ہرعمل کی قدر و قیمت اس کے سبب کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے ، یا دوسرے لفظوں میں اسلام کی نگاہ میں ہر عمل کی بنیاد اس کی ” نیت“ پر ہوتی ہے، وہ بھی ” خالص نیت“
اسلام ہر چیز سے پہلے نیت کے بارے میں تحقیق کرتا ہے ، لہٰذا ایک مشہور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا ہے
” انما الاعمال بالنیات و لکل امرء مانوی“
” ہر عمل نیت کے ساتھ وابستہ ہے او ر ہر شخص کا عمل میں حصہ ، اس کی اس نیت کے مطابق ہوگا، جو وہ عمل میں رکھتا تھا “۔
اور اسی حدیث کے ذیل میں آیا ہے :
” جو شخص خد اکے لیے جہاد کرے اس کا اجر خدائے بزرگ و بر تر ہے ۔ اور جو شخص مالِ دنیا کے لیے جنگ کرے، یہاں تک کہ ایک عقال وہ چھوٹی سی رسّی جس سے اونٹ کے پاوٴں کو باندھتے ہیں ) لینے کے لیے کرے اس کا حصہ بس وہی ہے ۔ ۱
یہ سب اس بناء پر ہے کہ ” نیت سے ہی عمل وجود میں آتا ہے ۔ وہ شخص جو خدا کے لیے کوئی کام انجام دیتا ہے ، تو وہ اس کی بنیاد کومحکم کرتا ہے ، اور اس کی تمام کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں ۔ لیکن جو شخص تظاہر اور ریا کاری کے لیے کسی عمل کو انجام دیتا ہے وہ صرف ا س کے ظاہر اور زرق و برق پرنظر رکھتا ہے ، اور وہ اس کی گہرائی و بنیاد اورحاجت مندوں کے استفادے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔
وہ معاشرہ جو ریا کاری کا عادی ہو جاتا ہے وہ نہ صرف خدا ، اخلاق حسنہ اور ملکاتِ فاضلہ سے دور کردیا جاتا ہے ، بلکہ اس کے تمام اجتماعی پروگرام مفہوم و مطلب سے خالی ہو جاتے ہیں ، اور وہ مٹھی بھرے معنی ظواہر کا خالص رہ جاتے ہیں ، اور ایسے انسان اور اس قسم کے معاشرے کی سر نوشت کتنی دردناک ہے ؟ ! ۔
” ریا “ کی مذمت میں بہت زیادہ روایات آئی ہیں ، یہاں تک کہ اس کو شرک کی ایک نوع کہا گیا ہے ، اور ہم یہاں تین ہلادینے والی روایات پر قناعت کرتے ہیں ۔
۱۔ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے :
”سیاٴ تی علی الناس زمان تخبث فیہ سرائر ھم ۔ ونحن فیہ علانیتھم، طمعاً فی الدنیا لایدون بہ ما عند ربھم، یکون دینھم ریاء لایخالطھم خوف، یعمعھم اللہ بعقاب فید عونہ دعا ء الغریق فلا یستحب لھم! :
” لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب ان کے باطن قبیح ، گندے اور آلودہ ہوجائیں ، اور ان کے ظاہر زیبا اور خوبصورت ہوں گے۔ دنیا میں طمع کی خاطر وہ اس سے اپنے پروردگار کی جزاوٴں کے طلب گار نہیں ہوں گے ۔ ان کا دین ریا ہو جائے گا، خوف خدا ان کے دل میں باقی نہ رہے گا، خد اان سب کو ایک سخت عذاب میں گرفتار کرے گا ، اور وہ جتنا بھی ایک ڈوبنے والے کی طرح خدا کو پکاریں گے ، ہر گز ان کی دعا قبول نہ ہوگی“۔ ۲
۲۔ ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ نے اپنے ایک صحابی” زرارہ“ سے فرمایا :
” من عمل للناس کان ثوابہ علی الناس یا زرارہ ! کل ریاء شرک!“۔
” جو شخص لوگوں کے لیے عمل کرے گا اس کا اجر و ثواب لوگوں پر ہی ہو گا۔ اے زرارہ ! ہر ریا شرک ہے ۔ 3
۳۔ ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے آیاہے :” ان المرائی یدعی یوم القیامة باربعة اسماء:
یا کافر ! یا فاجر ! غادر ! یا خاسر ! حبط عملک ، و بطل اجرک، فلا خلاص لک الیوم ، فالتمس اجرک ممن کنت تعمل لہ !:
” ریا کار شخص کو قیامت کے دن چار ناموں سے پکارا جائے گا:
اے کافر! اے فاجر ! اے حیلہ گر ! اے خاسر و زیاں کار ! تیرا عمل نابود ہو گیا ہے ، تیرا اجر و ثواب باطل ہوچکا ہے۔ آج تیرے لیے نجات کی کوئی راہ نہیں ہے ، لہٰذا تو اپنا اجر و ثواب اس سے طلب کر جس کے لیے تو عمل کرتا تھا۔ 4
خد اوندا ! خلوص نیت سخت مشکل کام ہے ، تو خود اس راہ میں ہماری مدد فرما۔
پروردگارا ! ہمیں ایسا ایمان مرحمت فر ما کہ ہم تیرے ثواب و عقاب کے علاوہ اور کچھ نہ سوچیں، او رمخلوق کی رضا و خشنودی اور غصہ و غضب تیری راہ میں ہمارے لیے یکساں ہو۔
بار لہٰا ! اس راہ میں جو خطا اور غلطی اب تک ہم نے کی ہے وہ ہمیں بخش دے ۔
آمین یا رب العالمین ۔
۱۔وسائل الشیعہ“ جلد اول ص ۳۵ ( ابواب مقدمہٴ العبادات باب ۵ حدیث ۱۰)۔
۲۔ ” اصول کافی “ جلد ۲ باب الریاء حدیث ۱۴۔
3۔ ” وسائل الشیعہ “ جلد اول ص ۴۹ ( حدیث ۱۱ کے ذیل میں )۔
4۔ ” وسائل الشیعہ “ جلد اول ص ۵۱ ( حدیث ۱۶ کے ذیل میں )۔