرچشمہ جہالت، نادانی اور بے خبری تھی اور یہ وجہ بعثت انبیاء سے ختم ہوگئی۔ لیکن بعد ازاں اختلافات کی بنیاد دیگر چیزیں مثلا ”بغی“ یعنی ظلم و ستم، ہٹ دھرمی و غیرہ بن گئیں جن کی وجہ سے بعض لوگوں نے اختلافی راہ پر اپنے سفر کو جاری رکھا ”(مِنْ بَعْدِ مَا جَائَتْہُمْ الْبَیِّنَاتُ بَغْیًا بَیْنَہُم“)
یہاں آکر لوگ دو مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔
مومنین۔۔۔ جو ہدایت اور حق کی راہ پرچل کھڑے ہوئے۔ انہوں نے اپنے اختلافات کو ختم کردیا (فہدی اللہ الذین امنوا۔۔۔۔۔۔)۔ انہوں نے بحکم خدا صراط مستقیم کو طے کرلیا۔ لیکن ۔۔۔۔
کفار۔۔۔جوں کے توں اپنے اختلافات میں باقی ہیں۔
وَاللهُ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیم “ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کی مشیت نیک اعمال اور لوگوں کی پاکیزگی کے مطابق ہے یعنی جو افراد حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں خدا بھی انہیں راہ راست کی ہدایت کرتاہے۔ انکی روشن فکری اور راہ راست کو پالینے کی توفیق میں اضافہ کرتاہے اور انہیں انبیاء کی وساطت سے راہ نجات اور راہ راست دکھاتا ہے
 

دین اور معاشرہخودخواہ اور دنیا پرست
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma