چھبنے والا حادثہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
میزان اعمال کی سنگینی کے اسباباس سورہ کی فضیلت

ان آیات میں ، جو قیامت کا تعارف کراتی ہیں ، پہلے ارشاد ہوتا ہے : ” وہ چبھنے والا حادثہ“ ( القارعة
اور وہ کیسا چبھنے والا حادثہ ہے “۔ ( ما القارعة
” اور تو کیا جانے کہ وہ چبھنے والا حادثہ کیاہے ؟ ( وما ادراک ما القاعة
” قارعة“ ” قرع“ ( بروزن فرع) کے مادہ سے ، کسی چیز کو کسی دوسری چیز پر اس طرح رگڑ نے کے معنی میں سے کہ اس سے سخت آواز پیدا ہو، تازیانہ اور ہتھوڑے کو بھی اسی مناسبت سے ” مقرعہ“ کہتے ہیں ، بلکہ ہر اہم سخت حادثہ کو ” قارعة“ کہا جاتا ہے ۔ ( یہاں تاء تانیث کا تاء ممکن ہے تاکید کی طرف اشارہ ہو۔
ان تعبیروں سے جو دوسری اور تیسری آیات میں آئی ہیں ، جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک سے یہ فرمایا ہے کہ تو کیا جانے یہ سخت اور سر کوبی کرنے والا حادثہ کیا ہے : واضح ہو جاتا ہے کہ یہ چبھنے والا حادثہ اس قدر عظیم ہے کہ اس کے ابعاد اور مختلف جہات ہر شخص کے ذہن میں نہیں آسکتے ۔
بہر حال بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ ” قارعة“ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے ، لیکن انہوں نے ٹھیک طور سے یہ واضح نہیں کیا کہ کیا یہ تعبیر قیامت کے مقدمات کی طرف اشارہ ہے جس میں عالم ِ دنیا درہم بر ہم ہو جائے گا، آفتاب و ماہتاب تاریک ہو جائیں گے، سمندروں میں آگ لگ جائے گی ، اگر اس طرح ہو تو پھر اس حادثہ کے لیے ” قارعة“ کے نام کے انتخاب کی وجہ واضح ہے ۔
دوم اس سے دوسرا مرحلہ مراد ہو، یعنی مردوں کے زندہ ہونے اور عالم ہستی میں ایک نئی طرح ڈالنے کا مرحلہ ، اور ٹکرانے اور چھبنے کی تعبیر اس بناء پر ہے کہ اس دن وحشت وخوف اور ڈردلوں سے ٹکرائیں گے ان کی سر کوبی کریں گے۔
وہ آیات جو اس کے بعد آئیں ہیں ، ان میں سے بعض تو جہان کے خراب و برباد ہونے کے حادثہ سے مناسبت رکھتی ہیں اور بعض مردوں کے زندہ ہونے کے ساتھ ، لیکن مجموعی طور سے یہ پہلا احتمال زیادہ مناسب نظر آتا ہے ، اگر چہ ان آیات میں دونوں حادثے یکے بعد دیگرے ذکر ہوئے ہیں ( قرآن کی اور بہت سی دوسری آیات کے مانند جو قیامت کی خبر دیتی ہیں )۔
اس کے بعد اس عجیب و غریب دن کے تعار ف میں کہتا ہے :” وہی دن جس میں لو گ پراگندہ، حیران و پریشان ، پروانوں کی طرح ہر طرف جائیں گے “۔ ( یوم یکون الناس کالفراش المبثوث
” فراش“ ” فراشة“کی جمع ہے ، بہت سے اسے” پروانہ“ کے معنی میں سمجھتے ہیں ، بعض نے اس کی ” ٹڈی دل“ کے معنی میں تفسیر کی ہے ، او رظاہراً یہ معنی سورہٴ قمر کی آیہ ۷ سے لیا ہے جو لوگوں کو اس دن پراگندہ ٹڈی دل سے تشبیہ دیتی ہے ،( کانھم جراد منتشر) ورنہ اس کے لغوی معنی ” پروانہ“ ہی ہیں ۔
بہر حال ” پروانہ“ کے ساتھ تشبیہ اس لیے ہے کہ پروانے اپنے آ پ کو دیوانہ وار آگ پر پھینک دیتے ہیں ۔ بد کار لوگ بھی اپنے آپ کو جہنم کی آگ میں ڈالیں گے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ پروانہ کے ساتھ تشبیہ ایک خاص قسم کی حیرت و سر گردانی کی طرف اشارہ ہے ، جو اس دن تمام انسانوں پر غالب ہوگی۔
اور اگر” فراش“ ٹڈی دل کے معنی میں ہوتو پھر مذکورہ تشبیہ اس لیے ہے کہ کہتے ہیں بہت سے پرندے اڑتے وقت ایک معین راستہ میں اکھٹے پرواز کرتے ہیں ، سوائے ٹڈی دل کے ، جو گروہ کی صورت میں اڑتے ہوئے بھی کوئی مشخص راستہ نہیں رکھتے، بلکہ ان میں سے ہر ایک کسی دوسری ہی طرف اڑرہا ہوتا ہے ۔
پھر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حیرت و پراگندگی و سر گردانی اور وحشت و اضطراب جہاں کے خاتمہ کے ہولناک حوادث کی وجہ سے ہو گا ، یا قیامت اور حشر و نشر کے آغاز کی وجہ سے ۔
اس سوال کا جواب ہمارے اسی بیان سے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے واضح ہوجاتا ہے ۔
اس کے بعد اس دن کی ایک خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے مزید کہتا ہے:” اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کے مانند ہو جائیں گے“۔ ( تکون الجبال کالعھن المنفوش
” عھن“ (بر وزن ذہن ) رنگی ہوئی اون کے معنی میں ہے ۔
اور ” منفوش“ ” نفش “ ( بر وزن نقش) کے مادہ سے اون کو پھیلانے کے معنی میں ہے جو عام طور پردھنکنے کے مخصوص آلات کے ذریعے اون کو دھنکنے سے انجام پاتی ہے ۔
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ قرآن کی مختلف آیات کے مطابق قربِ قیامت میں پہاڑ پہلے تو چلنے لگیں گے ، پھر ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراکر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور انجام کار غبار کی صورت میں فضا میں اڑنے لگیں گے ۔ زیر بحث آیت میں ان کو رنگین اور دھنکی ہوئی اون سے تشبیہ دی گئی ہے ، ایسی اون جو تیز آندھی کے ساتھ چلے اور ا س کا مصرف رنگ ہی رنگ نمایاں ہو، اور یہ پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہو کر بکھر نے کا آخری مرحلہ ہو گا۔
ممکن ہے یہ تعبیر پہاڑوں کے مختلف رنگوں کی طرف اشارہ ہو کیونکہ روئے زمین کے پہاڑوں میں سے ہر ایک خاص رنگ رکھتا ہے ۔
بہر حال یہ جملہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اوپر والی آیات قیامت کے پہلے مرحلوں ، یعنی اس جہان کی ویرانی اور اختتام مرحلہ کی ہی بات کرتی ہیں ۔
اس کے بعد حشر ونشر، مردوں کے زندہ ہونے اور ان کی دو گرہوں میں تقسیم کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” پس جس شخص کا ترازوئے عمل وزنی ہوگا “ ( فاما من ثقلت موازینہ
” وہ ایک عمدہ او رپسندیدہ زندگی میں ہو گا“۔ ( فھو فی عشیة راضیة
” لیکن جس شخص کا ترازوئے اعمال ہلکا ہو گ ( و امامَم خفت موازینہ
” تو اس کی پناہ گاہ جہنم ہے “۔ ( فامہ ہاویة
اور تو کیا جانے ھاویہ ( دوزخ ) کیا ہے ؟ ( وما ادراک ماھیہ) ۔ ۱
”ایک جلانے والی آگ ہے “ ( نار ھامیة
”موازین“میزان کی جمع ہے جو تولنے کے ایک آلہ کے معنی میں ہے ۔ یہ لفظ پہلے تو مادی وزنوں میں استعمال ہوتا رہاہے ، اس کے بعد معنوی موازین اور مقاسیس کے لیے بھی استعمال ہو نے لگا۔
بعض کا نظر یہ ہے کہ اس دن انسان کے اعمال جسمانی اور قابل ِ وزن موجودات کی صورت اختیار کرلیں گے اور واقعی طور پر انہیں اعمال کے تولنے والے ترازووٴں کے ساتھ تولیں گے۔
یہ احتمال بھی دیا گیا ہے کہ خود نامہ اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ اگر اس میں کچھ اعمال صالح لکھے ہوئے ہیں تو وہ سنگین او ربھاری ہوگا ورنہ ہلکا بے وزن ہوگا۔
لیکن ظاہراً ان توجیہات کی ضرورت نہیں ہے ۔ میزان یقینی طور پر ترازوں کے معنی میں نہیں ہے ، جس میں مخصوص قسم کے پلڑے ہوتے ہیں ، بلکہ اس کا ہر قسم کے تولنے کے وسیلہ اور ذریعہ پر اطلاق ہوتا ہے ، جیساکہ ایک حدیث میں آیا ہے ۔
ان امیر المومنین و الاٴئمہ من ذریتہ(ع) ھم الموازین “۔
” امیر المومنین  اور وہ ائمہ جو آ پ کی ذریت میں ہیں ، وہی تولنے کے ترازوہیں “۔ 2
اس طرح اولیاءء خدا یا قوانینِ عدل الٰہی ہی وہ ترازو ہیں جن کے سامنے انسانوں اور ان کے اعمال کو پیش کیاجاتا ہے اور جس قدر وہ اس کے ساتھ مشابہت اور مطابقت رکھتے ہیں وہی ان کا وزن ہے ۔
یہ بات واضح ہے کہ میزان کے ” ہلکا“ اور ” بھاری“ ہونے سے مراد خود تولنے کے ترازووٴں کی سنگینی و سبکی نہیں ہے ، بلکہ ان چیزوں کا وزن ہے جن کو ان سے تولتے ہیں ۔
ضمنی طورپر” موازین“کی تعبیر جمع کی صورت میں اس بناء پر آئی ہے کہ اولیائے حق اور قوانینِ الٰہی میں سے ہرایک علیٰحدہ علیٰحدہ تولنے کی ایک میزان ہے ۔ اس سے قطع نظر انسان کی صفات اور اعمال کا تنوع اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر ایک کو ایک ترازو سے تولا جائے ، او ر تولنے کے نمونے اور ترازو مختلف ہوں ۔
”راغب“ ”مفردات “ میںکہتاہے : ” قرآن مجید میں میزان کبھی تو مفرد کی صورت میں آیا ہے اور کبھی جمع کی صورت میں ، پہلی صورت میں اس کے لیے آیاہے جو حساب کرتا ہے یعنی خدائے یکتا، اور دوسری صورت میں ان کے لیے ہے جن کا حساب ہوگا۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ موازین ” موزون“ کی جمع ہے ، یعنی وہ عمل جس کا وزن کرتے ہیں ۔ اس بناء پر موازین کا ہلکا یابھاری ہونا خود اعمال کے ہلکا اور بھاری ہونے کے معنی میں ہے ، نہ کہ تراز ووٴں کے ہلکا اور بھاری ہونے کے معنی میں ۔ 3
عیشة راضیة“ ( خوش وخرم زندگی) کی تعبیر بہت ہی عمدہ اور بلیغ تعبیر ہے ، جو قیامت ،میں اہل بہشت کی پر نعمت اور سراسر سکون و آرام کی زندگی کے لئے بیان ہوئی ہے یہ زندگی اتنی پسندیدہ اور رضایت بخش ہے گویا کہ وہ خود ہی راضی ہیں ، یعنی بجائے اس کے کہ ” مرضیة“ کہا جائے، زیادہ تاکید کے لیے” اسم مفعول“ کی بجائے ” اسم فاعل“ استعمال ہوا ہے ۔ 4
اور یہ عظیم امتیاز آخرت کی زندگی کے ساتھ ہی مخصوص ہے، کیونکہ دنیا کی زندگی چاہے جتنی بھی مرفہ، پر نعمت، امن و امان اور رضایت و خوشنودی کے ساتھ ہو، پھر بھی ناخوشی اور ناپسندید گی کے عوامل سے خالی نہیں ہوتی ۔ یہ صرف آخرت ہی کی زندگی ہے جو سراسر رضایت و خوشنودی، آرام اور امنیت و دل جمعی کا سبب ہے ۔
”فامہ ھاویہ“کے جملہ میں ”ام “ کی تعبیر اس بناء پر ہے کہ ”ام “ ماں کے معنی میں ہے ، اور ہم جانتے ہیں کہ ماں اولاد کے لیے ایک ایسی پناہ گاہ ہے جس کی طرف مشکلات میں پناہ لیتے ہیں اور اس کے پاس رہتے ہیں ، اور یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ہلکے وزن والے، گنہگار، دوزخ کے علاوہ اور کوئی جگہ پناہ لینے کے لیے نہ پائیںگے ، اس شخص کے حال پر وائے ہے جس کی پناہ گاہ دوزخ ہوگی۔
بعض نے یہ بھی کہاہے کہ یہاں ”ام “ کامعنی”مغز“ ( دماغ) ہے کیونکہ عرب سر کے مغز کو ” ام الراٴس“ کہتے ہیں ، تو اس بناء پر آیت کا معنی یہ ہوگا کہ انہیں سر کے بل جہنم میں پھینکیں گے، لیکن یہ احتمال بعید نظرآتاہے کیونکہ اس صورت میں بعد والی آیت ” وما ادراک ماھیہ“( تو کیا جانے کہ وہ کیا چیزہے ) کا مفہوم درست نہیں رہے گا۔
ھاویة“ ھوی“ کے مادہ سے گر نے اور سقوط کرنے کے معنی میں ہے ، اور وہ ”دوزخ“کے ناموں میں سے ایک نام ہے ، کیونکہ گنہگار اس میں گریں گے اور یہ جہنم کی آگ کے عمق اور گہرائی کی طرف بھی اشارہ ہے ۔
اور اگر ہم ”ام “ کو یہاں ” مغز“ کے معنی میں لیں ، تو ” ھاویة“ کا معنی گر نے والی ہوگا، لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح اور مناسب نظر آتی ہے ۔
حامیة“ ”حمی“ ( بروزن نفی)کے مادہ سے شدتِ حرارت کے معنی میں ہے ، اور ” حامیة“ یہاں جہنم کی آگ کی حد سے زیادہ حرارت او رجلانے کی طرف اشارہ ہے ۔
بہر حال یہ جملہ جو یہ کہتا ہے تو کیاجانے کہ ” ھاویة“ کیاہے ” ھاویة“ جلانے والی آگ ہے“۔ اس معنی پر ایک تاکید ہے کہ قیامت کا عذاب اور جہنم کی آگ تمام انسانوں کے تصور سے بالاتر ہے ۔


 

1- ماہیہ“ اصل میں ” ماھی“ تھا ” ھاء سکت“ کا اس سے الحاق ہوا۔
2۔ ” ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ جب لوگوں نے آپ سے میزان کے معنی کے بارے میں سوال کیا تو آپ  نے جواب میں فرمایا: المیزان العدل “ ” تولنے کی ترازو وہی عدل ہے “۔
3۔اس معنی کو ” زمخشری“ نے ” کشاف“ میں اور ” فخر رازی“ نے تفسیر کبیر “ میں اور ” ابو الفتوح رازی“ نے اپنی تفسیر میں ” موازین“ کے معنی میں دو احتمالوں میں سے ایک احتمال کے عنوان سے ذکر کیا ہے ۔
البتہ دونوں کا نتیجہ ایک ہے ، لیکن دو مختلف راستوںسے۔
اس سلسلہ میں ہم نے سورہ اعراف کی آیہ ۸۔ ۹ کے ذیل میں ( جلد ۴ ص ۴۲) پر ، اور اسی طرح سورہ کہف کی آیہ ۱۰۵ کے ذیل میں ( جلد۷ ص۷۲۷) پر اور سورہٴ مومنون کی آیہ ۱۰۲ کے ذیل میں ( جلد۸ ) پر زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے
4 بعض نے ”راضیة“ کو ” ذات رضا“ کے معنی میں بھی سمجھا ہے ، یا تقدیر میں کچھ فرض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے مراد اس زندگی والوں کی رضایت ہے ، لیکن تین تفاسیر میں سے وہی تفسیر اوپر بیان ہوئی ہے جو سب سے زیادہ مناسب ہے ۔

میزان اعمال کی سنگینی کے اسباباس سورہ کی فضیلت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma