شفاعت اور مسئلہ توحید

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
تعجب کی بات یہ ہے اعتراضات کے جوابات :

مسئلہ شفاعت کی غلط تفسیروں کی وجہ سے دو گروہ اس کی مخالفت میں نمایاں ہو ئے اور دونو ں ایک دوسرے سے متضاد رخ پر ہیں
ایک گروہ وہ ہے جو مادیین جیسیفکر رکھتاہے ۔ان لوگو ں کے نزدیک مسئلہ شفاعت پردہ پوشی کا عامل ہے اور طلب وسعی کو ختم کر دیتا ہے ۔ان کا جواب تفصیل سے گذر چکاہے ۔
دوسرا گروہ افراط کے شکار کوتاہ نظر مذہبی لوگوں کا ہے (جیسے وہابی حضرات )اور ان کے کچھ اور ہم فکر لوگ بھی ہیں یہ لوگ شفاعت کے اعتقاد کو ایک قسم کا شرک اور آیین توحید سے انحراف سمجھتے ہیں ۔ باوجودیکہ اس اشکال کو پیش کرنا موضو ع بحث سے خارج ہے (اور اس سے مذ ہبی اشتعال کا اندیشہ ہو سکتا ہے )تا ہم اس بحث کی تکمیل کے لئے ہم اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
پہلے اس موضو ع کی طرف توجہ ضروری ہے کہ وہابی حضرات جنہوںنے آخری دو صدیو ں میں محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان کی رہبری میں سر زمین حجاز کو اپنے افکار کے زیر تسلط کر لیا ہے وہ اپنے تند وتیز عقائد میں جو زیادہ تر توحید کے سلسلہ میں ہیں نہ صرف یہ کہ شیعوں کے مخالف ہیں بلکہ اکثر اہل تسنن مسلمانوں کے بھی سخت مخالف ہیں ۔
محمد بن عبدالوہاب نے ا پنے نظریات بن تیمیہ(احمد بن عبدالحلیم دمشقی متوفی ۷۲۸ ھ،جواس سے تقریبا چارسوسال ہو گزرے)سے لئے ہیں ۔وہ حقیقت میں بن تیمیہ کے افکا ر وعقائد کااجرا کرنے والاتھا ۔
محمد بن عبدالوہاب ۱۱۶۰سے اپنے سن وفات ۱۲۰۶ تک وہا ں کے حاکموں کا ساتھ دےتے ہو ئے حجاز کے بدوٴں اور بیابانوںمیں گھومنے والی اقوام میں ساکت تعصب کی آگ بڑ کاتارہا ۔توحید کے دفاع اور شرک کے مقابلے کے نام پراپنے مخالفین کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتارہا اور اس طرح کاروبار حکومت اور سیاسی قیادت پر الٹے سید ھے طریقے سے تسلط جمانے میں کامیاب ہوگیا ۔اور اس سلسلے میںحجاز اور حجاز سے باہر بہت سے مسلمانوں کا خون بہایا گیا ۔
محمدبن عبدالوہاب کے مریدوں کی کشمکش علاقہ ٴحجاز تک محدود نہ تھی بلکہ ۱۲۱۶(یعنی ٹھیک محمد بن عبدالوہاب کے انتقال کے د س سال کے بعد اس کے مرید اور پیروکارحجاز کے بیابانوں کے راستے نکلے اور بے خبری میں اچانک کربلا پر حملہ کردیا عید غدیر کی مناسبت سے شہر میں چھٹی تھی اور کربلا کے اکثر لوگ عید غدیر کے سلسلے میں نجف اشرف گئے ہو ئے تھے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے شہر کی دیوار توڑدی اور شہر میں لوٹ مار مچادی ۔حرم امام حسین اور دوسرے مقدس اسلامی مقامات کوتباہ وبرباد کردیا ۔ان مقامات سے تمام ہیرے جوہرات ،منقش پردے ،نفیس ہدیے اور زینت کی چیزیں (لشکر یزید کی اتباع میں )لوٹ کر لے گئے ۔پچاس مسلما ن ضریح کے قریب ،پانچ سو صحن میں اورکثیر تعداد میں شہر کے دیگر مقامات پر شہید کردیے جب کہ بعض لوگ اس موقع پر شہدائے کربلا کی پچا س ہزار سے زیادہ کی تعداد بیان کرتے ہیں بہت سے گھروں میں غا رت گری کی گئی۔یہاں تک کہ بوڑ ھے بچے اور عورتیں بھی اس ظلم سے محفوظ نہ رہ سکے ۔
۱۳۴۴ میں فقہائے مد ینہ نے جو کاروبار حکومت میں دخل رکھتے تھے فتویٰ دیا کہ حجاز میں تمام بزرگان دین کی قبریں مسمار کردی جائیں اور آٹھ شوال کو(متو کل عباسی کی پیروی میں )یہ حکم نافذ کردیا گیا ۔قبر رسول تو تمام مسلمانوں کی ناراضگی کے خوف سے محفوظ رہ گئی۔
خلاصہ یہ کہ اس مذہب کے پیروکار خود محمد بن عبدالوہاب کی طرف سخت مزاج ، رحمدلی سے عاری ،خود سر ، لکیر کے فقیر اور متعصب ہیںعقل ومنطق کے بجائے شدت وسختی پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔دانستہ یا ندانستہ وہ تمام اسلام چند ایک مسائل کے لئے مقابلہ اور جنگ ہی کر نا سمجھتے ہیں ۔مثلا شفاعت ، زیارت اور توسل ۔عملی طور پر اسلام کے اہم اجتماعی ااور معاشرتی مسائل خصوصا جن کا تعلق عدالت اجتماعی ااور سامراجی آثا ر کو ختم کرنے اور مادہ پرستی اور مذاہب الحادی کے عقل ومنطق کے ساتھ مقابلہ سے لوگوں کو دور رکھے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے فکری دائرہ کار میں ان مسائل کے بارے میں گفتگونہیں ہوتی اور دور حاضر کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے ایک وحشت ناک جہالت اور لاعلمی میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔
بہرحال یہلوگ مسئلہ شفاعت کے بارے میں یوں کہتے ہیں:
کو ئی شخص حق نہیں رکھتا کہ وہ رسول اسلام سے شفاعت طلب کرے ۔مثلاوہ کہے یامحمد اشفع لی عنداللہ(اے محمد !اللہ کے ہاں میری شفاعت کیجئے )”وان المساجد للہ فلاتدعوامع اللہ احدا(جن ،۱۸)
رسالہ کشف الشہاب ،تالیف محمد بن عبدالوہاب میں یوں ہے :
اگر کوئی کہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ خدانے پیغمبر کو مقام ِشفاعت بخشا ہے اورآپ خدا کے اذن وفرمان سے شفاعت کر سکتے ہیں تو کیا حرج ہے کہ جو کچھ خدا نے انہیں بخشا ہے ہم اس کا تقاضا کریں ۔
تو ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ درست ہے کہ خدا نے انہیں مقام شفاعت عطاکیا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے نہی کی ہے کہ ہم ان سے شفاعت طلب کریں ۔ خدانے کہا ہے --”فلاتدعوامع اللہ احدا“ ( اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو)۔
علاوہ ازیںمقام شفاعت نبی کریم سے مخصوص نہیں ہے فرشتے اور دوستان خدا بھی اس مقام کے حامل ہیں تو کیا ہم ان سے بھی شفاعت طلب کر سکتے ہیں ۔اگر کوئی اس طرح کہے تو اس نے خدا کے صالح بندوں کی پرستش اور عبادت کی ہے ۔ ۱
شرک سے نجات صرف چار قواعد جاننے سے ممکن ہے :
(۱)وہ کفار جن سے نبی اکرم بر سرے پیکار تھے یہ اقرار کرتے تھے کہ خدا ہی خالق و رازق اور وہی جہان کی تدبیر کرنے والا ہے ”۔ قل من یرزقکم من السماء والارض  و من یدبر الامر ط فسیقولون اللہ  یعنی ان سے پوچھو کہ آسمان و زمین سے تمہیں رزق کون دیتا ہے اور کون تدبیر امر کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں اللہ ،( یونس ، ۳۱ )
لیکن یہ اقرار ا نہیں ہرگز مسلمانوں کے زمرے میں داخل نہ کرسکا ۔
(۲) وہ کہتے تھے بتوں کی طرف ہماری توجہ اور ان کی عبادت صرف قرب خدا اور شفاعت کے لئے ہے --” ۔ویقولون ھولاء شفعائنا عنداللہ“یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے شفیع ہیں ۔
(۳)پیغمبر نے ا ن تمام لوگوں کی جو غیر خدا کی عبادت کرتے ہیں نفی کردی اور ان کے خلاف حکم دیا چاہے وہ فرشتوں اور انبیاء اور صالحین کی عبادت کرتے تھے یا درختوں ، پتھروں ، سورج اور چاند کی ، آپ ان کے درمیان کسی قسم کے فرق کے قائل نہ تھے ۔
(۴) ہمارے زمانے کے مشرکین زمانہ جاہلیت کے مشرکوں سے بد تر ہیں کیونکہ وہ اطمینان و راحت کے وقت بتوں کی عبادت کرتے تھے لیکن تنگی و سختی میں وہ صرف خدا کو پکارتے تھے ، جیسا کہ قرآن میں ہے:
فاذا رکبو فی الفلک دعواللہ مخلصین لہ الدین
( لہذا جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتاََ خدا ہی کو پکارتے ہیں) عنکبوت ۔ ۶۵)
لیکن ہمارے زمانے کے مشرکین راحت و اطمینان اور تنگی و سختی دونون میں غیر خدا سے متوسل ہوتے ہیں ۔


 

۱البراہین الجمیلہ،ص ۱۷ ، بحوالہ کشف الشبہات ۔

تعجب کی بات یہ ہے اعتراضات کے جوابات :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma