حق تلاوت کیاہے؟:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
در اصل ان آیات کے تین مقاصد ہیں: ہدایت صرف ہدایت الہی ہے:

یہ بہت ہی پر معنی تعبیر ہے جو مندرجہ بالا آیات میں آئی ہے۔ یہ ہمارے لئے قرآن مجید اور دیگر کتب آسمانی کے سلسلے میں واضح راستہ متعین کرتی ہے۔ ان آیات الہی کے مفہوم کے ضمن میں مختلف گروہ ہیں۔ ایک گروہ کو پورا اصرار ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ الفاظ و حروف کو صحیح مخارج سے ادا کیاجائے یہ گروہ مضمون اور معانی کو کوئی اہمیت نہیں دیتا چہ جائیکہ اس پر عمل کی طرف توجہ دے۔ قرآن کے مطابق ایسے لوگوں کی مثال اس جانور کی سی ہے جس پر کتا بیں لادی جائیں۔
 کمثل الحمار یحمل اسفارا  ( جمعہ ۔۵)
 دوسرا گروہ وہ ہے جو الفاظ کی سطح سے کچھ اوپر گیاہے۔ وہ معانی پر بھی غور کرتاہے، قرآن کی باریکیوں اور نکات میں فکر کرتاہے اور اس کے علوم سے آگاہی حاصل کرتاہے لیکن عمل کے معاملے میں صفر ہے۔
 ایک تیسرا گروہ ہے جو حقیقی مومنین پر مشتمل ہے۔ یہ گروہ قرآن کو کتاب عمل اور زندگی عمل اور زندگی کے مکمل پروگرام کے طور پر قبول کرتاہے۔ وہ اس کے الفاظ پڑھنے، اس کے معانی پر فکر کرنے اور اس کے مفاہیم سمجھنے کو عمل کرنے کا مقدمہ اور تمہید سمجھتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایسے لوگ قرآن پڑھتے ہیں تو ان کے بدن میں ایک نئی روح پیدا ہوجاتی ہے۔ ان میں نیا عزم، نیا ارادہ، نئی آمادگی اور نئے اعمال پیدا ہوتے ہیں اور یہ ہے حق تلاوت۔
 امام صادق سے اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں ایک عمدہ حدیث منقول ہے۔ آپ نے فرمایا:
 یوتلون ایاتہ و یتفقھون بہ و یعملون باحکامہ و یرجون و عدہ و یخافون عیدہ و یعتبرون بقصصہ و یاتمرون باو امرہ و ینتھون بنو اھیہ ما ہو و اللہ حفظ ایاتہ و درس حروفہ و تلاوت بسورہ و درس اعشارہ و اخماسہ  حفظوا حروفہ و اضا عو حدودہ و انما ھوت برایاتہ و العمل بارکانہ قال اللہ تعالی کتاب انزلناہ الیک مبارک لید بروا ایاتہ
 مقصود یہ ہے کہ وہ اس کی آیات غور سے پڑھیں۔ اس کے حقائق کو سمجھیں ، اس کے احکام پر عمل کریں، اس کے وعدوں کی امید رکھیں اس کی تنبیہوں سے ڈرتے رہیں۔ اس کی داستانوں سے عبرت حاصل کریں، اس کے اوامرکی اطاعت کریں، اس کے نواہی سے بچے رہیں۔ خدا کی قسم مقصد آیات حفظ کرنا، حروف پڑھنا، سورتوں کی تلاوت کرنا اور اس کے دسویں اور پانچویں حصوں کو یاد کرنا نہیں۔
 ان لوگوں نے حروف قرآن تو یاد رکھے مگر اس کی حدود کو پامال کردیاہے مقصود صرف یہ ہے کہ قرآن کی آیات میں غور و فکر کریں اور اس کے احکام پر عمل کریں جیسا کہ قرآن فرماتاہے: یہ با برکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ پر نازل کیاہے تا کہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں۔
 ۱۲۲۔یَابَنِی إِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی اٴَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاٴَنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ
 ۱۲۳۔وَاتَّقُوا یَوْمًا لاَتَجْزِی نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَلاَیُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَلاَتَنفَعُہَا شَفَاعَةٌ وَلاَہُمْ یُنصَرُونَ
 ترجمہ
 ۱۲۲۔ اے بنی اسرائیل میں نے تمہیں جو نعمت دی ہے اسے یاد کرو اور یہ بھی یاد کرو کہ میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی (لیکن تم نے اس مقام سے استفادہ نہیں کیا اور گمراہ ہوگئے)۔
 ۱۲۳۔ اس دن سے ڈر وجب کسی شخص کو دوسرے کی جگہ پر بدلہ نہیں دیاجائے گا۔ اس سے کوئی عوض قبول نہ کیاجائے گا۔ کوئی شفاعت و سفارش اس کے لئے فائدہ مند نہ ہوگی اور نہ ہی (کسی طرف سے) ایسے لوگوں کی مدد کی جائے گی۔
 تفسیر
 قرآن کاروئے سخن پھر بنی اسرائیل کی طرف ہے۔ ان پر جو نعمتیں نازل ہوئیں قرآن ان کا ذکر کرتاہے خصوصا وہ فضیلت جو خدا نے ان کے زمانے کے لوگوں پر انہیں عطا کی تھی وہ یاد دلائی گئی ہے۔
 فرماتاہے: اے بنی اسرائیل! ان نعمتوں کو یاد کرو جومیں نے تمہیں عطا کیں او ر یہ بھی یاد کرو میں نے تمہیں تمام جہان والوں پر (اس زمانے میں موجود سب لوگوں پر) فضیلت بخشی (یبنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی نعمت علیکم و انی فضلتکم علی العلمین
 لیکن کوئی نعمت جواب دہی اور ذمہ داری کے بغیر نہیں ہوتی بلکہ ہر نعمت عطا کرنے کے بعد خدا کسی ذمہ داری اور کسی عہد و پیمان کا بوجھ انسان کے کندھے پر رکھتاہے لہذا بعد کی آیت میں تنبیہ کرتاہے اور کہتاہے: اس دن سے ڈر وجب کسی شخص کو دوسرے کی بجائے جزا کا سامنا نہ ہوگا ( وَاتَّقُوا یَوْمًا لاَتَجْزِی نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا) اور کوئی چیزوہاں فدیہ کے طور پر قبول نہ کی جائے گی ( و لا یقبل منھا عدل) اور( اذن خدا کے بغیر) کوئی سفارش سودمند نہ ہوگی ( و لا تنفعہا شفاعة) اگر سمجھو کہ خدا کے علاوہ وہاں کوئی انسان کی مدد کرسکتاہے تو یہ غلط فہمی ہے کیونکہ وہاں کسی شخص کی مدد نہیں کی جاسکے گی (و لا ھم ینصرون) لہذا جنہیں تم نجات کی راہیں سمجھتے ہو وہ سب مسدود ہیں اور شاید دنیا میں تم انہی کا سہارا لیتے ہو۔ صرف اور صرف ایک راستہ کھلاہے اور وہ ایمان و عمل صالح نیز گناہوں پر تو بہ اور اپنی اصلاح کا راستہ ہے۔
 چونکہ اس سورہ کی آیہ ۴۷ اور ۴۸ میں بھی بعینہ یہی مسائل بیان ہوئے ہیں (تعبیرات کے کچھ اختلاف کے ساتھ) اور وہاں ہم تفصیل سے بحث کرچکے ہیں لہذا یہاں اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
 ۱۲۴۔ وَإِذْ ابْتَلَی إِبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَاٴَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِی قَالَ لاَیَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِینَ
 ترجمہ
 ۱۲۴۔(وہ وقت یاد کرو) جب خدانے ابراہیم کو مختلف طریقوں سے آزمایا اور وہ ان سے عمدگی سے عہدہ برآںہوئے تو خدا نے ان سے کہا: میں نے تمہیں لوگوں کا امام و رہبر قرار دیا۔ ابراہیم نے کہا: میری نسل اور خاندان میں سے (بھی ائمہ قرار دے)۔ خدا نے فرمایا: میرا عہد (مقام امامت) ظالموں کو نہیں پہنچتا (اور تماری اولاد میں سے جو پاک اور معصوم ہیں وہی اس مقام کے لائق ہیں)۔
 

در اصل ان آیات کے تین مقاصد ہیں: ہدایت صرف ہدایت الہی ہے:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma