(شہداء)

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 شہداء کی ابدی زندگی: ذکر خدا کیاہے:

گذشتہ آیات میں تعلیم و تربیت اور ذکر و شکر کے متعلق گفتگو تھی۔ ان کے وسیع تر مفہوم جس میں اکثر دینی احکام شامل ہیں کو سامنے رکھتے ہوئے محل بحث پہلی آیت میں صبر و استقامت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے جس کے بغیر گذشتہ مفاہیم کبھی عملی شکل اختیار نہیں کرسکتے۔
پہلے فرمایا: اے ایمان والو! صبر و استقامت اور نماز سے مدد حاصل کرو (یا یھا الذین امنوا استعینوا بالصبر و الصلوة) اور ان دو قوتوں (استقامت اور خدا کی طرف توجہ ) کے ساتھ مشکلات و سخت حوادث سے جنگ کے لئے آگے بڑھو تو کامیابی تمہارے قدم چومے گی کیونکہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (ان اللہ مع الصبرین
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صبر کا معنی ہے بدبختیوں کو گوارا کرنا۔ اپنے آپ کو ناگوار حوادث کے سپر کرنا اور عوامل شکست کے سامنے ہتھیار ڈال دینا لیکن صبر کا مفہوم اس کے برعکس ہے۔ صبر و شکیبائی کا معنی ہے ہر مشکل اور حادثے کے سامنے استقامت ۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے صبر کے تین پہلو بیان کئے ہیں۔
۱۔ اطاعت پر صبر (ان مشکلات کے مقابلے میں صبر کرنا جو اطاعت کی راہ میں پیش آئیں)۔
۲۔ گناہ پر صبر (سرکش و طغیان خیز گناہ اور شہوات پر ابھارنے والے اسباب کے مقابلے میں قیام کرنا)۔
۳۔ مصیبت پر صبر (ناگوار حوادث کے مقابلے میں ڈٹے رہنا، پریشان نہ ہونا اور حوصلہ نہ ہارنا)۔
ایسے موضوعات بہت کم ہیں جن کی صبر و استقامت کی طرح قرآن مجید مین تکرار و تاکید ہے۔ قرآن مجید میں تقریبا ستر مرتبہ صبر کے متعلق گفتگو ہوئی جن میں دس مقامات خود پیغمبر اکرم کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔
بڑے بڑے جوانمردوں کے حالات زندگی گواہ ہیں کہ ان کی کامیابی کا اہم ترین یا واحد عامل صبر تھا جو لوگ اس خوبی سے بے بہرہ ہیں وہ بہت سے مصائب و آلام میں شکست کھاجاتے ہیں بلکہ کہاجاسکتا ہے کہ انسان کی پیش رفت اور ترقی میں جس قدر کردار صبر ادا کرتاہے۔ اتنا اسباب، استعداد اور ہوشیاری کا عمل دخل نہیں۔
اسی بناء پرقرآن مجید میں نہایت تاکیدی انداز سے اس کا ذکر آیاہے۔ قرآن ایک مقام پر کہتاہے:
انما یوفی الصبرون اجرہم بغیر حساب
صابرین بے حساب اجر و جزا حاصل کریں گے۔ (زمر۔۱۰)
ایک اور مقام پر حوادث پر صبر کرنے کے بارے میں ہے:
ان ذلک من عزم الامور
یہ محکم ترین امور میں سے ہے۔
در اصل استقامت اور پامردی انسان کے بلند ترین فضائل میں سے ہے اور اس کے بغیر باقی فضائل کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اسی لئے نہج البلاغہ میں ہے:
علیکم بالصبر فان الصبر من الایمان کا الراس من الجسد و لا خیر فی جسد لا راس معہ و لا فی ایمان لا صبر معہ۔
صبر و استقامت تمہارے لئے لازمی ہے کیونکہ ایما ن کے لئے صبر کی وہی اہمیت ہے جو بدن کے لئے سرکی، جیسے سرکے بغیر بدن کا کوئی فائدہ نہیں ایسے ہی صبر کے بغیر ایمان میں کوئی پائیداری نہیں اور نہ اس کا کوئی نتیجہ ہے۔ ۱
اسلامی روایات میں صبر کو اس لئے اعلی ترین قرار دیا گیاہے تا کہ انسان گناہ کے وسائل مہیا ہونے کے با وجود استقامت دکھائے اور لذت گناہ سے آنکھیں بند کرلے ۔
ابتدائی انقلابی مسلمان چاروں طرف سے طاقت ور، خونخوار اور بے رحم دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے لہذا محل بحث آیت میں انہیں خصوصیت سے حکم دیاگیا کہ مختلف حوادث کے مقابلے میں صبر و استقامت سے کام لیں۔ خدا پر ایمان کی صورت میں نتیجہ شخصی استقلال، اعتماد اور اپنی مدد آپ کی صورت میں برآمد ہوتاہے۔ تاریخ اسلام نے اس حقیقت کی بڑی وضاحت سے نشاندہی کی ہے کہ یہی تمام کامیابیوں کی حقیقی بنیاد تھی۔
دوسری چیز جو مندرجہ بالا آیت میں صبر کے ساتھ خصوصی اہمیت سے متعارف کرائی گئی ہے نماز ہے ۔ اسی لئے اسلامی احادیث میں ہے:
کان علی اذا اہالہ امر فزع قام الی الصلوة ثم تلی ہذہ الایة و استعینوا بالصبر و الصلوة۔
حضرت علی کو جب کوئی مشکل در پیش ہوتی تو نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے اور نماز کے بعد اس مشکل کو حل کرنے کے لئے نکلتے اور اس آیت کی تلاوت کرتے و استعینوا بالصبر و الصلوة -2
اس بات پر بالکل تعجب نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ جب انسان ایسے سخت حوادث اور ناقابل برداشت مشکلات سے دوچار ہوتو وہ ان کے سامنے اپنی طاقت اور استطاعت کو نا چیز سمجھتاہے اور قہرا وہ ایک ایسے سہارے کا محتاج ہوتاہے جوہر جہت سے غیر محدود اور لا متناہی ہو۔ نماز انسان کو ایسے ہی مبداء سے مربوط کردیتی ہے اور اس کا سہارا پاکر انسان مطمئن دل سے آسانی کے ساتھ مشکلات کی خوفناک موجوں کو توڑ کر نکل جاتاہے۔
اسی لئے مندرجہ بالا آیت میں در اصل دو اصول سکھائے گئے ہیں ایک خدا پر بھر و سہ کرنا جس کی طرف نماز اشارہ کرتی ہے اور دوسرا اپنی مدد آپ اور اپنے آپ پر اعتماد جسے صبر کے عنوان سے یاد کیاگیاہے۔
پا مردی ، صبر اور استقامت کے مسئلے کے بعد دوسری آیت میں شہداء کی ابدی اور ہمیشہ کی زندگی کے متعلق گفتگو کی گئی ہے جس کا صبر و استقامت سے قریبی ربط ہے۔
پہلے ان لوگوں (شہداء) کو مردہ کہنے سے منع کیاگیاہے فرمایا: جو را ہ خدا میں قتل ہوں اور شربت شہادت نوش کریں انہیں کبھی مردہ نہ کہو (و لا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات) اس کے بعد مزید تاکید سے فرمایا: بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور و ادراک نہیں رکھتے (بل احیاء و لکن لا تشعرون
عموما ہر تحریک میں ایک گروہ بز دل اور راحت طلب لوگوں کا ہوتاہے جو اپنے آپ کو ایک طرف لے جاتاہے اور کنارہ کش رہتاہے۔ یہ لوگ اتنا ہی نہیں کرتے کہ خود کام نہ کریں بلکہ دوسروں کو بھی بددل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی ناخوشگوار حادثہ رونما ہوتاہے تو یہ لوگ اس پراظہار افسوس کرتے ہیں اور اسے اس تحریک اور قیام کیلئے بے فائدہ اور بے مصر ف ہونے کی دلیل قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ اس سے غافل ہیں کہ آج تک کوئی مقدس مقصد اور گراں قدر مشن قربانی یا قربانیوں کے بغیر حاصل نہیں ہوا اور یہ اس دنیا کی ایک سنت رہی ہے۔ قرآن کریم بار ہا ایسے لوگوں کے متعلق بات کرتاہے اور انہیں سخت سرزنش اور ملامت کرتاہے۔
اس قسم کی لوگوں کا ایک گروہ ابتدائے اسلام میں بھی تھا۔ جب کوئی شخص میدان جہاد میں شہادت کی سعادت حاصل کرتا تو یہ لوگ کہتے فلاں مرگیا اور اس کے مرنے پر اظہار افسوس کرکے دوسروں کے اضطراب کا سامان کرتے۔ خداوند عالم ایسی زہریلی گفتگو کے جواب میں ایک عظیم حقیقت سے پردہ اٹھاتاہے اور صراحت سے کہتاہے کہ تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ راہ خدا میں جان دینے والوں کو مردہ کہو۔ وہ زندہ ہیں۔ وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں اور بارگاہ خدا سے معنوی غذا اور روزی حاصل کرتے ہیں، ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں اور وہ اپنی کامیاب سرنوشت سے مکمل طور پر خوش و خرم ہیں لیکن تم لوگ جو عالم مادہ کی محدود چار دیواری میں محبوس و مقید ہو ان حقائق کا ادراک نہیں کرسکتے۔


 

۱- نہج البلاغہ ، کلمات قصار۸۲۔
2-  المیزان ، ج۱، ص۱۵۳، بحوالہ کتاب کافی

 شہداء کی ابدی زندگی: ذکر خدا کیاہے:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma