۱۔ توحید کے دلائل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
۳ ۔توحید افعال کی اقسام لفظ ”احد

توحید ، یعنی ذاتی خدا کا یکتا و یگانہ ہونا اور اس کا کوئی شریک و شبیہ نہ ہونا، دلائل نقلی اور قرآن مجید کی آیات کے علاوہ بہت سے عقلی دلائل سے بھی ثابت ہے جن میں سے ایک حصہ کو ہم مختصر طور پر یہاں نقل کرتے ہیں ۔
۱۔ برہان صرف الوجود۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا وجود مطلق ہے اور اس کے لیے کوئی قید و شرط اورحد نہیں ہے ۔اس قسم کا وجود یقینی طور پر غیر محدود ہو گا ،کیو نکہ اس میں محدودیت ہوگی تو وہ ضروری طور پر عدم سے آلودہ ہوگا ،لیکن وہ ذات ِمقّدس جس کی ہستی و وجود خود بخود موجود ہے وہ ہر گز عدم و نیستی کامقتضی نہیں ہوگا ،اور وہ خارج میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو عدم کو اس پر ڈال دے ۔اس بناء پر وہ کسی حد کے ساتھ محدود نہیں ہوگا۔
دوسری طرف سے عالم میں دو غیر محدود ہستیاں تصور میں ہی نہیں آسکتیں،کیو نکہ اگر دو موجود پیدا ہو جائیں تو یقینا ان میں سے ہر ایک دوسرے کے کمالات کا فاقد ہوگا ۔یعنی اس میںدوسرے کے کمالات نہیں ہوں گے ۔اس بناء پر وہ دونوں ہی محدود ہو جائیں گے ،اور یہ خود ذات واجب والو جود کی یگانیت اور یکتائی پر ایک واضح دلیل ہے ۔(غور کیجئے )
۲۔ برھان علمی ۔جب ہم اس وسیع و عر یض جہان پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ابتداء میں ہم عالم کو پرا گندہ موجودات کی صورت میں دیکھتے ہیں ،زمین و آسمان ،سورج ،چاند ،ستارے ،انواع و اقسام کی نباتات و حیوانات ،لیکن ہم جتنا زیادہ غور کرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ اس عالم کے اجزاء و ذرّات اس طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اورپیوستہ ہیں کہ مجمو عی طور پر وہ ایک منظم چیز بناتے ہیں اور اس جہان پرمعین قوانین کا ایک سلسلہ حکو مت کرتا ہے ۔
انسانی علم و دانش کی پیش رفت جس قدر زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر اس جہان کے اجزاء کا انسجام و وحدت زیادہ آشکار اور ظاہر ہوتا جا رہا ہے ،یہاں تک کہ بعض اوقات ایک چھو ٹے سے نمونہ (مثلاََایک سیب کے درخت سے گرنے )کی آزمائش اس بات کاسبب بن جاتی ہے کہ ایک بہت بڑا قانون جو سارے عالم ِ ہستی پر حکم فر ماہے ،منکشف ہو جاتا ہے ۔(جیسا کہ ”نیو ٹن “اور ”قانون جاذبہ “کے بارے میں ہے )۔
نظام ہستی کی یہ وحدت ،اس پر حاکم قوانین اور ا س کے اجزاء کے در میان انسجام و یکتائی ،اس بات کی نشان دہی کرتے ہیںکہ اس کا خالق یکتا و یگانہ ہے ۔
۳۔بر ھانِ تمانع۔(فلسفی علمی دلیل )دوسری دلیل جو علماء نے خدا کی ذات کی یکتائی اور وحدت کے لیے بیان کی ہے اور قرآن نے سورہ انبیاء کی آیہ ۲۲ میں جس کے بارے میں ہدایت کی ہے ،وہ برھان تما نع ہے ،فر ماتا ہے :”لو کان فیھما اٰلھةالا اللہ لفسدتا فسبحان اللہ رب ّالعرش عمّا یصفون “اگر زمین و آسمان میں خدائے واحد و یکتا کے علاوہ اور بھی خدا ہوتے تو آسمان و زمین میں فساد ہو جاتا ،اور نظام جہاں درہم و بر ہم ہو جاتا پس وہ خدا جو عرش کا پر ور دگار ہے ان کی تو صیف سے پاک و منزّہ ہے ۔
ہم اس دلیل کی جلد ۱۳ص۲۸۶میں ”بر ھان تمانع “کے عنوان کے ما تحت تفصیل کے ساتھ وضاحت کر چکے ہیں ۔
۴۔خدا وندیگانہ کی طرف انبیاء کی عمومی دعوت : اثبات توحید کے لیے یہ ایک اور دلیل ہے کیو نکہ اگر عالم میں دو واجب الوجود ہوتے تو دونوں کو ہی منبع فیض ہو نا چا ہیئے تھا ،کیو نکہ ایک بے نہایت کامل وجود کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی نور افشانی میں بخل کرے ،کیو نکہ وجود کامل کے لیے عدم فیض نقص ہے ،اور اس کے حکیم ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ سب کو اپنا فیض پہنچائے ۔
اس فیض کی دو شاخیں ہیں ۔(عالم خلقت میں)فیض تکوینی ،اور (عالم ہدایت میں )فیض تشریعی۔اس بناء پر اگر متعدد خدا ہوتے تو ضروری تھا کہ ان کی طرف سے بھی پیغمبر اور رسول آتے ،اور ان کے فیض تشر یعی سب کو پہنچاتے ۔حضرت علی علیہ السلام اپنے فر زند گرامی امام ِ مجتبٰی علیہ السلام کے وصیت نامہ میں فر ماتے ہیں: ”و اعلم یا بنی انہ لو کان لربک شریک لا تتک رسلہ و لرایت اٰثار ملکہ و سلطا نہ ،و لعرفت افعالہ و صفاتہ ،و لکنہ الہ واحد کماوصف نفسہ ۔“”اے بیٹا !جان لو کہ اگر تیرے پرور دگار کا کوئی شریک ہوتا تواس کے بھیجے ہوئے نما ئند ے تیرے پاس آتے ،اور تو اس کے ملک و سلطنت کے آثار کا بھی مشاہد ہ کرتا ،اور تو اس کی صفات و افعال سے بھی آشنا ہوتا ،لیکن وہ ایک اکیلا معبود ہے ،جیسا کہ خود اس نے اپنی توصیف فر مائی ہے 1
یہ سب اس کی ذات کی یکتائی کے دلا ئل ہیں ۔باقی رہا اس کی ذات پاک میں ہر قسم کی تر کیب و اجزاء کے نہ ہونے کی دلیل تو وہ روشن و واضح ہے کیو نکہ اگر اس کے لیے اجزائے خارجیہ ہوں تو طبعاََ وہ ان کا محتاج ہوگا ،او ر واجب الوجود کے لیے محتاج ہونا معقو ل نہیں ہے ۔اور اگر ”اجزائے عقیلہ “(ما ہیت و وجود یا جنس و فصل کی تر کیبب)مراد ہو ،تو وہ بھی محال ہے ،کیونکہ ماہیت و وجود سے تر کیب اس کے محدود ہو نے کی فرع ہے ۔حالا نکہ ہم جانتے ہیں کہ اس کا وجود غیر محدود ہے ،اور جنس و فصل کی تر کیب ما ہیت رکھنے کی فرع ہے ،لیکن وہ ذات جس کی کوئی ماہیت نہیں ہے ،اس کی جنس و فصل بھی نہیں ہے ۔
توحید کی اقسام
عام طور پر تو حید کی چار اقسام بیان کی جاتی ہیں :
۱۔ توحید ذات : (جس کی اوپر تشریح کی گئی ہے )
۲۔ تو حید صفات :یعنی اس کی صفا ت اس کی ذات سے الگ نہیں ہے اور ایک دوسرے سے بھی جدا نہیں ہے،مثلاََہمارا”علم “و ”قدرت “دو الگ الگ صفات ہیں جو ہماری ذات پر عارض ہیں،ہماری ذات ایک الگ چیز ہے اور ہمارا علم و قدرت دوسری چیزیں ہیں جیسا کہ ”علم “و ”قدرت “بھی ہم میں ایک دوسرے سے جدا ہے ۔ہمارے علم کا مر کزہماری روح ہے ،جب کہ ہماری قدرت جسمانی کا مرکز ہمارے بازو اور عضلات ہیں لیکن خدا میں نہ اس کی صفات اس کی ذات پر زائد ہیں اور نہ ہی وہ ایک دوسرے سے جدا ہیں بلکہ وہ ایک ایسا وجود ہے جو سارا کا سارا علم ہے ،سارا کا سارا قدرت ہے اور سب کاسب ازلیت و ابد یت ہے ۔
اگر اس کے علاوہ صورت ہو تو اس کا لازمہ تر کیب ہے اور اگروہ مرکب ہوگا تو اجزاء کا محتاج ہوگا ،اور محتاج چیز ہر گز واجب الوجود نہیں ہوتی ۔
۳۔ تو حید افعالی :یعنی ہر وجود ،ہرحرکت ،اور ہر حرکت جو دنیا میں ہو رہی ہے اس کی باز گشت خدا کی پاک ذات کی طرف ہے ،وہی مسبب الا سباب ہے اور اس کی پاک ذات ہی علت العلل ہے ،یہاں تک کہ وہ افعال بھی جو ہم سے سر زد ہو تے ہیں ایک معنی میں اسی کے افعال ہیں ،چو نکہ اسی نے ہمیں قدرت و اختیار اور ارادہ کی آزادی فر مائی ہے ۔اس بناء پر ہم اپنے افعال کے فاعل اور ان کے مقابلہ میں مسئول و جواب دہ ہونے کے باوجود ایک لحاظ سے فاعل خدا ہی ہے ،کیو نکہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اسی کی طرف سے ہے ۔(لا مو ثر فی الوجود الااللہ )(عالم وجود میں خدا کے سوا کوئی مو ثر نہیں ہے )۔
۴۔توحید در عبادت :یعنی صرف اس کی عبادت کر نا چا ہیئے اور اس کا غیر لا ئق عبا دت نہیں ہے ، کیو نکہ عبا دت ایسی ذات کی ہونا چا ہیئے جو کمال مطلق اور مطلق کمال ہے ،جو سب سے بے نیاز اور تمام نعمتوں کا بخشنے والا ،اور تمام موجودات کا پیدا کرنے ولا ہے ، اور یہ صفات اس کی پاک ذات کے سوا کسی میں جمع نہیں ہو سکتیں ۔عبا دت کا اصلی مقصد اس کمال مطلق اور بے پایاں ہستی کا قرب حاصل کر نا اور اس کی صفات جمال و کمال کو اپنی روح کے اندر منعکس کرنا ہے ،جس کا نتیجہ ہو او ہوس سے دوری اور تہذیب نفس اور خود سازی کی طرف رخ کرنا ہے ۔
یہ ہدف اور مقصد ”اللہ “کی عبادت کے بغیر ،جو وہی کمال مطلق ہے، امکان پذ یر نہیں ہے ۔


 

1۔”نہج البلاغة “وصیت امام مجتبٰی (حصہ خطوط و خط ۳۱)۔

۳ ۔توحید افعال کی اقسام لفظ ”احد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma