مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اکرم خصوصیت سے چاہتے تھے کہ قبلہ، کعبہ کی طرف تبدیل ہوجائے اور آپ انتظار میں رہتے تھے کہ خدا کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی حکم نازل ہو۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ آنحضرت کو حضرت ابراہیم اور ان کے آثار سے عشق تھا۔ علاوہ ازیں کعبہ توحید قدیم ترین مرکز تھا۔ آپ جانتے تھے کہ بیت المقدس تو وقتی قبلہ ہے لیکن آپ کی خواہش تھی کہ حقیقی و آخری قبلہ جلد معین ہو جائے۔ آپ چونکہ حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم کئے تھے، یہ تقاضا زبان تک نہ لاتے صرف منتظر نگاہیں آسمان کی طرف لگائے ہوئے تھے جس سے ظاہر ہو تا کہ آپ کو کعبہ سے کس قدر عشق اور لگاؤہے۔
آسمان شاید اس لئے کہاگیاہے کہ وحی کا فرشتہ اوپر سے آپ پر نازل ہوتاتھا ورنہ خدا کے لئے کوئی محل و مقام ہے نہ اس کے وحی کے لئے