دوبارہ حق پوشی کی مذمت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
تمام نیکیوں کی اساس بیمار کو خون دینا:

حق کو چھپانے کے بارے میں جو موضوع اسی سورہ کی آیہ ۱۵۹ میں گزرچکاہے۔ زیر نظر آیات اس کی تاکید میں ہیں اگرچہ ان میں روئے سخن علمائے یہود کی طرف ہے لیکن جیسا بارہا یاد دھانی کرائی جاچکی ہے کہ آیات کا مفہوم کسی مقام پر بھی شان نزول سے مخصوص نہیں ہے۔ شان نزول تو حقیقت میں کلی اور عمومی مفہوم بیان کرنے کا ذریعہ ہے اور آیات کا ایک مصداق ہے۔ لہذا وہ تمام افراد جو احکام خدا اور لوگوں کی ضرورت کے حقائق کو چھپاتے ہیں اور مقام و مرتبہ یا دولت و ثروت کے حصول کے لئے اس عظیم خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں انہیں جان لینا چاہئیے کہ انہوں نے گراں بہا حقیقت ناچیز قیمت کے بدلے بیچ دی ہے کیونکہ حق پوشی کا ساری دنیا سے بھی مقابلہ کیاجائے تو سود اخسارے کا ہی ہوگا۔
 زیر نظر پہلی آیت میں ارشاد ہوتاہے: وہ لوگ جو خدا کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور اسے معمولی قیمت پر بیچ دیتے ہیں آگ کے علاوہ کچھ نہیں کماتے (إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ الْکِتَابِ وَیَشْتَرُونَ بِہِ ثَمَنًا قَلِیلًا اٴُوْلَئِکَ مَا یَاٴْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ إِلاَّ النَّارَ)۔واقعا اس طرح سے جو ہدیے وہ حاصل کرتے ہیں اور مال دمنال کماتے وہ جلانے والی آگ ہے جو ان کے اندر داخل ہوتی ہے۔
 ضمنا یہ تعبیر آخرت میں تجسم اعمال کے مسئلے کو دوبارہ واضح کرتی ہے اور نشاندہی کرتی ہے کہ وہ مال حرام جو اس طرح ہاتھ آتاہے آگ ہے جو ان کے دلوں میں داخل ہوتی ہے اور قیامت میں و ہ حقیقی شکل میں مجسم ہوگی۔
 اس کے بعد ان کی ایک معنوی سزا کو بیان کیا گیاہے جو مادی سزاسے کہیں زیادہ دردناک ہے۔ ارشاد ہوتاہے: خدا قیامت کے دن ان سے بات نہیں کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے (وَلاَیُکَلِّمُہُمْ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَیُزَکِّیہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌإِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ الْکِتَابِ وَیَشْتَرُونَ بِہِ ثَمَنًا قَلِیلًا اٴُوْلَئِکَ مَا یَاٴْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَیُکَلِّمُہُمْ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَیُزَکِّیہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ
 جن لوگوں نے عہد الہی اور اپنی قسموں کو تھوڑے سے فائدے کی خاطر توڑ ڈالا ہے۔ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں قیامت کے دن اللہ ان سے بات کرے گا نہ ان پرنگاہ لطف ڈالے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے تو دردناک عذاب ہے۔
 اس آیت اور محل بحث آیت سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ یہ بڑی روحانی لذت او رعطائے الہی ہے کہ آخرت میں خدا اہل ایمان سے اپنے لطف و کرم سے بات کرے گا۔ یہ وہ مقام ہے جو اس دنیا میں خدا کے پیغمبروں کوحاصل تھا۔ وہ پروردگار سے ہمکلام ہونے کی لذت سے بہرہ مندتھے۔ اہل ایمان اس جہان میں اس نعمت سے سرفراز ہوں گے۔ علاوہ ازیں خدا ان پر نظر الطاف فرمائے گا اور عفو و رحمت کے پانی سے ان کے گناہ دھو ڈالے گا اور انہیں پاک و پاکیزہ بنادے گا۔ اس سے بڑھ کر کیا نعمت ہوسکتی ہے۔ واضح ہے کہ خدا کی گفتگو یہ مفہوم نہیں کہ خدا زبان رکھتاہے اور اس کا جسم ہے بلکہ وہ اپنی بے پایاں قدرت کے ذریعے فضامیں آواز کی لہریں پیدا کردے گا جو سمجھنے اور سننے کے قابل ہوں گی (جیسے وادی طور میں حضرت موسی سے گفتگو ہوئی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ الہام کے ذریعے ، دل کی زبان سے وہ اپنے مخصوص بندوں سے بات کرے گا۔
 بہرحال پروردگار کا یہ عظیم لطف و کرم اور اہم معنوی او روحانی لذت ان پاکیزہ بندوں کے لئے ہے جو زبان حق گو رکھتے ہیں اور لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرتے ہیں۔ اپنے عہد و پیمان کی پاسداری کرتے ہیں اور وہ ان چیزوں کو حقیر مادی فوائد پر قربان نہیں کرتے۔
 یہاں ایک سوال سامنے آتاہے کہ قرآن کی بعض آیات سے ظاہر ہوتاہے کہ قیامت کے دن خدا کچھ مجرمین اور کفار سے باتیں کرے گا۔ مثلا قال احسنوا فیہا و لا تکلمون
 دور ہوجاؤ، جہنم کی آگ میں دفع ہوجاؤ اور اب مجھ سے بات نہ کرو۔ (مومنون ۔۱۰۸)
 یہ گفتگو خدا ان لوگوں سے کرے گا جو آتش جہنم سے چھٹکارے کی درخواست کریں گے اور کہیں خداوندا! ہمیں اس سے نکال دے اور اگر ہم دوبارہ پلٹ گئے تو ہم ظالم و ستمگار ہیں(جاثیہ۔۳۰،۳۱)۔ اسی طرح مجرمین کے ساتھ بھی خدا کی گفتگو نظر آتی ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ محل بحث آیات میں گفتگو کرنے سے مراد وہ گفتگو جو محبت اور خاص لطف و کرم سے ہوگی۔ اس سے حقارت سے ٹھکرانے اور راندہ درگاہ کرنے اور سزا کے طور پر خطاب مراد نہیں جو بذات خو د ایک دردناک عذاب ہے۔
 یہ نکتہ بھی زیادہ وضاحت کا محتاج نہیں کہ یہ جو فرمایا گیاہے کہ آیات الہی کو کم قیمت پر نہ بیچو تو اس سے یہ مراد نہیں کہ زیاد ہ قیمت پر بیچو بلکہ مقصد یہ ہے کہ حق پوشی کے مقابلے میں جو چیز بھی لی جائے وہ بے قدر و قیمت ، ناچیز اور حقیر ہے۔
 بعد کی آیت اس گروہ کی کیفیت کو زیادہ واضح طور پر بیان کرتی ہے اور اس کے نقصان دہ انجام اور نتیجہ کا کی خبر دیتی ہے۔ ارشاد ہے: یہ ایسے لوگ ہیں جو گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور عذاب کو بخشش کے عوض خرید لیتے ہیں (اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْہُدَی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ
 اس طرح وہ دو طرفہ نقصان اور خسارے میں گرفتار ہوئے ہیں۔ ایک طرف ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی انتخاب کرنا اور دوسری طرف رحمت و بخشش الہی کو ہاتھ سے دے کر اس کی جگہ دردناک عذاب خدا کو حاصل کرنا اور یہ ایسا سوداہے کہ کوئی عقلمند آدمی اس کے پیچھے نہیں جاتا۔
 اسی لئے آیت کے آخر میں مزید فرماتاہے: واقعا تعجب کی بات ہے کہ (وہ عذاب خدا کے سامنے کتنی بیباکی اور) سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہیں (فما اصبرھم علی النار
 زیر بحث آخری آیت میں فرمایا گیاہے: یہدھمکیاں اور عذاب کی و عیدیں جو حق کو چھپانے والوں کے لئے بیان کی گئی ہیں اس لئے ہیں کہ خدانے آسمانی کتاب قرآن کو حقیقت اور واضح دلائل کے ساتھ نازل کیاہے تا کہ ان خیانت کاروں کے لئے کسی شک اور ابہام کی گنجائش باقی نہ رہے (ذالک بان اللہ نزل الکتب بالحق
 اس کے با وجود لوگ نہیں چاہتے کہ اپنے مادی فوائد کی خاطر اس برے عمل سے دست بردار ہوں وہ تو جیہ و تحریف میں مشغول رہتے ہیں اور اپنی آسمانی کتب میں اختلاف پیدا کرتے ہیں تا کہ بزعم خود پانی کو گدلا کرکے اس میں سے مچھلیاں پکڑ سکیں۔ اور ایسے لوگ جو کتاب آسمانی میں اختلاف پیدا کرتے ہیں حقیقت سے کافی دور ہیں (و ان الذین اختلفوا فی الکتاب لفی شقاق بعید
 لفظ شقاق کا معنی ہے شگاف اور جدائی۔ یہ تعبیر شاید اس طرف اشارہ ہوکہ ایمان و تقوی اور اظہار حق انسانی معاشرے میں وحدت و اتحاد کی رمز ہے جب کہ کفر و خیانت اور اخفائے حقائق پراگندگی ، جدائی اور شگافتگی کا سبب ہے اور اس سے مراد سطحی جدائی اور شگاف نہیں کہ جس سے صرف نظر کیاجاسکے بلکہ ایسی جدائی، پراگندگی اور شگاف ہے جس میں گہرائی ہو۔
 لَیْسَ الْبِرَّ اٴَنْ تُوَلُّوا وُجُوہَکمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلاَئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّینَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَالسَّائِلِینَ وَفِی الرِّقَابِ وَاٴَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَی الزَّکَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُوا وَالصَّابِرِینَ فِی الْبَاٴْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِینَ الْبَاٴْسِ اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُتَّقُون
 ترجمہ
 ۱۷۷۔ نیکی یہی نہیں کہ (نماز کے وقت) اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو اور تمام گفتگو قبلہ اور اس کی تبدیلی کے بارے میں کرتے رہو اور اپنا سارا وقت اسی میں صرف کردو) بلکہ نیکی (اور نیکوکار) وہ لوگ ہیں جو خدا، روز قیامت، ملائکہ، آسمانی کتاب اور انبیاء پر ایمان لے آئیں اور (اپنا) مال اس سے پوری محبت کے با وجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، ضروتمند مسافروں، سوال کرنے والوں اور غلاموں پرخرچ کریں ، نماز قائم کریں، زکوة اداکریں، جب عہد و پیمان باندھیں تو اسے پورا کریں اور بے کسی، محرومی، بیماری اور میدان جنگ غر ض ہر عالم میں استقامت و صبر کا مظاہرہ کریں یہ وہ لوگ ہیں جو سچ بولتے ہیں (اور ان کی گفتار، کردار اور اعتقاد میں ہم آہنگی ہے) اور یہی پرہیزگار ہیں۔
 شان نزول
 قبلہ کی تبدیلی سے عام لوگوں میں بالعموم اور یہود و نصاری میں بالخصوص شور و غوغا بپا ہوگیا تھا ارو یہودیوں کے نزدیک یہ بڑی سند افتخار تھی ( کہ مسلمان ان کے قبلہ کی پیروی کرتے ہیں) اور اب یہ ہاتھ سے جاتی رہی تھی لہذا انہوں نے زبان اعتراض دراز کی ۔ قرآن نے اس سورہ کی آیت ۱۴۲۔ سیقول السفھاء۔ میں اسی طرف اشارہ کیاہے۔ مندرجہ بالا آیت اس کی تائید میں نازل ہوئی جس میں کہاگیاہے کہ قبلہ کے مسئلے پر اتنی باتیں بنانا صحیح نہیں ہے بلکہ اس سے اہم تر مسائل ہیں جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس آیت میں ان مسائل کی تشریح بھی کی گئی ہے۔
 

تمام نیکیوں کی اساس بیمار کو خون دینا:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma