انفاق اور جہنم کی آگ سے دوری

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
سورہٴ و اللیل کے شانِ نزول کے بارے میں ایک بات تقویٰ اور خدائی امدادیں

گزشتہ آیات میں لوگوں کی دو گرہوں : مومنِ سخاوت منداور ایمان بخیل ،میں تقسیم کرنے ، اور ان میں سے ہر ایک کی سر نوشت بیان کرنے کے بعد زیر بحث آیات میں ، پہلے اس بات کو بیان کرتا ہے کہ ہمارا کام ہدایت کرنا ہے کسی کو مجبور کرنا نہیں ہے ۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ مردانہ وار راستہ پر گامزن ہوجاوٴ۔ علاوہ از این اس راستہ کو طے کرنا خود تمہارے نفع میںہے اور ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
فرماتا ہے : یقینا ہدایت کرنا ہمارے ہی ذمہ ہے ۔ “ ( ان علینا للھدٰی
چاہے تکوین ( فطرت و عقل ) کے طریق سے ہدایت ہو، اور چاہے تشریح ( کتاب و سنت) کے طریق سے ہو۔ اس سلسلہ میں جو کچھ ضروری تھا وہ ہم نے بیان کردیا ہے اور اس کا حق اداکردیا ۔
” اور یقینی طورپر آخرت اور دنیا ہماری ہی ملکیت ہے“۔ ( و ان لنا للاٰخرة و الاولیٰ
ہمیں تمہارے ایمان و اطاعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، نہ تمہاری اطاعت ہمیں کوئی فائدہ پہنچاتی ہے اور نہ ہی تمہاری نافرمانی سے ہمیں کوئی نقصان پہنچتا ہے ۔ یہ تمام پروگرام تمہارے فائدے کے لئے ہیں اور خود تمہارے لئے ہیں۔
اس تفسیر کے مطابق یہاںہدایت ” ارائہ طریق“ کے معنی ہے ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ ان دوآیات کا ہدف سخاوت کرنے والے مومنین کو شوق دلانا اور اس معنی پر تاکیدی ہو کہ ہم انہیں مزید ہدایت کا مشمول قرار دیں گے، اور اس جہان میں بھی اور دوسرے جہان میں بھی راستہ کو ان پر آسان کردیں گے، اور چونکہ دنیا و آخرت ہمارے ہی ملکیت ہے لہٰذا ہم اس کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتے ہیں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ زمانہ کے لحاظ سے دنیا آخرت پر مقدم ہے ، لیکن اہمیت اور ہدف اصلی کے لحاظ سے مقصودِ اصلی آخرت ہے ، اور اسی بناء پراسے مقدم رکھا گیا ہے۔
اور چونکہ ہدایت کے شعبوں میں سے ایک خبر دار کرنا اور ڈرانا ہے ، لہٰذا بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے : اب جب کہ یہ بات کہ میں تمہیں اس آگ سے ڈراتاہوں جو شعلہ ور ہوگی “( فانذر تکم ناراً تلظّٰی
تلظّٰی“ ” لظٰی“ ( بر وزن قضا) کے مادہ سے ،خالص شعلہ کے معنی میں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خالص شعلوں میں کو ہر قسم کے دھوئیں سے خالی ہوں زیادہ گرمی اور حرارت ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات لفظ ”لظٰی“ کاخود بھی اطلاق ہوتا ہے ۔2
اس کے بعد اس گروہ کی طرف ، جو اس بھڑکتی ہوئی اور جلانے والی آگ میں داخل ہوں گے ، اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :” بد بخت ترین آدمی کے سوا اس میں کوئی بھی داخل نہیں ہوگا ۔ ( لایصلاھا الاَّ الاشقی) ۔
اور شقی کی توصیف میں فرماتا ہے :” وہی شخص جو آیات الٰہی کی تکذیب کرتا ہے اور ان سے پیٹھ پھیر لیتا ہے “۔ ( الذی کذّب و تولیّٰ
اس بناء پر خوش بختی و بد بختی کا معیار وہی کفر و ایمان ہے یا وہ عملی نتائج جو ان دونوں کے ہوتے ہیں ، اور وہ واقعاً جو شخص ہدایت کی ان نشانیوں ، اور ایمان و تقویٰ کے امکانات و وسائل کو نظر انداز کردے تو وہ ” اشقی “ کا مصداق، اور بد بخت ترین شخص ہے ۔
الذین کذب و تولی“ کے جملہ میں ممکن ہے کہ ” تکذیب “ تو کفر کی طرف اشارہ ہو، اور ” تولی“ اعمال صالح کے ترک کرنے کی طرف اشارہ ہو، کیونکہ کفر کا لازمہ یہی ہے ۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ ترک ایمان کی طرف اشارہ ہوں ۔ اس طرح سے کہ پہلے تو پیغمبر کی تکذیب کرتے ہیں، اور اس کے بعد پیٹھ پھیر کر ہمیشہ کے لئے اس سے دور ہو جاتے ہیں ۔
بہت سے مفسرین نے یہاں ایک اعتراض پیش کیا ہے اور اس کا جواب دیاہے اور وہ یہ ہے کہ اوپر والی آیات اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ جہنم کی آگ کفار کے ساتھ جہنم مخصوص ہے ۔ یہ بات اس چیز کے مخالف ہے جو قرآن کی دوسری آیات اور مجموعہ روایات اسلامی سے معلوم ہوتی ہے کہ گنہگار مومن بھی جہنم کی آگ میں حصہ دار بنیں گے، لہٰذا منحرف گروہوں میں سے بعض نے ، جویہ نظر یہ رکھتے ہیں کہ ایمان کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ ضرر نہیں پہنچاتا انہوںنے اپنے مقصود پر ان آیت سے استدلال کیاہے ۔ ( اس گروہ کا نام ” مرجئہ“ ہے۔
اس کے جواب میں دو نکتوں کی طرف توجہ کرانا چاہئیے: پہلا یہ کہ یہاں جہنم میں ورود سے مراد وہی ” خلود“ ہمیشہ رہنا ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ خلود کفار کے ساتھ ہی مخصوص ہے ۔ اس بات کا قرینہ وہ آیات ہیں جو اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ غیر ِ کفار بھی جہنم میں وارد ہوں گے ۔
دوسرا یہ کہ اوپر والی آیات اور بعد والی آیات یہ کہتی ہیں کہ جہنم کی آگ سے دوری ” اتقی“ ( زیادہ متقی افراد) سے مخصوص ہے ، یعنی مجموعی طور پر وہ یہ چاہتاہے کہ صرف دو گروہوں کی حالت بیان کرے : (۱) بے ایمان بخیل گروہ اور (۲) زیادہ تقویٰ رکھنے والے سخاوت مندمومن ۔ان دونوں گروہوں میں سے صرف پہلا گروہ جہنم میں وارد ہوگا ، اور دوسرا گروہ بہشت میں داخل ہو گا، اور اس طرح سے تیسرے گروہ یعنی گنہگار مومنین کے بارے میں تو اصلا کوئی بات ہی نہیں ہوئی ہے ۔
دوسرے لفظوں میں یہاں ” حصر“ ” حصر اضافی “ ہے ۔ گویا جنت صرف دوسرے گروہ کے لئے ، اور جہنم کے لئے ، اور جہنم صرف پہلے گروہ کے لئے پیدا کی گئی ہے ، اس بیان سے ایک دوسرے اعتراض کاجواب بھی، زیر بحث آیات اور ان آیندہ آنے والی آیات کے رابطہ سے ہواہے ، جو نجات کو ” اتقی“ سے مخصوص کرتی ہیں ،واضح ہوجاتا ہے
اس کے بعد اس گروہ کے بارے میں گفتگو کرتا ہے جو اس جلانے والی شعلہ ور آگ سے دور ہے ، فرماتاہے :” عنقریب سب سے زیادہ تقویٰ کرنے والا آدمی اس بھڑکتی ہوئی آگ سے دور رکھا جائے گا“۔ ( و سیجنبھا الاتقی
وہی آدمی جو اپنے مال کو راہ خدا میں انفاق کرتا ہے اور اس کا مقصد رضائے خدا کا حصول ، تزکیہ نفس ، اور اموال کو پاک کرنا ہوتا ہے ، ( الذی یوتی مالہ یتزکٰی ) ۔
” یتزکٰی “ کی تعبیر حقیقت میں قصدِ قربت اور نیت ِ خالص کی طرف اشارہ ہے ، چاہے یہ جملہ معنوی و روحانی رشد و نمو کے حصول کے معنی میں ہویا اموال کی پاکیزگی کے حاصل کرنے کے معنی میں ، کیونکہ ” تزکیہ“ ’ نمودینے“ کے معنی میں بھی آیاہے ، اور ” پاک کرنے “ کے معنی میں بھی ، سورہ توبہ کی آیہ ۱۰۳ میں آیا ہے : خذ من اموالھم صدقة تطھرھم و تزکیھم بھا و صل علیہم ان صلاتک سکن لھم:”ان کے اموال میں سے زکوٰة وصول کرلے تاکہ اس کے ذریعے تو انہیں پاک کرے اور ان کی پرورش کرے ، اور ( زکوٰة لیتے وقت) اس کے لئے دعا کر کیونکہ تیری دعا ان کے سکون و آرام کا باعث ہے “۔
اس کے بعد ان کے خلوصِ نیت کے مسئلہ پر ، جو وہ خرچ کرنے میں رکھتے ہیں ، تاکید کے لئے مزید فرماتا ہے :” کسی شخص کا اس کے اوپر حقِ نعمت نہیں ہے کہ اس انفاق کے ذریعے اس کی جزا دی جائے “ :( وما لاحد عند ہ من نعمة تجزیٰ)۔ بلکہ اس کا مقصد تو اپنے بزرگ و برتر پروردگار کی رضا حاصل کرنا ہے۔ ( الاابتغاء وجہ ربہ الاعلیٰ
دوسرے لفظوں میں لوگوں کی درمیان بہت سے انفاق ایسے ہوتے ہیں جو ویسے ہی انفاق کا جواب ہوتے ہیں جو طرف مقابل کی طرف سے پہلے سے کئے ہوئے ہوتے ہیں ، البتہ حق شناسی اور احسان کا احسان کے ساتھ جواب دینا ایک اچھا کام ہے ، لیکن اس کا حساب پرہیز گاروں کے مخلصانہ انفاق سے جدا ہے ۔ اوپر والی آیات کہتی ہیں کہ پر ہیز گار مومنوں کا دوسروں پر خرچ کرنا نہ تو ریا کاری کی وجہ سے ہوتا ہے ، اور نہ ہی ان کی سابقہ خدمات کے جواب کے طور پر ، بلکہ اس کا سبب صرف اور صرف خدا کی رضا کا حاصل کرنا ہوتا ہے اور یہی چیزان انفاقوںکو حد سے زیادہ قدر و منزلت عطا کرتی ہے ۔
” وجہ“ کی تعبیر یہاں ” ذات“ کی معنی میں ہے اور اس سے مراد اس کی پاک ذات کی رضا و خوشنودی ہے ۔
ربہ الاعلیٰ“ کی تعبیر اس با ت کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ انفاق پوری معرفت کے ساتھ صورت پذیر ہوتا ہے، اور اس حالت میںہوتا ہے کہ وہ پروردگار کی ربوبیت سے بھی آشنا ہوتا ہے ، اور اس کے مقام ِ اعلیٰ سے بھی باخبر ہوتا ہے ۔
ضمنی طور پر یہ استثناء ہر قسم کی انحرافی نیتوں کی بھی نفی کرتا ہے ،مثلاً نیک نامی، لوگوں کی توجہ مبذول کرنے ، اور معاشرے میں مقام و حیثیت و غیرہ حاصل کرنے کے لئے خرچ کرنا ، کیونکہ اس کا مفہوم ان اموال کے انفاق کامحرک، پر وردگارکی خوشنودی حاصل کرنے میںہے ۔ 3
 انجام کار اس سورہ کی آخری آیت میں اس گروہ کی عظیم و بے نظیر جزاوٴں کو پیش کرتے ہوئے ایک مختصر سے جملہ میں فرماتا ہے :” اور ایسا آدمی عنقریب راضی و خوشنود ہوجائے گا“۔ ( لسوف یرضیٰ ) ۔
ہاں ! جس طرح وہ رضائے الٰہی خدا کے لئے کام کرتا ہے ، خدا بھی ا س کو راضی کرے گا، ایسی رضا جو مطلق اور بے مطلق اور بے قید و شرط ہوگی، ایسی رضا جو وسیع و غیر محدود ہوگی ، ایسی پر معنی رضا جس میں تمام نعمتیں جمع ہوگی، ایسی رضاجس کا تصور کرنا بھی آج ہمارے لئے غیرممکن ہے اور وہ کون سی نعمت ہو گی اس سے بر تر بالاتر ہو گی ۔
بعض مفسرین نے بھی یہی احتمال دیا ہے کہ ” یرضیٰ“ کی ضمیر خد اکی طرف لوٹتی ہے ، یعنی عنقریب خدا اس گروہ سے راضی ہوجائے گا کہ وہ بھی ایک عظیم و بے نظیر انعام ہے کہ خدائے بزرگ اور پروردگار ِ برتر اس قسم کے بندے سے راضی و خوشنود ہوجائے ۔ وہ بھی ایسی رضا جو مطلق عظیم و بے قید و شرط ہو ، اور یقینی طور پر اس رضائے الٰہی کے پیچھے اس باایمان او رباتقویٰ بندہ کی رضایت ہے ، کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں جیسا کہ سورہ بینہ کی آیہ ۸ میں آیاہے ، رضی اللہ عنھم و رضو عنہ ،یا سورہ فجر کی آیہ ۲۸ میں آیاہے ، راضیة مرضیة ، لیکن تفسیر اول زیادہ مناسب ہے ۔


 

۱۔ ” للاٰخرة “ کا ”لام “ اور اسی طرح ( گزشتہ آیت میں ” للھدٰی“ کا ”لام “ ظاہراً لام تاکید ہے جو یہاں ” اسم انّ“ کے اوپر ہے ، اگرچہ عام طور پر خبر کے اوپر داخل ہو اکرتی ہے ، یہ اس بناء پر ہے کہ بعض ادب کی کتابوں کی تصریح کے مطابق جب ” ان ّ“کی خبر مقدم ہو تو اس کے اسم پرلام داخل ہوتی ہے ۔
 2۔  ” تلظی“ اصل میں ” تتلظی“ تھا، دو ”تا“ میں سے ایک ” تا“ تخفیف کے لئے گر گئی ہے ۔
3۔ ” الابتغاء وجہ ربہ الاعلیٰ “ کے جملہ میں استثناء ، استثناء منقطع ہے ، البتہ پہلی آیت میں ایک تقدیر ہے جو اس طرح ہے ۔ ( وما لاحد عندہ من نعمة تجزٰی فلاینفق مالہ لنعمة الا ابتغاء وجہ ربہ الاعلی)ٰ ۔ کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیاجائے لہٰذا وہ اپنا مال کسی احسان کے بدلے میں خرچ نہیں کرتا مگر اپنے بزرگ و بر تر پر وردگار کی خوشنودی کے لئے ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ یہ استثناء متصل ہو، ایک محذوف کو نظر نظر میں رکھتے ہوئے اور تقدیر اس طرح ہو: لاینفق لنعمة عندہ ولا لغیر ذالک الاابتغاء وجہ ربہ الاعلیٰ (غور کیجئے )۔

سورہٴ و اللیل کے شانِ نزول کے بارے میں ایک بات تقویٰ اور خدائی امدادیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma