نعمت و بلاکے ذریعے امتحان:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
جاہلوں کے اعمال تمہارے مثبت اعمال میں حائل نہ ہوں آزمائشوں میں کامیابی کا راز:

یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہئیے کہ خدا کے امتحانات ہمیشہ سخت اور ناگوار حوادث کے ذریعے ہی ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات خدا فراواں نعمتوں اور زیادہ کامیابیوں کے ذریعے بھی اپنے بندوں کو آزماتاہے جیسا کہ قرآن کہتاہے:
و نبلوکم بالشر و الخیر فتنة ط
اور ہم تمہارا امتحان برائیوں اور اچھائیوں کے ذریعے لیں گے۔ (انبیاء۔ ۳۵)
ایک اور مقام پر حضرت سلیمان کا قول ہے:
ہذا من فضل ربی لیبلونی ء اشکر ام اکفر۔
یہ میرے پروردگار کا فضل ہے۔ وہ چاہتاہے مجھے آزمائے کہ میں اس نعمت پر اس کا شکر بجالاتا ہوں کہ کفران نعمت کرتاہوں۔ (نمل۔ ۴۰)
چند دیگر نکات بھی اس مقام پرقابل توجہ ہیں:
(!) یہ ضروری نہیں کہ سب لوگوں کو سب طریقوں سے آزمایاجائے بلکہ ممکن ہے ہر گروہ کا ایک چیز سے امتحان ہو کیونکہ انفرادی اور اجتماعی طور پر حالات اور طبائع کا لحاظ ضروری ہے۔
(ب) ہوسکتاہے کہ ایک انسان کچھ امتحانات سے تو احسن طور پر کامیاب ہو جب کہ کچھ امتحانات میں سخت ناکامی سے دوچار ہو۔
(ج) یہ بھی ہوسکتاہے کہ ایک شخص کا امتحان دوسرے شخص کے امتحان کا ذریعہ ہو۔ مثلا خداوند عالم کسی کو اس کے فرزندد لبند کی مصیبت میں ڈال کر آزماتا ہے اور یہی آزمائش دوسروں کو بھی میدان امتحان میں لے آتی ہے کہ وہ اس سے ہمدری کے تقاضے پورے کرتے ہیں یا نہیں اور مصیبت زدہ کے درد و الم میں اس کی کمک کی کوشش کرتے ہیںیا نہیں
(د) جیسا کہ اشارہ کیا جاچکاہے خدائی امتحانات ہمہ گیر ہوتے ہیں یہاں تک کہ انبیاء بھی ان سے مستثنی نہیں بلکہ ان کی آزمائش ، ان کی مسئولیت اور جواب دہی کی سنگینی کے پیش نظردوسروں سے کئی گنا سخت ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی کئی سورتوں کی آیات اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ انبیاء میں سے ہر کوئی اپنے حصے کے مطابق آزمائشوں کی گرم بھٹی میں ڈالا کیا۔ یہاں تک کہ ان میں بعض تو مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے ایک طویل عرصہ تک مختلف آزمائشوں میں مبتلا رہے تا کہ مکمل طور پر قوی ہوجائیں اور لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنی تیاری مکمل کرلیں۔۱
مکتب انبیاء کے پیروکاروں میں بھی میدان امتحان میں صبر و استقامت کی ایسی درخشاں مثالیں موجود ہیں جو دوسروں کے لئے نمونہ اور اسوہ بن سکتی ہیں۔
ام عقیل ایک دیہاتی مسلمان عورت تھی۔ اس کے پاس دو مہمان آئے۔ اس وقت اس کا بیٹااونٹوں کے ساتھ صحرا کی طرف گیا ہواتھا۔ اسے وقت اسی اطلاع ملی کہ ایک غضب ناک اونٹ نے اس کے بیٹے کو کنویں میں پھینک دیاہے اور وہ مرگیاہے۔ بیٹے کی موت کی خبر لانے والے شخص کو مومنہ نے کہا سواری سے اتر آؤ اور مہمانوں کی پذیرائی میں میری مدد کرو۔ اس کے پاس ایک بھیڑ تھی۔ اس نے وہ اس شخص کو ذبح کرنے کے لئے دی۔ کھانا تیار ہوگیا اور مہمانوں کے پاس رکھ دیاگیا۔ وہ کھانا کھاتے اور اس کے صبر و استقامت پر تعجب کرتے۔ حاضرین میں سے ایک شخص کہتاہے جب ہم کھانا کھانے سے فارغ ہولئے تو وہ مومنہ ہمارے پاس آئی ارو پوچھنے لگی تم میں سے کوئی شخص ہے جو قرآن سے اچھی طرح واقف ہو۔ ایک شخص کہنے لگا! جی ہاں، میں علم رکھتاہوں ۔ وہ کہنے لگی: قرآن کی کچھ ایسی آیات تلاوت کرو جو میرے بیٹے کی موت پر میرے دل کی تسلی کا باعث بنیں۔ وہ کہتاہے: میں نے ان آیات کی تلاوت کی:
و بشر الصبرین الذین اصابتہم مصیبة قالوآ انا اللہ و انا الیہ راجعون اولئک علیہم صلوات من ربہم رحمة و اولئک ہم المہتدون
اس عورت نے ان سے رخصت چاہی اور پھر قبلہ رخ کھڑی ہوگئی اور چند رکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد بارگاہ الہی میں یوں گویا ہوئی۔
اللہم انی فعلت ما امرتنی فانجزلی ما وعد تنی
خدایا! میں نے وہ کچھ کیا جس کا تونے حکم دیاہے اور صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور تونے جس رحمت و صلوات کا وعدہ کیا ہے وہ مجھے عطا فرما۔
اس کے بعد اس نے مزید کہا: اگر ایسا ہوتا کہ کوئی اس جہاں میں کسی کے لئے زندہ رہ سکتا۔
حاضرین میں سے ایک کہتاہے : ہیں نے سوچا کہے گی: میرا بیٹا میرے لئے رہ جاتا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ وہ کہہ رہی ہے : پیغمبر اسلام اپنی امت کے لئے باقی رہ جاتے۔2

۱۵۸۔إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اٴَوْ اعْتَمَرَ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْہِ اٴَنْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَإِنَّ اللهَ شَاکِرٌ عَلِیم
ترجمہ
۱۵۸۔ صفا و مروہ خدا کے شعائر اور نشانیوں میں سے ہیں لہذا جولوگ خانہ خدا کا حج کریں یا عمرہ بجالائیں ان کے لئے کوئی ہرج نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کا طواف کریں (اور سعی کریں اور مشرکین نے غیر مناسب طور پر ان پر جو بت نصب کررکھے ہیں ان سے دونوں مقامات مقدسہ کی عظمت و حیثیت میں ہرگز کوئی کمی نہیں ہوئی) اور جو لوگ حکم خدا کی بجاآوری کے لئے اعمال خیر بجالائیں خدا ن کا قدردان ہے اور ان کے کردار سے آگاہ ہے۔
شان نزول
ظہور اسلام سے قبل اور اسی طرح بعد تک بت پرست مشرکین مناسک حج ادا کرنے مکہ آتے تھے اور وہ مراسم جن کی بنیاد حضرت ابراہیم نے رکھی تھی، ان کے ساتھ کچھ خرافات اور شرک آلود افعال بھی بجالاتے تھے۔ مراسم حج میں عرفات میں قیام، قربانی، طواف اور صفا و مروہ کے در میان سعی کرنا شامل تھا لیکن ان اعمال کی صورت کافی بگڑچکی تھی۔ اسلام نے پھر سے اس پروگرام کی اصلاح کی۔ صحیح اور شرک سے پاک مراسم کو تو باقی رکھا لیکن خرافات پر خط بطلان کھینچ دیا۔
ان اعمال و مناسک میں جو انجام دیے جاتے تھے دو مشہور پہاڑیوں صفا و مروہ کے در میان سعی کرنا، یعنی چلنا بھی شامل تھا۔
شیعہ اور اہل تسنن دونوں کی بہت سی روایات میں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مشرکین نے کوہ صفا پر ایک بہت بڑا بت نصب کررکھا تھا جس کا نام اساف تھا۔ کو مروہ پر ایک اور بت گاڑاگیاتھا۔ جس کا نام نائلہ تھا۔ سعی کرتے وقت وہ ان دونوں پہاڑیوں پر چڑھتے اور ان بتوں کو متبرک سمجھتے ہوئے مس کرتے ۔ مسلمان اس وجہ سے صفاء و مروہ کے در میان سعی کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ موجودہ حالات میں صفا و مروہ کے در میان سعی کرنا کوئی ٹھیک بات نہیں ۔
اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی جس نے بتایا کہ صفا و مروہ اللہ کے شعائر اور نشانیوں میں اگر کچھ نادان اور بیوقوف لوگوں نے انہیں بتوں کی نجاست سے آلودہ کررکھاہے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ مسلمان سعی جیسے فریضہ کو ترک کردیں۔اس بارے میں اختلاف ہے کہ یہ آیت کب نازل ہوئی۔ کچھ روایات کی بناء پر عمرة القضا (سات ہجری) کے وقت نازل ہوئی۔ اس سفر میں پیغمبر کی مشرکین کے ساتھ ایک شرط یہ تھی کہ وہ ان دونوں بتوں کو صفا و مروہ سے اٹھالیں گے انہوں نے اس شرط پر عمل کیا لیکن دوبارہ اسی جگہ نصب کردیا۔ اس وجہ سے بعض مسلمان صفا و مروہ کے در میان سعی کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔ اس آیہ شریفہ نے انہیں منع کیا۔
بعض کا خیال ہے کہ یہ آیت حجة الوداع (پیغمبر اکرم کے آخری حج سہ ۱۰ ھ) کے موقع پر نازل ہوئی۔ اگر یہ احتمال تسلیم کرلیا جائے۔ تو دوسری طرف یہ بھی مسلم ہے کہ اس وقت نہ صرف یہ کہ صفا و مروہ پرکوئی بت تھا بلکہ مکہ کے گردو پیش کہیں بھی بتوں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہاتھا۔
لہذا۔ قابل تسلیم بات یہ ہے کہ صفا و مروہ کے در میان سعی کرنے میں مسلمانوں کی یہ ناراضی پہلے کی بات ہے جب۱ ساف اور نائلہ بت ان پر رکھے ہوئے تھے۔


 

۱- مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے سے یہاں مراد (اعلان رسالت سے قبل) ہے۔ (مترجم)
2- سفینة البحار، ج۲، ص۷ (مادہ صبر)

جاہلوں کے اعمال تمہارے مثبت اعمال میں حائل نہ ہوں آزمائشوں میں کامیابی کا راز:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma