اصحاب فیل کی داستان

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
تفسیرابرھہ سے کہہ دو کہ وہ آنے میں جلدی نہ کرے اور اس کی فضیلت

مفسرین اور مور خین نے اس داستان کو مختلف صورتوں میں نقل کیا ہے ،اور اس کے وقوع کے سال میں بھی اختلاف ہے لیکن اصل داستان ایسی مشہور ہے کہ یہ اخبار متواترمیں شمار ہوتی ہے ،اور ہم اسے مشہور روایات کے مطابق ”سیرةابن ھشام “و ”بلوغ الارب “و”بحا رالانوار “و”مجمع البیان “سے خلاصہ کر کے نقل کرتے ہیں ۔
یمن کے باد شاہ ”ذونواس “نے نجرا ن کے عیسائیوں کوجو اس سر زمین کے نزدیک بستے تھے ،اس لیے بہت تنگ کر رکھا تھا کہ وہ اپنا دین مسیحیت چھوڑ دیں۔قرآن اس واقعہ کو سورئہ ”بروج “میں اصحاب الاخدودکے عنوان سے بیان کیا ہے ۔او ر ہم نے اسے اسی سورہ کی تفسیر میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔اس عظیم جُرم کے بعد ”دوس “نامی ایک شخص ان میں سے اپنی جان بچاکر نکل گیا اور وہ قیصرروم کے پاس ،جو دین مسیحیت پر تھا ،جا پہنچا ،اور اس کے سامنے یہ سارا ماجرا بیان کیا ۔
چو نکہ ”روم “اور ”یمن “کے درمیان فا صلہ زیادہ تھا لہٰذا اس نے حبشہ کے بادشاہ ”نجاشی کو خط لکھاکہ وہ ”ذو نواس “سے نصارائے نجران کا انتقام لے ،اور اس خط کو اسی شخص کے ہاتھ ”نجاشی “کے پاس روانہ کیا ۔
”نجاشی “نے ایک بہت بڑا لشکر جو ستر ہزار افراد سے زیادہ پر مشتمل تھا”اریاط “نامی شخص کی کمان میں یمن کی طرف روانہ کیا ۔”ابرھہ“بھی اس لشکر کے ا فسروں میں سے ایک تھا ۔
”ذونواس“کو شکست ہوئی،اور ”اریاط “یمن کا حکمران ہو گیا ۔کچھ مدت کے بعد ”ابرھہ “نے اریاط کے خلاف بغاوت کردی اور ا س کا خاتمہ کرنے کے بعد اس کی جگہ پر بیٹھ گیا ۔
اس واقعہ کی نجاشی کو خبر پہنچی تو اس نے ”ابرھہ “کی سر کوبی کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا ابرھہ نے اپنی نجات کے لیے اپنے سر کے بال منڈواکر یمن کی کچھ مٹی کے ساتھ مکمل تسلیم کے طور پر نجاشی کے پاس بھیج دیے ، اور وفا داری کا اعلان کیا۔ نجاشی نے جب یہ دیکھا توابرھہ کو معاف کردیا ، اوراسے اس کے منصب پر بر قرار رکھا۔
اس موقع پر ” ابرھہ“ نے اپنے حسن خدمت کو ثابت کرنے کے لیے ایک اہم اور بہت ہی خوبصورت گرجا گھر تعمیر کرایا ، جس کی اس زمانہ میں کرہٴٴ زمین پر کوئی مثل و نظیر نہ تھی۔ اور اس کے بعد جزیرہ عرب کے لوگو ں کو خانہ کعبہ کی بجائے اس گرجے کی طرف دعوت دینے کا مصمم ارادہ کرلیا ، اور یہ پختہ ارادہ کرلیا کہ اس جگہ کو عرب کے حج کامرکز بنا کے مکہ کی اہم مرکزیت کو وہاں منتقل کردے۔
اس مقصد کے لیے اس نے ہر طرف عرب کے قبائل اور سرزمین ِ حجاز میں بہت سے مبلغ بھیجے۔ عربوں نے ، جو مکہ اور کعبہ کے ساتھ شدیدلگاوٴ رکھتے تھے اور اسے ابراہیم خلیل کے آثار میں سے جانتے تھے ، اس سے خطرہ محسوس کیا۔
بعض روایات کے مطابق ایک گروہ نے وہاں جاکر مخفی طور پر اس گرجے کو آپ لگادی ، اور روایت کے مطابق بعض نے اسے مخفی طور پر گندہ اور ملوث کردیا ۔ اور اس طرح سے انہوں نے اس عظیم دعوت کے مقابلہ میں شدید ردِّ عمل کا مظاہرہ کیا ، اور ” ابرھہ“ کے عبادت خانے کو بے اعتبار اور حقیر بنادیا ۔
ظاہرہے اس پر ” ابرھہ“ کو بہت غصہ آیا اور اس نے خانہ کعبہ کو کلی طور ویران کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا ۔ اس کا خیال تھااس طرح وہ انتقام بھی لے لے گااور عربوں کو نئے معبد کی طرف متوجہ بھی کردے گا۔ چنانچہ وہ ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ، جن میں سے کچھ لوگ ہاتھیوں پر سوار تھے، مکہ کی طرف روانہ ہوا۔
جب وہ مکہ کے قریب پہنچا تو اس نے کچھ لوگوں کو مکہ والوں کو اونٹ اور دوسرے اموال لوٹنے کے لیے بھیجا۔ ان میں سے دو سو اونٹ “ عبدالمطلب “ کے بھی لُوٹ لیے گئے۔
” ابرھہ“ نے کسی آدمی کو مکہ کے اندر بھیجا اور اس سے کہا کہ رئیسِ مکہ کو تلاش کرکے اس سے کہنا کہ ” ابرھہ“ یمن کا بادشاہ کہتا ہے کہ : میں جنگ کرنے کے لیے نہیںآیا، میں تو صرف اس لیے آیا ہوں کہ اس خانہ کعبہ کو ویران کردوں اگر تم جنگ نہ کرو تو مجھے تمہارا خون بہانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
” ابرھہ “ کا قاصد مکہ میں داخل ہوا اور رئیس و شریف مکہ کے بارے میں دریافت کیا۔ سب نے ” عبد المطلب“ کی طرف راہنمائی کی ۔ اس نے ” عبد المطلب“ کے سامنے ماجرا بیان کیا۔ ” عبد المطلب“ نے بھی یہی جواب دیا کہ ہم میں تم سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں ہے ،رہا خانہ کعبہ تو خدا خود اس کی حفاظت کرے گا ۔
” ابرھہ“ کے قاصد نے عبد المطلب سے کہا کہ تمہیں میرے ساتھ اس کے پاس چلنا پڑے گا ۔ جب عبد المطلب ا س کے دربار میں داخل ہوئے تووہ آپ کے بلند قد حسین چہرے اور حد سے زیادہ رعب اور دبدبہ کو دیکھ کر سخت متاثر ہوا، یہاں تک کہ ”ابرھہ“ ان کے احترام میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور زمین پر بیٹھ گیا اور ” عبد المطلب“ کو اپنے پہلو میں بٹھالیا، کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ انہیں اپنے ساتھ تخت پر بٹھائے۔ اس کے بعد اس نے اپنے مترجم سے کہا کہ ان سے پوچھ کہ ان کی کیاحاجت ہے ؟
آپ نے مترجم سے کہا : میری حاجت یہ ہے کہ میرے دوسو اونٹ تیرے لشکری لُوٹ کر لے گئے ہیں ، تو انہیں حکم دیں کہ وہ میرا مال واپس کردیں ۔
” ابرھہ“ کو ان کے اس مطالبہ پر سخت تعجب ہوا اور اس نے اپنے متجم سے کہا : ان سے کہو: جب میں نے تمہیں دیکھا ، تو میرے دل میں تمہاری بہت زیادہ عظمت پید اہوئی تھی، لیکن تم نے یہ کہی تو میری نظر میں تمہاری توقیر گھٹ گئی۔
تم اپنے دو سو اونٹوں کے بارے میں تو بات کرتے ہولیکن ” کعبہ“ کے بارے میں جو تمہارا اور تمہارے آباوٴ اجداد کا دین ہے ، اور میں اسے ویران کرنے کے لیے آیاہوں ، بالکل کوئی بات نہیں کرتے ۔
” عبد المطلب “ نے کہا : ” انا رب الابل ، و ان للبیت ربا سیمنعہ“ ! ” میں اونٹوں کا مالک ہوں ، اور اس گھر کا بھی ایک مالک ہے ، وہ اس کی حفاظت خود کرے گا“۔
(اس بات نے ابرھہ کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ سوچ میں پڑ گیا)۔
” عبد المطلب“ مکہ کی طرف آئے ، اور لوگوں کو اطلاع دی کہ وہ پہاڑیوں میں پناہ گزیں ہو جائیں اور آپ خود ایک گروہ کے ساتھ خانہ کعبہ کے پاس آئے تاکہ دعا کریں اور مدد طلب کریں ۔ آپ نے خانہ کعبہ کے دروازے کی زنجیر میں ہاتھ ڈال کر اپنے یہ مشہور اشعار پڑھے: لاھم ان المرء یمنع رحلہ فامنع رحالک لایغلبن صلیبھم و محالھم ابداً محالک
جروا جمیع بلادھم و الفیل کی یسبوا عیالک لاھم ان المرء یمنع رحلہ فامنع عیالک
والنصر علی اٰل الصلیب و عابد یہ الیوم اٰلک ۔ ۱
” خدا یا ہر شخص اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے تواپنے گھر کی حفاظت فرما“۔
”ایسا کبھی نہ ہو کہ کسی کی تمام توانائیاں اور ہاتھی ساتھ لے کر آئے ہیں تاکہ تیرے حرم کے ساکنوں قیدی بنالیں “۔
” خدا یا ہر شخص اپنے گھر والوں کا دفاع کرتا ہے تو بھی اپنے حرمِ امن کے رہنے والوں کا دفاع کر“
”اور آج اس حرم کے رہنے والوں کی آلِ صلیب اور اس کی عبادت کرنے والوں کے برخلاف مدد فرما“۔
اس کے بعد عبد المطلب اطراف مکہ کے ایک درّہ کی طرف آئے، قریش کی ایک جماعت کے ساتھ وہاں پناہ لی اور اپنے ایک بیٹے کو حکم دیا کہ وہ کوہ ابوقبیس کے اوپر جا کر دیکھے کہ کیا ہورہا ہے۔
آپ کا بیٹا بڑی تیزی کے ساتھ آپ کے پاس آیا اور کہا : بابا جان ! سمندر( دریائے احمر) کی طرف سے ایک سیاہ بادل آتا ہوا نظر آرہا ہے۔ عبد المطلب خوش ہو گئے اور پکار کر کہا :
یامعشر قریش ! ادخلوا منازلکم فقد اٰتاکم اللہ بالنصر من عندہ
” اے جمیعت قریش اپنے گھروں کی طرف پلٹ جاوٴکیونکہ خدا کی نصرت تمہاری مدد کے لیے آرہی ہے ۔ یہ تو اس طرف کی بات تھی“۔
دوسری طرف سے ابرھہ اپنے مشہور ہاتھی پر سوار جس کانام” محمود“ تھا اپنے کثیر لشکر کے ساتھ کعبہ کو تباہ کرنے کے لیے اطراف کے پہاڑوں سے مکہ کی طرف اترا ، لیکن وہ اپنے ہاتھی پر جتنا دباوٴ ڈالتا تھا وہ آگے نہ بڑھتا تھا ، لیکن جب وہ اس کا رخ یمن کی طرف کرتا تھا تو وہ فوراًچل پڑھتا تھا ۔ ابرھہ اس واقعہ سے سخت متعجب ہوا اور حیرت میں ڈوب گیا ۔
اسی اثناء میں سمندر کی طرف سے غول کے غول اور جھنڈ کے جھنڈ پرندوں کے، آن پہنچے، جن میں سے ہر ایک کے پاس تین تین کنکریاں تھیں ، ایک ایک چونچ میں اور دو دو پنجو ں میں ، جو تقریباً چنے کے دانے کے برابر تھیں، انہوں نے یہ کنکر یاںابر ھہ کے لشکر پر برسانی شروع کردیں۔ یہ کنکر یاں جس کسی کو لگتیں وہ ہلاک ہو جاتا۔ اور بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ کنکر یاں ان کے بدن پر جہاں بھی لگتیں سوراخ کردیتی تھیں ، اور دوسری طرف نکل جاتی تھیں ۔
اس وقت ابرھہ کے لشکر پر ایک عجیب و غریب وحشت طاری ہوگئی ۔ جو زندہ بچے وہ بھاگ کھڑے ہوئے ، اور واپسی کے لیے یمن کی راہ پوچھتے تھے ، لیکن مسلسل خزاں کے پتوں کی طرح سڑک کے بیچوں بیچ گر جاتے تھے ۔
ایک پتھر خود” ابرھہ“ کے آکر لگا اور وہ زخمی ہوگیا ۔ اس کو صعنا( یمن کے پائے تخت) کی طرف واپس لے گئے اوروہاں جاکر ہلاک ہو گیا ۔
بعض نے کہا ہے کہ چیچک کی بیماری پہلی مرتبہ عرب میں اسی سال پھیلی تھی۔
ہاتھیوں کی تعداد جو ابرھہ اپنے ساتھ لے گیا تھا، بعض نے وہی ” محمود“ ہاتھی، بعض نے آٹھ، بعض نے دس اور بعض نے بارہ لکھی ہے
مشہور قول کے مطابق پیغمبر اکرم  نے ولادت اسی سال ہوئی اور عالم آپ کے نور کے وجود سے منور ہوگیا ۔ لہٰذا بہت سے لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ان دونوں واقعات کے درمیان ایک رابطہ موجود تھا۔
بہرحال اس عظیم حادثہ کی اس قدر اہمیت تھی کہ اس سال کا نام عال الفیل ( ہاتھی کا سال ) رکھاگیا اور یہ عربوں کا تاریخ کا مبداء قرار پایا ۔ 2


 
۱.۔مورخین ومفسرین نے اوپر والے اشعار کو مختلف طور پر نقل کیا ہے جو کچھ نقل کیا گیا ہے وہ مختلف نقلوں کا مرکب خلاصہ ہے ۔
2۔” سیرة ابن ہشام “ جلد ۱ ص ۳۸ تا ۶۲ ” بلوغ الارب“۔ جلد ۱ ص ۲۵۰ تا ۲۶۳ ” بحار الانوار“ جلد ۱۵ ص ۱۳۰ سے آگے ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۵۴۲۔
تفسیرابرھہ سے کہہ دو کہ وہ آنے میں جلدی نہ کرے اور اس کی فضیلت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma