برنامه های رسول لله

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
فاذکرونی اذکرکم“کی تفسیر آیت میں ( ہُوَ مُوَلِّیہَا) کی شباہت

گذشتہ آیت کے آخری حصے میں خداوند عالم نے قبلہ کی تبدیلی کی ایک دلیل تکمیل نعمت اور ہدایت مخلوق بیان کی ہے۔ زیر بحث آیت میں لفظ ”کما“ اسی طرف اشارہ ہے کہ صرف قبلہ کی تبدیلی تمہارے لئے نعمت خدا نہیں بلکہ خدانے تمہیں اور بھی بہت سی نعمتیں دی ہیں۔ جیسا کہ میں نے تمہاری نوع میں سے تمہارے لئے رسول بھیجاہے۔ لفظ ”منکم“ (یعنی تمہاری جنس سے) ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ وہ نوع بشر میں سے ہے اور صرف بشر ہی بشر کے لئے مربی، رہبر اور نمونہ ہو سکتاہے اور وہی اپنی نوع کی تکالیف ، ضروریات ،اور مسائل سے آگاہ ہوتاہے اور یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے یا یہ مقصد ہے کہ وہ تمہارے قبیلہ و خاندان میں سے ہے اور تمہارا ہم وطن ہے کیونکہ شدید نسلی تعصب کی وجہ سے ممکن نہ تھا کہ عرب کسی ایسے پیغمبر کے زیر بار ہوتے جو ان کی نسل وقوم میں سے نہ ہوتا جیسا کہ سورہ شعراء کی آیت ۱۹۸ اور ۱۹۹ میں ہے:۔
و لو نزلناہ علی بعض الاعجمین فقراہ علیہم ما کانوا بہ مؤمنین
اگر ہم قرآ ن ایسے شخص پر نازل کرتے جو عرب نہ ہو تا اور وہ ان کے سامنے اسے پڑھتا تو یہ ہرگز ایمان نہ لاتے۔
یہ ان کے لئے بہت اہم نعمت شمار ہوتی تھی کہ پیغمبر خود انہی میں سے تھے البتہ یہ تو ابتدائے کار کی بات تھی لیکن آخر میں قوم، قبیلہ، وطن اور جغرافیائی سرحدوں کا معاملہ اسلامی پروگراموں سے حذف کردیاگیا اور اسلام کے حقیقی اور دائمی قانون کا اعلان کیا گیا جو وطن ، مذہب اور نسل کی بجائے انسانیت کو متعارف کراتاہے۔
اس نعمت کے تذکرے کے بعد چار دوسری نعمتوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے جو انہیں پیغمبر کی برکت سے حاصل ہوئی تھیں۔
۱۔ وہ ہماری آیا ت تمہارے سامنے تلاوت کرتاہے: (یتلوا علیکم ایتنا)۔ لفظ (یتلوا) لغت میں تلاوت کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے پے در پے لے آنا۔ اسی لئے جب عمارتیں کسی مسلسل صحیح نظام کے تحت بن رہی ہوں تو عرب اسے تلاوت سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی پیغمبر خدا کی باتیں ایک صحیح اور مناسب نظام کے تحت پے در پے ۔ تمہارے سامنے پڑھتا ہے تا کہ تمہارے دلوں کو تیار کرے کہ وہ انہیں قبول کریں اور ان کے معانی سمجھیں۔ یہ منظم اور مناسب تلاوت تعلیم و تربیت کے لئے آمادگی پیدا کرتی ہے۔ جس کی طرف بعد کے جملوں میں اشارہ ہوگا۔
۲۔ وہ تمہاری تربیت و پرورش کرتاہے: (و یزکیکم)۔ راغب مفردات میں کہتاہے کہ تزکیہ کا معنی ہے بڑھا نا اور نشو و نما دینا۔ یعنی پیغمبر آیات خدا کے ذریعے تمہارے معنوی و مادی اور انفرادی و اجتماعی کمالات کو بڑھاتاہے اور تمہیں نمو بخشتاہے۔ تمہارے وجود کی شاخوں پر فضیلت کے پھول کھلاتا ہے اور زمانہ جاہلیت کی بری صفات جو تمہارے معاشرے کو آلودہ کئے ہوئے ہیں ان کے زنگ سے تمہارے وجود کو پاک کرتاہے۔
۳۔ تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتاہے: (و یعلمکم الکتاب و الحکمة)۔اگر چہ تعلیم، تربیت پر مقدم ہے لیکن جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ اس مقصد کو ثابت کرنے کے لئے کو اصل مقصد تربیت ہے اسے تعلیم سے پہلے بیان فرمایا چونکہ تعلیم تو مقصد کے لئے وسیلہ ہے۔
باقی رہا کتاب و حکمت کا فرق یہ ممکن ہے کہ کتاب قرآن کی آیات اور وحی الہی کی طرف اشارہ ہو جو بصورت اعجاز پیغمبر پر نازل ہوئی اور حکمت سے مراد ہو پیغمبر صلی اللہ و آلہ و سلم کی گفتگو اور تعلیمات جو حقائق قرآن کی وضاحت اور تفسیر کے لئے ہیں اور اس کے قوانین و احکام کو عملی شکل دینے کے لئے بیان فرمائی جاتی رہی ہیں۔ انہی تعلیمات کو سنت کہتے ہیں جن کا سرچشمہ وحی الہی ہی ہے۔
یہ بھی ہوسکتاہے کہ کتاب احکام و قوانین کی طرف اور حکمت اسرار، فلسفہ، عدل اور اس کے نتائج کی طرف اشارہ ہو۔
بعض مفسرین کا خیالی ہے کہ حکمت سے مراد وہ حالت اور استعداد ہے جو تعلیمات قرآن سے پیدا ہوتی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے انسان تمام امور کا حساب و کتاب رکھتاہے اور ہر ایک کو اس کے مقام پر بجالاتاہے۔۱
تفسیر المنار کا مؤلف یہ تفسیر ذکر کرکے کہ حکمت سے مراد سنت ہے اسے غیر صحیح قرار دیتاہے اور اس کے لئے سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۳۹ سے استدلال کرتاہے۔ جس میں فرمایا گیاہے:
ذلک مما اوحی الیک ربک من الحکمة
یہ ایسے امور ہیں جنہیں تمہارا پروردگار حکمت میں سے تم پر وحی کرتاہے۔
ہمارے نزدیک اس اعتراض کا جواب واضح ہے اور وہ یہ کہ حکمت کا مفہوم وسیع ہے لہذا ہوسکتاہے یہاں آیات قرآن اور وہ اسرار مراد ہوں جو وحی کے ذریعے پیغمبر پر نازل ہوئے جہاں حکمت کا ذکر کتاب (قرآن) کے ساتھ آیاہے (جیسے زیر نظر اور ایسی دیگر آیات ) وہاں مسلما ًحکمت سے مراد کتاب کے علاوہ کچھ اور ہے اور وہ سنت کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی۔
۴۔ تم جو نہیں جانتے وہ تمہیں اس کی تعلیم دیتاہے: (و یعلمکم مالم تکونوا تعلمون)۔ یہ مفہوم اگرچہ گذشتہ جملے میں موجود ہے جس میں کتاب و حکمت کی تعلیم کا ذکر ہے لیکن قرآن اسے خصوصیت سے الگ بیان کررہاہے تا کہ انہیں سمجھائے کہ اگر انبیاء و رسل نہ ہوتے تو بہت سے علوم ہمیشہ کے لئے مخفی رہتے۔ وہ فقط اخلاقی و اجتماعی رہبر نہیں ہیں۔ بلکہ علمی رہنما بھی ہیں ان کی رہنمائی کے بغیر انسانی علوم کے کسی پہلو میں پختگی ممکن نہ تھی۔
جو کچھ بیان کیاگیاہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ زیر نظر آیت میں خدانے اپنی پانچ نعمتوں کی طرف اشارہ کیاہے جو یہ ہیں:
پہلی۔ پیغمبر کا نوع بشر میں سے ہونا۔
دوسری۔ لوگوں کے سامنے آیات الہی کی تلاوت کرنا۔
تیسری اور چوتھی۔ تعلیم و تربیت کرنا۔ اور
پانچویں۔ لوگوں کو ان امور کی تعلیم دینا جو پیغمبر کے بغیر وہ نہیں جانتے تھے۔
خدا کی نعمتوں کے ذکر کے بعد اگلی آیت میں لوگوں کو بتایاجارہاہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے اور ہر نعمت سے صحیح طور پر استفادہ کیاجائے جو سپاس گزاری کا طریقہ ہے اور کفران نعمت نہ کیاجائے۔ فرماتاہے: مجھے یاد رکھو تا کہ میں تمہیں یاد رکھوں اور میرا شکر بجالاؤ اور کفران نعمت نہ کرو (فاذکرونی اذکرکم و شکروالی و لا تکفرون
واضح ہے کہ (مجھے یاد کرو تا کہ میں تمہیں یاد کروں) یہ جملہ خدا اور بندوں کے در میان کسی ایسے رابطے کی طرف اشارہ نہیں جیسے انسانوں کے در میان ہوتاہے کہ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں: تم ہمیں یاد کیاکرو ہم تمیں یاد کیاکریں گے بلکہ یہ ایک تربیتی و تکوینی بنیاد کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی مجھے یاد رکھو۔ ایسی پاک ذات کی یاد جو تمام خوبیوں اور نیکیوں کا سرچشمہ ہے اور اس طرح اپنی روح اور جان کو پاکیزہ اور روشن رکھو اور رحمت پروردگار کی قبولیت کے لئے آمادہ رہو۔ اس ذات کی طرف متوجہ رہنا اور اسے یاد رکھنا ہر قسم کی فعالیتوں میں زیادہ مصمم ، زیادہ قوی اور زیادہ متحد کردے گا۔
اسی طرح شکر گزاری اور کفران نعمت نہ کرنا کوئی تکلفا نہیں اور یہ فقط کلمات کی زبان سے ادائیگی تھی۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہر نعمت کو ٹھیک اس کی جگہ پر صرف کرنا اور اسی مقصد کی راہ میں خرچ کرنا جس کے لئے وہ پیدا کی گئی ہے تا کہ یہ امر خدا تعالی کی نعمت و رحمت میں اضافے کا باعث ہو۔


۱۔ تفسیر فی ظلال، ج۱، ص۱۹۴۔
فاذکرونی اذکرکم“کی تفسیر آیت میں ( ہُوَ مُوَلِّیہَا) کی شباہت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma