یہودی و نصاری کے علاوہ ہرگز کوئی شخص جنت میں داخل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
بے دلیل دعوی نتیجہ تضاد ہوتاہےہٹ دھرم حاسد

مندرجہ بالا آیات میں قرآن یہودیوں اور عیسائیوں کے ایک اور فضول اور نامعقول دعوی کی طرف اشارہ کرکے انہیں دندان شکن جواب دیتاہے۔ کہتاہے: وہ (یہود و نصاری) کہتے ہیں کہ یہودی و نصاری کے علاوہ ہرگز کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا (و قالوا لن یدخل الجنة الا من کان ہودا او نصری)1
قرآن دونوں گروہوں کے دعوی کا ایک ہی جگہ جواب دیتاہے۔ پہلے فرماتاہے: یہ توان کی فقط آرزو ہے (جو کبھی پوری نہ ہوگی (تلک امانیھم)۔ پھر پیغمبر کو مخالف کرکے فرماتاہے: (قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صدقین)۔ یعنی اگر تم سچے ہو تو اپنے دعوی پر کوئی دلیل پیش کرو۔یہ حقیقت ثابت ہونے کے بعد کہ ان کے پاس ان کے دعوی کی کوئی دلیل نہیں اور ان کے لئے اختصاص جنت کا دعوی صرف خواب و خیال ہے جو ان کے سروں پر سوار ہے جنت میں داخل ہونے کا اصلی و حقیقی قانون کلی بیان کرتاہے۔ فرماتاہے: ہاں تو جو خدا کے سامنے سرتسلیم خم کرلے اور نیکوکار ہو اس کا اجر و ثواب اس کے پروردگار کے ہاں مسلم ہے (بلی من اسلم وجہہ اللہ و ہو محسن فلہ اجر عند ربہ)۔ اس لئے ایسے اشخاص کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ( و لا خوف علیھم و لا ہم یحزنون
لہذا جنت، اجر و ثواب الہی اور سعادت دائمی کا حصول کسی گروہ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ یہ سب کچھ ان کے لئے ہے جن میں دو شرطیں پائے جائی ہوں۔
۱۔ اول یہ کہ وہ حکم کے سامنے تسلیم محض ہوں، ایمان و توحید ان کے دل پر سایہ فگن ہو اور احکام الہی میں کسی قسم کی تبعیض اور چون و چرا کے قائل ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ جو احکام ان کے فائدے کے ہوں وہ تو قبول کرلیں اور جو ان کے خلاف ہوں انہیں پس پشت ڈال لیں بلکہ وہ مکمل طور پر تسلیم حق ہوں۔۲۔ دوسرا یہ کہ ان کے ایمان کے آثار عمل اور کا رخیر کی انجام دہی کی صورت میں ظاہر ہوں۔ وہ سب سے نیکی کریں اور تمام پروگراموں میں نیک ہوں۔
اس بیان سے در اصل قرآن یہودیوں کی نسل پرستی اور عیسائیوں کے نامعقول تعصبات کی نفی کرتاہے اور کسی خاص گروہ میں سعادت و خوش بختی کے منحصر ہونے کو باطل قرار دیتاہے۔ نیز ضمنا ایمان اور عمل صالح کو نجات کا معیار قرار دیتاہے۔
چند اہم نکات
(!) امانیھم: یہ امنیہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے ایسی آرزو جس تک انسان رسائی حاصل نہ کرسکے لیکن یہاں تو اہل کتاب میں سے مدعین کی صرف ایک آرزو تھی یعنی جنت کی ان کے لئے تخصیص ۔ چونکہ یہ آرزو کئی آرزؤں کا سرچشمہ تھی اور اصطلاحا کئی شاخیں اور پتے رکھتی تھی اس لئے جمع کی صورت میں ذکر ہوئی ہے۔
(!!) اسلم وجہہ: یہ بات قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں اسلام کی (وجہ) کی طرف نسبت دی گئی ہے (اپنے چہرے کو خدا کے سامنے خم کرنا)۔ یہ اس سبب سے ہے کہ کسی کے سامنے سپردگی کی واضح ترین دلیل یہ ہے کہ انسان پورے چہرے کے ساتھ اس کے سامنے متوجہ ہو۔ البتہ یہ احتمال بھی ہے کہ (وجہ) کا معنی ذات ہو یعنی اپنے پورے وجود کے ساتھ فرمان پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔
(!!!) بے دلیل د عووں سے بے اعتنائی: مندرجہ بالا آیات میں یہ نکتہ بھی ضمنا مسلمانوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ کسی مقام پر بھی بے دلیل باتوں کے پیچھے نہ جائیں اگر کوئی بھی شخص کچھ دعوی کرے تو اس سے دلیل مانگیں اور یوں اندھی تقلید کے سامنے بند باندھ دیں تا کہ ان کے معاشرے میں منطقی فکر کی حکمرانی ہو۔
(!۔) و ھو محسن: مسئلہ تسلیم کے بعد (و ہومحسن) ارشاد فرمایا گیاہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب تک ایمان راسخ نہ ہو نیکی اپنا وسیع مفہوم نہیں پاسکتی۔ یہ جملہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتاہے کہ ایسے انسان کے لئے نیکی ایک جلد گزرجانے والا فعل نہیں بلکہ وہ ان کی صفت بن چکی ہے اورنکی ذات کی گہرائی میں اتر چکی ہے۔
راہ توحید کے راہیوں کے لیے خوف و غم نہیں:
اس کی دلیل واضح ہے کیونکہ وہ صرف خدا سے ڈرتے ہیں اور کسی سے گھبراتے نہیں لیکن بیہودہ مشرک ہر چیز سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اس کی اور اس کی گفتگو، بدحالی، فضول رسم و رواج اور ایسی ہی بہت سی چیزیں،ہیں جن سے وہ خوفزدہ رہتے ہیں۔
۱۱۳۔ وَقَالَتْ الْیَہُودُ لَیْسَتْ النَّصَارَی عَلَی شَیْءٍ وَقَالَتْ النَّصَارَی لَیْسَتْ الْیَہُودُ عَلَی شَیْءٍ وَہُمْ یَتْلُونَ الْکِتَابَ کَذَلِکَ قَالَ الَّذِینَ لاَیَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ فَاللهُ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا کَانُوا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ
ترجمہ
۱۱۳۔ یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں کی (خدا کی ہاں) کوئی حیثیت و وقعت نہیں اور عیسائی (بھی) کہتے ہیں کہ یہودیوں کی کوئی حیثیت نہیں (اور وہ باطل پر ہیں) حالانکہ دونوں گروہ خدا کی کتاب پڑھتے ہیں (اور انہیں ایسے تعصبات اور کینوںسے علیحدہ رہنا چاہیے)۔ نادان (اور مشرک )لوگ بھی ان کی سی باتیں کرتے ہیں۔ خداوند عالم قیامت کے دن ان کے اختلاف کا فیصلہ کرے گا۔
شان نزول
بعض مفسرین نے ابن عباس سے یوں نقل کیاہے:
جب نجران کے عیسائیوں کا ایک گروہ رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو علماء یہود کا ایک گروہ بھی وہاں موجود تھا۔ عیسائیوں اور ان کے در میان آنحضرت کے سامنے ہی جھگڑا شروع ہوگیا۔ رافع بن حرملہ جو ایک یہودی تھا اس نے عیسائیوں کی طرف منہ کرکے کہا: تمہارے دین کی کوئی اساس نہیں ہے نیز اس نے حضرت عیسی کی نبوت اور انجیل کا انکار کیا۔ نجران کے عیسائیوں میں سے ایک شخص نے بعینہ یہی جملہ اس کے جواب میں کہا: کہنے لگا: یہودیوں کے مذہب کی کوئی بنیاد نہیں اور اس نے حضرت موسی کی نبوت اور ان کی کتاب تورات کا انکار کیا۔ اسی اثناء میں مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور دونوں گروہوں کو ان کی غلط اور نادرست گفتگو پر ملامت کی

 


 

1  اگر چہ لفظ (قالوا) بصورت واحد ہے لیکن معلوم ہے کہ دو گروہوں کی حالت بیان کی گئی ہے جن میں سے ہر ایک کا دعوی الگ ہے ۔ یہودی کہتے ہیں جنت ہمارے لئے مخصوص ہے اور عیسائی کہتے ہیں ہمارے لئے مخصوص ہے۔


 

بے دلیل دعوی نتیجہ تضاد ہوتاہےہٹ دھرم حاسد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma