بت پرست کے ساتھ ہر گز مصالحت نہیں ہو سکتی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
۲۔ کیا بت پرست خدا کے منکر تھے؟ اس سورہ کی فضیلت

اس سورہ کی آیات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں: ” کہہ دو اے کافرو! (قل یا ایھا الکافرون )
”تم جن کی پرستش کرتے ہو میں ان کی پرستش نہیں کرتا “۔ ( لااعبد لا تعبدون)
” اور نہ ہی تم اس کی پرستش کروگے جس کی میں پرستش کرتا ہوں “۔( ولا انتم عابدون مااعبد)
اس طرح اپنی مکمل علیٰحدگی کو مشخص کرتا ہے اور صراحت کے ساتھ کہتا ہے ، ” میں ہر گز کبھی بت پرستی نہیں کروں گا “
اور تم بھی اپنی اس ہٹ دھرمی اور اپنے بڑوں کی اندھی تقلید کے باعث، جس پر تمھیں اصرار ہے ، اور بت پرستوں کی طرف سے جو بکثرت نا جائز منافع تمہیں حاصل ہوتے ہیں اس وجہ سے ہر گز شرک سے خالص خدا پر ستی کی طرف نہیں آسکتے
بت پرستوں کو توحید وبت پرستی میں کس قسم کی مصالحت سے مکمل طور پر مایوس کر نے کے لئے دوبارہ مزید فرماتا ہے: اور نہ ہی میں ہرگز انکی پرستش کروگا جن کی تم پرستش کرتے ہو“( ولا انا عابد ما عبدتم)” نہ ہی تم اس کی پرستش کرو گے جس کی میں عبادت کر تا ہوں “( ولا انتم عا بدون مااعبد) اس بناء ہربت پرستی کے مسئلہ پر بے جا مصالحت کے لئے اصرار نہ کرو، کیو نکہ کہ یہ بات غیر ممکن ہے” اب جب کہ معاملہ اس طرح ہے تو تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے“ ( لکم دینکم ولی دین)
” بہت سے مفسرین نے یہ تصریح کی ہے کہ یہا ں” کا فرون“ سے مراد مکّہ کے بت پرستوں کے سر غنوں کا ایک خاص گروہ ہے، اس بنا پر ” الکافرون“ پر” الف و لام“ اصطلاح کے مطابق”عہد کا ہے”جمع“ کا نہیں ہے
ممکن ہے کہ اس مطلب پر ان کی دلیل۔ اس چیز کے علاوہ جو شان نزول میں کی جا چکی ہے۔یہ ہو کہ مکہ کے بت پر ستوں میں سے بہت سے آخرکار ایمان لے آئے تھے۔ اس بنا ء پر اگر وہ یہ کہتاہے کہ،” نہ تم میرے معبود کی عبادت کرو گے نہ ہی میں تمہارے معبودوں کی ، تو یقینی طور پر یہ شرک و کفر کے سر غنوں کے اس گروہ کے بارے میں ہے جو آخری عمر تک ہر گز ایمان نہیں لایا، ورنہ فتح مکہ کے مو قع پر بہت سے مشرکین فوج در فوج اسلام میں داخل ہو گئے تھےیہاں چند سوالات سامنے آتے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے
۱۔ یہ سورہ ”قل“ ( کہہ دے) کے ساتھ شروع کیوں ہوا؟
کیا یہ بہتر نہیں تھاکہ”قل“ اس کے آغاز میں لائے بغیر” یا ایھاالکافرون“ کہا جا تا؟
دوسرے لفظوں میں پیغمبر کو خدا کے حکم کا اجراء کرنا چا ہیے تھا اور انہیں” یا ایھا الکا فرون“ کہنا چا ہیئے تھا، نہ کہ جملہ” قل “کا بھی تکرار کریں
اس سوال کا جواب سورہ کے مضمون کی طرف تو جہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کیو نکہ مشرکین عرب نے پیغمبر کو بتو ں کے سلسلے میں مصالحت کرنے کی دعوت دی تھی،لہٰذا آپ کے لئے اپنی طرف سے اس مطلب کی نفی کر نا ضروری تھا اور یہ کہنا چاہییے تھا کہ میں ہر گز تمھاری بات نہیں ما نو ںگا اور اپنی عبا دت کو شرک سے آلو دہ نہیں کرو ںگا۔ اگر اس سورہ کے آغاز میں لفظ”قل “ نہ ہوتا تو یہ با ت خدا کی بات ہو جاتی اور اس صورت میں” لا اعبد ماتعبدون“( تم جن کی عبا دت کرتے ہو میںان کی عبادت نہیں کرو ں گا) کا جملہ اور اسی قسم کے دوسرے جملوں کا کوئی مفہوم نہ ہوتا
اس کے علاوہ چونکہ جبرئیل کے پیام میں لفظ”قل“خدا کی ظرف سے تھا ،لہٰذا پیغمبر کی ذمہ داری یہ کہ قرآن کی اصا لت کی حفا ظت کے لیے اسے بعینہ بیان کریں اور خود یہی چیز اس بات کی نشانی وہی کرتی ہے کہ” جبرئیل“ اور اس رسو ل اکرم نے وحی الٰہی کے نقل کرنے میں معمو لی سی بھی تبدیلی نہیںکی اور انہوں نے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایسے مامور ہیں جو فقط فرما ن الٰہی پر ہی کان دھرتے ہیں جیسا کہ سورہ یو نس کی آیت ۱۵ میں آیا ہے:قل ما یکون لی ان ابّد لہ من تلقائی نفسی ان اتبع االّا ما یو حٰی الّی: کہ دیجئے مجھے اس بات کا کوئی حق نہیں ہے کہ قرآن کو اپنی طرف سے بد ل دوں، میں تو صرف اس بات کی پیروی کرتا ہوں جس کی مجھ پر وحی ہوتی ہے
 

۲۔ کیا بت پرست خدا کے منکر تھے؟ اس سورہ کی فضیلت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma