دعا اور زاری کا فلسفہ:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 دعا کا حقیقی مفہوم: دعا او ر تضرع و زاری

جولوگ دعا کی حقیقت، اس کی روح، اس کے تربیتی و نفسیاتی اثرات کو نہیںسمجھتے وہ اس پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ یہ اعصاب کو کمزور اور بے حس کردیتی ہے کیونکہ ان کی نظر میں دعا لوگوں کو فعالیت، کوشش، پیش رفت او رکامیابی کے وسائل کے بجا ئے اسی راہ پرلگا دیتی ہے اور انہیں سبق دیتی ہے کہ کوششوں کے بدلے اسی پر اکتفا کرو۔
معترضین کبھی کہتے ہیں کہ دعا اصولی طور پر خدا کی معاملات میں بے کار دخل اندازی ہے۔ خدا جیسی مصلحت دیکھے گا اسے انجام د ے گا ۔ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمارے مصالح کو جانتا ہے پھر کیوں ہر وقت ہم اپنی مرضی اور پسندکے مطابق اس سے سوال کرتے رہےں۔
کبھی کہتے ہیں کہ ان تمام امور کے علاوہ دعا، ارادہ الہی پر راضی رہنے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے منافی ہے۔ جولوگ ایسے سوالات کرتے ہیںوہ دعا اور تضرع و زاری کے نفسیاتی، اجتماعی، تربیتی او ر معنوی و روحانی آثار سے غافل ہیں۔ انسان ارادے کی تقویت اور د کھ در د کے دور ہونے کے لئے کسی سہارے کا محتاج ہے اور دعا انسان کے دل میں چراغ وامید روشن کردیتی ہے۔ جولوگ دعا کو فراموش کئے ہوئے ہیں وہ نفسیاتی اور اجتماعی طور پر ناپسندیدہ عکس العمل سے دوچا رہوتے ہیں۔
ایک مشہور ما ہر نفسیات کا قول ہے کہ کسی قوم میں دعا و زاری کا فقدان ا س ملت کے تباہی کے برابر ہے۔
وہ قوم جو احتیاج دعا کا گلا گھونٹ دے وہ عموما فساد اور زوال سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔
البتہ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ صبح کے وقت دعا و زاری کرنا اور باقی ساردان ایک وحشی جانور کی طرح گزارنا بے ہودہ او رفضول ہے ۔ دعا کو مسلسل جاری رہنا چا ہیئے ۔ تا کہ کہیں ایسانہ ہو کہ انسان اس کے گہر ے اثر سے ہاتھ دھو میٹھے۔۱
جولو گ سمجھتے ہیں کہ دعا کاہلی و سستی کا سبب بنتی ہے وہ دعا کا معنی ہی نہیں سمجھے کیو نکہ دعا کا یہ مطلب نہیں کہ طبیعی وسائل و اسباب سے ہاتھ کھیچ لیا جائے اور ان کے بجا ئے بس دست دعا، بلند رکھا جائے بلکہ مقصو دیہ ہے کہ تمام موجود وسائل کے ذریعہ اپنی پوری کوشش بروئے کار لائی جائے اور جب معاملہ انسان کے بس میں نہ رہے اور وہ مقصدتک نہ بہنچ پا رہا ہو تو دعا کا سہارالے توجہ کے ساتھ خدا پر بھر وسہ کرتے ہوئے اپنے اندر امید اور حرکت کی روح کو بیدار کرے اور اس مبداء عظمی کی بے پناہ نصر توں میں سے اپنے لئے مدد حاصل کرے ۔ لہذا دعا مقصد تک نہ پہنچ پانے اور رکا وٹوں کی صورت میں ہے نہ کہ یہ طبیعی عوامل کے مقابلے میں کوئی عامل ہے۔ مذکور ہ ما ہرنفسیات، مزید لکھتاہے :
اس کے علاوہ کہ دعا اطمینان پیدا کرتی ہے یہ انسان کی فکر میں ایک طرح کی شگفتگی پیدا کرتی ہے اور باطنی انبساط کا باعث بنتی ہے۔ بعض اوقات یہ انسان کے لئے بہادری اور دلاوری کی روح بیداری کے لئے تحریک کا کام بھی دیتی ہے دعا کے ذریعے انسان پر بہت سے علامات ظاہر ہوتے ہیں ۔ نگاہ کی پاکیزگی،کردار کی متانت ، باطنی انبساط و مسرت ، پر اعتماد چہرہ ، استعداد ہدایت اور استقبال حوادث سب دعا کے مظاہر ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو دعا کرنے والے کی روح کی گہرائی اور اس کے جسم میں چھپے ہو ئے ایک خزائے کی ہمیں خبر دیتی ہیں۔ دعا کی قدرت سے پسماندہ اور کم استعداد لوگ بھی اپنی عقلی اور اخلاقی قوت کو بہتر طریقے سے کا رآمد بنا لیتے ہیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑ تاہے کہ ہماری دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو دعا کے حقیقی رخ کو پہچان سکیں۔ ۲
جو کچھ ہم نے بیان کیاہے اس سے اعتراض کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ دعا تسلیم و رضا کے منانی ہے کیونکہ جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں ہم تشریح کرچکے ہیں دعا پروردگار کے فیض بے پایاں سے زیادہ سے زیادہ کسب کمال کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان دعا کے ذریعے پروردگار کی زیادہ سے زیادہ توجہ اور فیض کے حصول کی اہلیت پیدا کرلیتا ہے اور واضح ہے کہ تکامل کی کوشش اور زیادہ سے زیادہ کسب کمال کی سعی قوانین آفرینش کے سامنے تسلیم و رضا ہے نہ کہ اس کے منافی۔
علاوہ از ین دعا ایک طرح کی عبادت، خضوع اور بندگی ہے ۔ انسان دعا کے ذریعہ ذات الہی کے ساتھ ایک وابستگی پیدا کر لیتا ہے اور جیسے تمام عبادات تربیتی اثر رکھتی ہیںدعا بھی ایسے اثر کی حامل ہوتی ہے۔ چاہے قبولیت تک پہنچے یا نہ پہنچے۔
جولوگ یہ کہتے ہیں کہ دعا امور الہی میں مداخلت ہے اور جو کچھ مصلحت کے مطابق ہو خدا د یتا ہے وہ اس طرف متوجہ نہیں کہ عطیات خداوندی استعداد اور لیاقت کے مطابق تقسیم ہو تے ہیں، جتنی استعداد و لیاقت زیادہ ہو گی انسان کوعطیات بھی اسی قدر نصیب ہو نگے۔ امام صادق فرماتے ہیں:
ان عند اللہ عزوجل منزلة لا تنال الا بمسالة)3
خدا کے ہاں ایسے مقامات و منازل ہیں جومانگے بغیر نہیں مل سکتے ۔
ایک صاحب علم ،کا قول ہے :
جب ہم دعا کر تے ہیں تو ہم اپنے آپ کو ایک ایسی لا متناہی قوت سے متصل و مربوط کر لیتے ہیں جس نے ساری کا ئنات کی اشیاء کو ایک دو سر ے سے پیوست کر رکھا ہے۔4
اسی صاحب علم کا کہنا ہے:
ٓآج کا جدید ترین علم یعنی علم نفسیات (psychology) بھی یہی تعلیم دیتاہے جو انبیا دیا کر تے تھے چنانچہ نفسیات کے ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دعااور نماز اور دین پر محکم ایمان ۔۔۔۔اضطراب ، تشویش ہیجان اور خوف کو دور کردیتا ہے جوہمار ے دکھ درد کا آدھے سے زیادہ، حصہ ہے5



 

۱ نیائش الکیس کارل
2 نیائش الکیس کارل
3- اصول کافی ، ج۲، ص۳۴۸
4- آئین زندگی، ص۱۵۶
5- آئین زندگی، ص۱۵۶

 دعا کا حقیقی مفہوم: دعا او ر تضرع و زاری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma