( ۲ )سات آسمان:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 01
(۳)عظمت کا ئنات: (۱) تناسخ ا ور ارواح کا پلٹ آنا

لفظ”سما“لغت میں ”اوپر“کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور ایک جامع مفہوم جس کے مختلف مصادیق ہیں لہذاہم دیکھتے ہیں کہ یہ لفظ قرآن میں گوناگوں موقعوں پر صرف ہوا ہے
(۱) کبھی زمین کے پڑوس میں ”اوپر “والی جہت پر بولا جاتا ہے جیسے کہ ارشاد ہے :
الم ترکیف ضرب اللہ مثلاََکلمة طیبةکشجرةطیبة اصلھا ثابت وفرعھا فی السمائ
کیا تو نے دیکھانہیںکہ خد اوندعالم نے پاک گفتگوکوکس طرح ایک ایسے پاکیزہ درخت سے تشبیہ دی ہے
جس کی جڑیں مضبوط وثابت ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں ۔ ( ابراہیم ۔۲۴)
(اا) کبھی لفظ”سماء “سطح زمین سے بہت دور (بادلو ںکی جگہ )کے لئے بولاجاتا ہے ۔جیسے کہ فرمایا:
ونزلنامن السمآء مآء مبرکا
ہم آسمان سے برکتوں والاپانی ناز ل کر تے ہیں (ق۔۹)
(ااا) کبھی اطراف زمین کی ہوا ئے متراکم کی جلد کو آسمان کہا جاتا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے :
وجعلناالسماء سقفا محفوضا
ہم نے آسمان کو محکم ومضبوط چھت قرار دیاہے (انبیاء ۳۲)
یہ اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ زمین کی فضا جو چھت کی طرح ہمارے سروں پر بر قرار ہے وہ اتنی مضبو ط ہے کہ کرہ ٴ ارض کو آسمانی پتھروں کے گرنے سے محفوظ رکھتی ہے ۔یہ پتھر جو مسلسل شب وروز کششِ زمین کے مرکزمیں آتے ہیں اور اس کی طرف کھچے آتے ہیں اگر ہوائے متراکم کی جلدنہ ہوتوہمیشہ ان خطرناک پتھروںکی زدمیںرہیںلیکن اس جلدکاوجود اس بات کاسبب بنتاہے کہ یہ پتھر فضائے زمین ہی میں جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں ۔
اور کبھی اوپر کے کروں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتاہے :
ثم استوی الی السماء وھی دخان
پھروہ آسمان کی طرف متوجہ ہو اجب کہ وہ دھواں اوربخارات تھے پہلی گیس سے کرات کو پیدا کیا ۔(فصلت ،اا)(حم سجدہ)
اب ا صل بات کی طرف لوٹے ہیں کہ سات آسمانوں سے کیا مراد ہے ۔اس سلسلے میںمفسرین اور علماء اسلام کے گوناگوں بیانات اور
مختلف تفاسیر ہیں۔
(۱) بعض سات آسمانوںسے وہی سبع سیارات (سات ستارے (یعنی عطارد،زہرہ ،مریخ ،مشتری ،زحل ،چاند اور سورج ) مراد لے تے ہیں ۔علماء ہئیت قدیم کے نزدیک چاند اور سورج بھی سیارات میںداخل تھے۔(۱)
(2)بعض علماء نے نظام شمسی کے دس کرات (نو سیارے مشہور ہیں ایک اورسیارہ بھی ہے جو مریخ اور مشتری کے درمیان تھا لیکن وہ منتشر ہوگیا اس کا کچھ حصہ اسی طرح اسی مدار زمیں محو گر دش ہے)کو دو حصوں تقسیم کیا ہے ایک گروہ وہ ہے جو مدار زمین میں گردش کر ر ہے ہیں(جن میں عطارد اور زہرہ شامل ہیں )اور ایک گروہ مدار زمین سے باہر اور اس کے اوپر کی طرف ہے ۔شاید اسی تفسیر سے یہی باہر کے سات سیارے مراد ہیں۔
(ب)بعض کا نظریہ ہے کہ اس سے مراد زمین کے گرد ہو ائے متراکم کے طبقات ہیں اوروہ مختلف تہیں جو ایک دوسرے کے ا و پر ہیں ۔
(ج)بعض کہتے ہیں یہاں سات کا عدد تعدادی عدد(عدد مخصوص )کے معنی میں نہیں بلکہ عدد تکثیری ہے جس کے معنیٰ ہیں زیادہ اور تعداد فراواں ،کلام عرب اور خود قرآن میںکئی جگہ اس کی نظیریں موجودہیں مثلاََ سورہ لقمان آیت ۲۷میں ہے :
ولوان ما فی الارض من شجرةاقلام والبحر یمدہ من بعدہ سبعةابحر ما نفدت کلمت اللہ
اگر زمین کے درخت قلمیں بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائیں اور سات سمندر مزید مل جائیں تو بھی کلمات خدا کو لکھا نہیں جاسکتا ۔
بالکل واضح ہے کہ سات آیت میں سات سے مراد عدد مخصوص سات نہیں بلکہ اگر ہزار سمندر بھی سیاہی بن جائیں تو اس سے خدا کے لاماتناہی علم کو نہیں لکھا جاسکتا ۔اس بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ سات آسمانوں سے متعدد آسمان اور عالم بالاکے بہت سے کرات مراد ہیں اوراس سے کو ئی عدد مخصوص مراد نہیں ۔
(د) جو بات زیادہ صحیح دکھا ئی دیتی ہے وہ یہ کہ”سمو ات سبع “سے مرادآسمان ہی ہے جواس کے حقیقی معنی ہیں ۔مختلف آیات ِقرآن میں اس عبارت کاتکرار ظاہر کرتا ہے کہ سات کاعدد یہاں کثرت کے معنی میں نہیں بلکہ کسی خاص عدد کی طرف اشارہ ہے البتہ آیات ِ قرآن سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ تمام کرات ،ثوابت اور سیارات جو ہم دیکھ رہے ہیں پہلے آسمان کا جزء ہیں اور چھ عالم اس کے علاوہ موجود ہیں جو ہماری نگاہ اور آج کے علمی آلات کی دسترس سے باہر ہیں اور مجموعی طور پرسات آسمانوں سے سات عالم تشکیل پذیر ہیں
قرآن اس گفتگوکا شاہدہے :
وزیناالسماء الدنیابمصابیح
ہم نے نچلے آسمان کو ستاروںکے چراغوں سے سجایا۔(فصلت ،۱۲)
دوسری جگہ پر یوں ہے۔
انا زیناالسماء الدنیابزینة ن الکواکب
یقناََ ہم نے نچلے آسما ن کو ستاروںسے زینت بخشی(الصفت ۔۶)
ان آیات سے واضح ہو تا ہے کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں ۔جسے ستاروں کی دنیا کہتے ہیں سب آسمان اول ہے اسکے علاوہ چھ آسمان اور موجود ہیں جن کی جزئیات کے متعلق ہمیں کوئی اطلاع نہیں ۔
یہ جو کچھ ہم نے کہاہے کہ چھ اور آسمان ہیں جو ہمارے لئے مجہول ہیں اور ممکن ہے کہ آئند ہ علوم ان سے پر دہ اٹھائیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے ناقص علوم جتنے آ گے بڑھتے ہیں خلقت کے نئے عجائبات تک دسترس حاصل کر تے ہیں مثلاََ علم ہیئت ابھی وہاں تک پہنچا ہے جہاں سے آگے ٹیلی سکوپ telescope) )دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا ۔
بڑی بڑی رصد گاہو ں کے انکشافات ایک عرب نوری سال کے فاصلے تک پہنچ چکے ہیں اور سائنس دان معترف ہیں کہ یہ تو آغاز عالم ہے اختتام نہیں لہذا اس میں کیا مانع ہے کہ آئندہ علم ہیئت کی ترقی سے مزید آسمان ،کہکشاںئیں اور دوسرے عوالم کا انکشاف ہوجائے ۔بہتر ہے کہ گفتگودنیا کی بہت بڑی رصد گا ہ سے سنی جائے ۔
 

(۳)عظمت کا ئنات: (۱) تناسخ ا ور ارواح کا پلٹ آنا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma