خود پسند گروہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
ہزار سال عمر کی تمنا:  )وَاٴُشْرِبُوا فِی قُلُوبِہِمْ الْعِجْل )مفہوم:

قرآن مجید کی مختلف آیات کے علاوہ بھے یہودیوں کی تاریخ سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ اپنے آپ کو بلند نسل سمجھتے تھے اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ وہی انسانی معاشرے کے منتخب پھول ہیں اور بہشت انہی کے لئے بنائی گئی ہے اور جہنم کی آگ ان سے زیادہ سر و کار نہیں رکھتی، وہ خدا کے بیٹے اور خاص دوست ہیں۔ خلاصہ یہ کہ (آنچہ خوباں ہمہ دارند انہا تنہا دارند یعنی تمام عالم کی اچھائیاں انہی میں جمع ہیں۔

ان کی یہ (خوشبودار، خود خواہی قرآن کی مختلف آیات میں بیان ہوئی ہے، جن میں یہودیوں کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔

سورہ مائدہ کی آیت ۱۸ میں ہے:

 نَحْنُ اٴَبْنَاءُ اللهِ وَاٴَحِبَّاؤ

یعنی ۔ ہم خدا کے فرزند اور خاص دوست ہیں۔

سورہ بقرہ کی آیہ ۱۱۱ میں ہے:

وَقَالُوا لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ کَانَ ہُودًا اٴَوْ نَصَارَی

یعنی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہودی اور عیسائی کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جاسکتا۔

سورہ بقرہ کی آیہ ۸۰ میں ہے:

وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ اٴَیَّامًا مَعْدُودَةً َ

چند دنوں کے سوا جہنم کی آگ ہمیں نہیں چھو سکتی۔

یہ موہوم خیالات ایک طرف تو انہیں ظلم و زیادتی اور گناہ و طغیان کی طرف مائل کرتے اور دوسری طرف تکبر، خود پسندی اور خود کو سب سے بلند سمجھنے کی دعوت دیتے۔

مندرجہ بالا آیات میں قرآن مجید انہیں دندان شکن جواب دیتاہے اور کہتا ہے: اگر ایسا ہی ہے جیسا کہ تم سمجھتے ہو کہ ) آخرت کا گھر خدا کے ہاں باقی لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے  مخصوص ہے تو پھر موت کی تمنا کرو اگر سچ کہتے ہو (۔ قُلْ إِنْ کَانَتْ لَکُمْ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِین )۔ کیاتم مائل نہیں ہوکہ جوار رحمت خدا میں جاکر پناہ لو اور جنت کی بے شمار نعمتیں تمہارے اختیار میں ہوں۔ کیا تم اپنے محبوب کے دیکھنے کے آرزومند نہیں ہو۔

یہودی چاہتے تھے کہ وہ یہ بات کرکے مسلمانوں کو آزردہ خاطر کریں کہ بہشت تو یہودیوں کے لئے مخصوص ہے یا یہ کہ ہم تو دوزخ میں بس چند دن جلیں گے اور یا کہتے کہ جنت میں صرف وہی جائے گا جو یہودی ہوگا۔ قرآن نے ان کے اس جھوٹ سے پردہ اٹھایاہے۔ کیونکہ جب وہ دنیا کی زندگی کو کسی طرح ترک کرنے کو تیار نہیں تو یہی ان کے جھوٹے ہونے کی محکم دلیل ہے۔

واقعا اگر انسان کا دار آخرت کے بارے میں وہی ایمان ہو جو بزعم خود یہودیوں کا تھا تو وہ اس دنیا سے کیسے لو لگا سکتا ہے اور کیسے اس کے حصول کے لئے ہزاروں گناہوں کا مرتکب ہوسکتا ہے اور وہ موت سے یہاں تک کہ اپنے مقصد کی راہ میں بھی کیسے ڈرسکتاہے۔

بعد والی آیت میں قرآن مزید کہتاہے۔ اپنے آگے بھیجے ہوئے برے اعمال کی وجہ سے وہ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے ( وَلَنْ یَتَمَنَّوْہُ اٴَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ اٴَیْدِیہِمَْ)۔اور خدا ستمگاروں سے واقف ہے( وَاللهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِین

جی ہاں۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے اعمال ناموں میں کیسی سیاہیاں موجود ہیں۔ وہ اپنے قبیح اور سنگین گناہوں سے مطلع تھے۔ خدا بھی ان ظالموں کے اعمال سے آگاہ ہے۔ اسی لئے ان کے لئے آخرت کا گھر عذاب، سختی اور رسوائی کا گھر ہے اور اسی بناء پر وہ اس کی خواہش نہیں رکھتے۔

محل بحث آیت مادی چیزوں کے متعلق ان کی شدید حرص کا تذکرہ یوں کرتی ہے: انہیں تم اس زندگی پر سب سے زیادہ حریص پاؤگے۔ (ولَتَجِدَنَّہُمْ اٴَحْرَصَ النَّاسِ عَلَی حَیَاة) ۔ یہاں تک کہ مشرکین سے بھی بڑھ کر (   ٍوَمِنْ الَّذِینَ اٴَشْرَکُوا)۔ مال و دولت کی ذخیرہ اندوزی میں حریص ، دنیا پر قبضہ کرنے میں حریص، سب کچھ اپنے لئے سمجھنے میں حریص یہاں تک یہ مشرکین سے بھی بڑھ کر حریص ہیں حالانکہ مشرکین کو  فطری طور پر مال جمع کرنے میں سب سے زیادہ حریص ہوناچاہئیے۔

ان میں سے ہر کوئی چاہتاہے کہ ہزار سال تک زندہ رہے (یَوَدُّ اٴَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اٴَلْفَ سَنَةٍ )۔ زیادہ ثروت جمع کرنے کے لئے یا سزا کے خوف سے۔

ہاں۔ وہ موت سے ڈرتے ہیں اور ہزارسالہ عمر کی تمنا کرتے ہیں لیکن یہ طولانی عمر بھی انہیں عذاب خدا سے نہیں بچاسکے گی  (وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہِ مِنْ الْعَذَابِ اٴَنْ یُعَمڑ

اگر وہ گمان کرتے ہیں کہ خدا ان کے اعمال سے آگاہ نہیں ہے تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ خدا ان کے اعمال کے بارے میں بصیر و بیناہے( وَاللهُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ

ہزار سال عمر کی تمنا:  )وَاٴُشْرِبُوا فِی قُلُوبِہِمْ الْعِجْل )مفہوم:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma