تیرا پرور دگار ظالموں کی گھات میں ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
نہ اس کی نعمت کے ملنے پر غرور کرو او رنہ سلب نعمت پر مایوس ہو تمہاری صبح کی سفیدی کی قسم

گزشتہ آیات کے بعد جو سر کشوں کی سزا اور ان پر نازل ہونے والے عذاب کے بارے میں بامعنی قسموں کی ضمانت لئے ہوئے تھیں ، ان آیات میں گزشتہ اقوام میں سے چند طاقتور قوموں کے متعلق ، جن میں سے ہرایک عظیم قوت کی مالک تھی ، لیکن ساتھ ہی مغرور بھی متکبر و سر کش بھی تھی ، ان کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ان کی درد ناک سر نوشت کو واضح کرتا ہے تاکہ مشرکین مکہ اور دوسری اقوام جو ان کے مقابلہ میں بہت کمزور ہیں ، اپنا اندازہ لگالیں اور خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں ۔ پہلے فرماتا ہے :” کیاتونے دیکھانہیں کہ تیرے پروردگار نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا ہے “۔( الم تر کیف فعل ربک بعاد) ۔
رویت (دیکھنا )سے یہاں مراد علم و آگاہی ہے چونکہ ان اقوام کی داستانیں اس قدر مشہور ومعروف تھیں کہ گویا بعد کے زمانے کے لوگ بھی انہیں اپنی آنکھوں سے
دیکھتے تھے ،لہٰذا رویت کی تعبیر صرف ہوئی ہے ۔ البتہ اس آیت میں مخاطب پیغمبر تھے لیکن مقصود سب کوتنبیہ کرنا اور خبردار کرنا ہے ۔
”عاد“ خدا کے عظیم پیغمبر حضرت ہود  کی قوم ہے ۔ بعض موٴخین کا نظریہ ہے کہ عاد کا اطلاق دو قبیلوں پر ہوتا ہے ایک وہ جو بہت پہلے تھا اور قرآن نے اسے عاد الاولیٰ سے تعبیر کیا ہے ۔ ( نجم ۔ ۵۰)۔ وہ غالبا ً تاریخ سے پہلے موجود تھا ۔دوسراقبیلہ جو تاریخ بشر کے دور میں اور تقریباً ولادت مسیح  سے سات سو سال پہلے تھا اور عاد کے نام سے مشہور تھا ۔ یہ احقاف یایمن میں رہا ئش پذیر تھا۔ اس قبیلہ کے افراد بلند قامت اور قوی الجثہ تھے اور عاد کے نام سے نمایاںجنگجو شما رہوتے تھے ۔ اس کے علاوہ وہ متمدن بھی تھے ۔ ان کے شہر آباد اور زمینیں سر سبز و شاداب تھیں ۔ ان کے باغات پر بہار تھے اور انہوں نے بڑے بڑے محل بھی تعمیر کئے تھے بعض موٴخین کا خیال ہے کہ عاد اس قبیلہ جد اعلیٰ کا نام تھا اور وہ قبیلہ کو اپنے جدکے نام سے موسوم کرکے پکار تے تھے ۔ ا سکے بعد مزید فرماتاہے :
” وہی پر شکوہ اور عظیم شہررام “ ( ارم ذات العماد)، اس بات میں کہ ارم کسی شخص کا نام ہے یا قیبلے کا یا جگہ یا کسی شہر کا ، موٴخین کے درمیان اختلاف ہے ۔ زمخشری کشاف میں نقل کرتا ہے کہ عاد بیٹا ہے عوص کا ، وہ بیٹاہے ارم کا ، وہ بیٹا ہے سا، ابن نوح کا اور چونکہ قبیلے کے اجداد سے قبیلے منسوب ہوتے تھے ، لہٰذا عاد کو ارم بھی کہتے ہیں ،۔ موخین کا نظر یہ ہے کہ ارم وہی عاد اولیٰ ہے اور عاد دوسرا قبیلہ ہے ، جبکہ کچھ اور حضرات کا نظریہ ہے کہ ارم انکے شہر اور سر زمین کانام ہے ۔ ۱
لیکن بعد والی آیت سے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ارم ان کے بے نظیر شہر کا نام ہے ۔
عماد کے معنی ستون اور ا س کی جمع عمد ہے ( بر وزن شتر) پہلی تفسیر کی بناپر قوم عاد کے طاقتور جسموں اور ستون جسے پیکروں کی طرف اشارہ ہے اور دوسری تفسیر کے مطابق با عظمت عمارتوں ، بلند و بالا محلات ، اور ان عظیم ستونوں کی طرف اشارہ ہے جو عظیم محلوں میں تعمیر کئے کئے تھے اور ان دونوں صورتوں میں قوم عاد کی طاقت و قوت کا اشارہ ہے ۔ ۲
اس کے بعد والی آیت میں فرماتا ہے :” وہی شہر و دیار جن کی مانند و مثل دنیا کے شہروں میں پیدا نہیں ہوئی تھی ( التی لم یخلق مثلھا فی البلاد)یہ تعبیر بتائی ہے کہ ارم سے مراد وہی شہر ہے ، نہ کہ قبیلہ طائفہ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین نے اسی تفسیر کو قبول کیاہے اور ہم نے بھی اسی کو تر جیح دی ہے ۔ ۳
بعض مفسرین نے جزیرة العرب کے بیابانوں اور عدن کے صحراوٴں میں شہر ارم کے بر آمد ہونے کی ایک دلچسپ داستان بیان کی ہے جس میں وہ اس شہر کی بلند و بالا عمارات اور سامان ِ زینت وغیرہ کی بات کرتے ہیں ۔ لیکن مذکورہ داستان واقعیت کی نسبت خواب یا افسانے سے زیادہ تعلق رکھتی ہے ، لیکن اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ قوم عاد طاقتور قبائل پر مشتمل تھی، ان کے شہر ترقی یافتہ تھے اور جیسا کہ قرآن اشارہ کرتا ہے ، ان جیسے شہر پھر آباد نہیں ہوسکے ۔ بہت سی داستانیں شداد کی ، جو عاد کا بیٹا ، زبان زدِعام ہیں اور تاریخ میں مرقوم ہیں ، یہاں تک کہ شداد کی بہشت اور اس کے باغات ضرب المثل کی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔ لیکن ان داستانوں کی حقیقت کچھ نہیں ہے ، یہ محض افسانے ہیں ۔ یہ ایسے افسانے ہیں کہ ان کی حقیقت پر بعد میں حاشیہ آرائی کر لی گئی ۔
اس کے بعد گزشتہ اقوام کے دوسرے سر کش گروہ کا حوالہ دے کر فرماتا ہے: کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے پر وردگار نے قوم ثمود کے ساتھ کیا کیا ، جو وادی میں بڑے بڑے پتھروں کوکاٹتی اور ان سے گھر اور قصر بناتی تھی ۔ ( وثمود الذین جابو ا الصخر بالواد) ثمود کی قوم قدیم ترین اقوام میں سے ہے ۔ ان کے پیغمبر حضرت صالح  تھے اور وہ وادی القریٰ نامی سر زمین میں رہتے تھے ، جو مدینہ اور شام کے درمیان تھی ، ان کا تمدن ترقی یافتہ تھا ، زندگی مرفہ الحال تھی اور ان کی عمارتیں عظیم تھیں ۔
بعض موٴرخین کہتے ہیں ثمود اس قبیلے کے باپ کانام تھا ، اسی نا م سے وہ قبیلہ موسوم ہوا ۔ ۴
جابوا اصل میں جو بہ ( بر وزن توبہ ) سے لیا گیا ہے جو پست زمین کے معنی میں ہے ۔ اس کے بعد ہر قطعہ زمین کی قطع و برید کے معنی میں آیاہے ۔
کسی بات کے جواب کو اس لئے جواب کہتے ہیں گویا وہ ہوا کو قطع کرتا ہے اور کہنے والے کے منہ سے نکل کر سننے والے کے کان تک پہنچتا ہے ( یا اس لحاظ سے کہ سوال کو کاٹ کردیتا ہے )۔
بہر حال یہاں مراد پہاڑوں کے ٹکڑوں کا کاٹنا اور اطمینان کے ساتھ ان سے گھر بناناہے ، جیسا کہ سورہ فجر کی آیت ۸۲ میں اسی قوم ثمود کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں ( و کانوا ینحتون من الجبال بیوتاً آمنین )۔وہ دو پہاڑوں کے اندر پرسکون گھر بناتے تھے ۔ ان معنی کی نظیر سورہ شعرا کی آیت ۱۴۹ میں آئی ہے وہاں بیوتاً فارھین کی تعبیر صرف ہوئی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان گھروں میں عیش و عشرت سے زندگی بسر کرتے اور ہوس رانی سے کام لیتے تھے۔ بعض نے کہا ہے کہ قومِ ثمود وہ پہلی قوم تھی جنہوں نے پہاڑوں سے پتھر کاٹ کر پہاڑوں کے اندر مضبوط و محکم گھر بنانے کا اقدام کیا۔
”واد“ جو اصل میں وادی تھا ، در یا سیلابوں کی گزرگاہ کے معنی میں ہے اور کبھی درّہ کے معنی میں بھی آیاہے ، اس لئے کہ سیلاب ان سے جو پہاڑوں کے قریب ہوتے ہیں ، گزر تے ہیں ، یہاں سے دوسرے معنی مناسب ہیں یعنی درے اور پہاڑ کے دامن ، اس لئے کہ قرآن کی وہ آیات بھی یہی بتاتی ہیں جو اس قوم کے متعلق بیانات دیتی ہیں اور اس کا اوپر بھی اشارہ ہوا ہے کہ قوم ثمود اپنے گھر پہاڑوں کے دامن میں بناتی تھی ۔ اس طرح وہ پتھر کاٹتے اور ان کے اندر پر امن گھر بناتے ۔ 5
ایک حدیث میں آیاہے کہ پیغمبر تبوک کے موقع پر راستہ چلتے ہوئے دبستان کے شمال میں داویٴ ثمود میں پہنچے ۔ آپ گھوڑے پر سوار تھے ۔ فرمایا جلدی کرو اس وقت تم ملعون و معذب سر زمین پر ہو۔ 6
اس میں شک نہیں کہ قوم ثمود ترقی یافتہ تھا کہ ان کے شہر آباد تھے ۔ لیکن پھر ہمیں ایسے اعداد و شمار سے واسطہ پڑتا ہے جو مبالغہ آمیز نظر آتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ مفسرین کی ایک جماعت نے لکھا ہے کہ انہوں نے ایک ہزار سات سو شہر بنائے تھے ، جو سب کے سب پتھروں سے تعبیر ہوئے تھے ۔
اس کے بعد تیسری قوم کو پیش کرتے ہوئے فرماتاہے :
” اور اسی طرح فرعون صاحبِ ثروت “ ( و فرعون ذی الاوتاد) جو اس طرف اشارہ ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ خدانے طاقتور ظالم او ربیداد گر قومِ فرعون کے ساتھ کیا کیا۔
”اوتاد“ جمع ہے وتد کی ( بر وزن صمد ) جس کے معنی میخ کے ہیں ۔ فرعون کو ذی الاوتاد کیوں کہتے ہیں ؟ اس کی مختلف تفسیریں ہیں ۔
پہلی یہ کہ اس کے بہت سے لشکر تھے جن میں سے بہت سے خیموں میں زندگی گزار تے تھے اور جو خیمے ان کے لئے گاڑے جاتے تھے ان میں میخیں استعمال ہوتی تھیں ۔
دوسری یہ کہ فرعون جس شخص پر غضبناک ہوتا، زیادہ تر اس کو یہ سزا دیتا کہ اس کے چاروں ہاتھ پاوٴں میخو ں سے باندھ دیتا ، یا اس کے ہاتھ اور پاوٴں میں میخیں گاڑ دیتا یہاں تک کہ وہ مرجاتا ۔ یہ تفسیر ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ۔ 7
تاریخ میں آیاہے کہ جس وقت فرعون کی بیوی حضرت آسیہ حضرت موسیٰ  پر ایمان لے آئیں تو انہیں بھی یہی سزا دی گئی اور شہید کیاگیا ۔ ذی الاوتاد اصولی طور پر قوت اور استقرار حکومت کا کنایہ ہے ۔
تینوں تفسیریں آپس میں منافات بھی نہیں رکھتی ۔ ہوسکتا ہے کہ آیت کے معنی جمع ہوں ۔ اس کے بعد مجموعی طور پر ان تینوں اقوام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے :
” وہی جنہوں نے شہروں میں سر کشی کی “ ( الذین طغوا فی البلاد) اور ان میں بہت سا فساد بر پا کیا اور خرابی کی ( فاکثروا فیھا الفساد ) فساد جو ہر قسم کی ظلم و ستم ، تجاوز عن الحدود ، عیاشی اور ہوس رانی پر مشتمل تھا ۔ واقعی ان کی سر کشی ایک اثر رکھتی ہے اور ہر سر کشی کرنے والی قوم آخر کار ہر قسم کے فساد میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔
اس کے بعد ایک مختصر او رپر معنی جملے کے ساتھ ان تمام سر کش قوموں کی دردناک سزا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اضافہ فرماتا ہے :” لہٰذا خدا نے ان کو عذاب کا تازیانہ لگایا “ ( فصب علیھم ربک سوط عذاب
” سوط“ کے معنی تازیانے کے ہیں ۔ اس کے معنی اصل میں ایک شی کو دوسری چیز سے مخلوط کرنے کے ہیں ۔ اس کے بعد اس کا تازیانہ پر بھی اطلاق ہواہے جو چمڑے وغیرہ سے بناہو۔ بعض مفسرین کے نزدیک عذاب کا کنایہ ہے ، ایسا عذاب جو انسان کے گوشت و خون سے مخلوط ہو جائے اور اس کو سخت پریشان و بے حال کردے ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے کلام میں امتحان کے بارے میں ملتا ہے ( و الذی بعثہ بالحق لتبلبلن بلبلة و لتغربلن غربلة و لتساطن سوط القدر )۔ قسم ہے اس کی جس نے پیغمبر کوحق کے ساتھ مبعوث کیا تم شدت و سختی کے ساتھ موردِ امتحان و آزمائش قرار پاوٴ گے ، چھلنی کی مانند ہو جاوٴگے ، دیگ میں جو چیز ہو اس کی طرح اس کے جوش کھانے اور ابال آنے کے وقت مل جل جاوٴ گے اور اوپر نیچے ہو جاوٴ گے “۔ 8
یہ مختصر سی تعبیر شدید اور مختلف قسم کے عذابوں کی طرف اشارہ ہے جو اس قوم پر نازل ہوئے ۔ قوم عاد تو قرآن مجید کے بقول تیز ٹھنڈی اور جلانے والی ہوا اور آندھی سے ہلاک ہوئی ( و اماعاد فاھلکوا بریح صرصر عاتیة) ( حاقہ ۔ ۶ ) باقی رہی قوم ثمود تو وہ عظیم آسمانی چیخ کے ذریعہ نابود ہوئی ۔
( فاما ثمود فاھلکوا بالطاغیة) ( حاقہ۔ ۵) اور قوم فرعون دریائے نیل کی موجوں میں غرق اور دفن ہو گئی ( فاغرقنا ھم اجمعین ) ( زخرف: ۵۵)
آخری زیر بحث آیت میں ان تمام لوگو ں کو ہشیار اور خبر دار کرنے کے لئے ، جو اس راستہ پر چلتے ہیں جس پر وہ سر کش لوگ چلتے تھے، فرماتا ہے :
” یقینا تیرا پروردگار کمین گاہ میں ہے “ ( ان ربک لبالمرصاد)۔”مرصاد“ رصد کے مادہ سے کسی چیز کی نگہبانی کرنے کے لئے آمادگی کے معنی میں ہے ۔ فارسی میں اسے کمین گاہ کہتے ہیں۔ یہ لفظ عا طور پر ایسی جگہ استعمال ہوتاہے جہاں کچھ افراد مجبور ہوں کہ کسی گزرگاہ سے گزریں اور کوئی شخص اس گزرگاہ میںضرب لگانے کے لئے آمادہ و تیار ہو۔
اس ساری گفتگو میںاس طرف اشارہ ہے کہ گمان نہ کرو کہ کوئی شخص عذابِ الہٰی سے بچ کر جاسکتا ہے ۔ سب کچھ اس کے قبضہٴ قدرت میںہے اور جس وقت وہ ارادہ کرے ان کو سزا دے سکتا ہے اور ان پر عذاب نازل کرسکتا ہے ۔
یہ بات واضح ہے کہ خدا کا کوئی مکان نہیں ہے اور وہ کسی گزرگاہ میں بھی نہیں بیٹھتا ۔ یہ تعبیر اس بات کا کنایہ ہے کہ پروردگار اپنی قدرت کے ذریعہ تمام سر کشوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ ایک حدیث میںحضرت علی علیہ السلالم سے منقول ہے :( ان ربک قادر علیٰ ان یجزی ا ھل المعاصی جزائھم ) ” تیرا پر وردگار قدرت و توانائی رکھتا ہے کہ گنہگاروں کو کیفر ِ کردار تک پہنچائے“۔ 9
ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:( المرصاد قنطرة علی الصراط لایجوز ھا عبد بمظلمة عبد ) ” مرصاد ایک پل ہے اس راستہ پر جو جہنم کے اوپر سے گزرتا ہے ۔ جس شخص کی گردن پر کسی مظلوم کا حق ہوگا وہ اس پر سے نہیں گزر سکے گا“۔ 10
یہ حقیت میں ایک واضح مصداق کے بیان کی قسم میں سے ہے اس لئے کہ خدا کی کمین گاہ قیامت اور مشہور پل صراط تک محدود نہیں ہے ۔ خدا تو اس دنیا میں بھی ہر ظالم کی گھات میں ہے اور گزشتہ تینوں اقوام پر نازل ہونے والا عذاب اس کا واضح مصدا ق ہے ۔
” ربک“ ( تیرا پرورگار ) کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ سنت الہٰی تیری امت کی سر کش ، ظالم اور ستمگر قوموں کے بارے میں بھی جاری ہوگی ۔ پیغمبر اور مومنین کے دلوں کی تسکین بھی ہے کہ وہ سمجھ لیں کہ یہ ہٹ دھرم اور کینہ پرور دشمن خدا کی قدرت کے چنگل سے کبھی فرار نہیں کرسکیں گے اور یہ ان لوگوں کے لئے خطرہ کی تنبیہ بھی ہے جو پیغمبر اکرم اور مومنین پر ہر قسم کا ظلم و ستم روارکھتے تھے ۔ انہیں جان لینا چاہیئے کہ وہ لوگ جو ان سے زیادہ صاحب طاقت تھے ، ایک تیز آندھی ، ایک طوفان ، ایک شعلہ اور صیحہ آسمانی کے مقابلہ میں تاب مقاومت نہ لاسکے تو یہ کس طرح سوچتے ہیں کہ اپنے ان غلط اعمال کے باوجود عذابِ الہٰی سے نجات پاسکیں گے ۔
ایک حدیث میں پیغمبر اسلام  سے منقول ہے آپ فرماتے ہیں : ” جبرائیل امین نے مجھ کو خبر دی ہے کہ جس وقت خدا وند و یکتا اولین و آخرین کی مخلوق کو میدانِ حشر میں جمع کرے گا تو جہنم کو لے آئے گا اور پل صراط کو ، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے ، اس پر رکھ دے ۔ اس صراط پر تین پل ہوں گے ۔ پہلے پل پر امانت و رست گاری اور رحمت و محبت ہے ۔ دوسرے پل پر نماز اور تیسرے پل پر پروردگارعالم کا عدل ہوگا ۔ لوگوں کو حکم دیا جائے گاکہ وہ اس پل پر سے گزریں ۔ جنہوں نے امانت اور رحم میں کوتاہی کی ہوگی وہ پہلے پل پر ہی رہ جائیں گے ۔ اس سے گزر گئے تو نماز میں کوتاہی کی ہوگی تو دوسرے پل پر ہی رہ جائیں گے اور اگر اس سے بھی گزر گئے تو اپنے راستے کے آخر میں عدل الہٰی پائیں گے اور ( ان ربک لبالمرصاد )کے یہی معنی ہیں ۔ 11

حضرت علی علیہ السلام کے ارشاد ات و کلمات میں ہم پڑھتے ہیں ( ولئن امھل اللہ الظالم فلن یفوث اخذہ وھو لہ بالمرصاد مجاز طریقہ و بموضع الشجی من مساغ ریقہ)
اگر خدا ظالم کو مہلت دے دے تو اس کی سزا ہر گز ختم نہیں ہوگی ۔ وہ ستمگاروں کی گھات میں ہے اور اس طرح ان کے حلق کو اپنے دستِ قدرت میںلئے ہوئے ہے کہ جس وقت چاہے گا اس طرح دبائے گا کہ اس کا لعاب دہن تک گلے سے نیچے نہیں جاسکے گا ۔12

۱۵۔ فامّا الانسان اذا ماابتلٰہ ربہ فاکرمہ و نعَّمہ فیقول ربیٓ اکرمن۔
۱۶۔ و اما اذا ما ابتلٰہ فقدر علیہ رزقہ فیقول ُ ربیٓ اھانن۔
۱۷۔ کلَّا بل تکرمونَ الیتیمَ ۔ ۱۸۔ و لا تحٰٓضّون علیٰ طعام المسکین۔
۱۹۔ و تاکلون التّراث اکلا ً لمّا۔ ۲۰۔ و تحبِّو ن المال حبّاً جمّاً۔
ترجمہ
۱۵۔ لیکن انسان کو خدا جس وقت آز مائش کے لئے عزت دیتا ہے ( اس کا اکرام کرتا ہے ) اور نعمت بخشتا ہے تو ( مغرور ہو جاتاہے ) اور کہتا ہے کہ میرے پر وردگار نے میرا اکرام کیا ہے ۔
۱۶۔ لیکن جب امتحان کے لئے اس پر روزی تنگ کردیتا ہے تو مایوس ہوجاتا ہے اور کہتا ہے میرے پروردگار نے مجھے ذلیل و خوار کیا ہے ۔
۱۷۔ایسا نہیں ہے جیسا تم نے خیال کیا ہے بلکہ تم یتیموں کا احترام نہیں کرتے ۔
۱۸۔ اور ایک دوسرے کو مساکین و فقراء کو کھانا کھلانے کا شوق نہیں دلاتے ۔
۱۹۔ اور میراث کو جائز و ناجائز طریقہ سے جمع کر کے کھاتے ہو۔ ۲۰۔ اور مال و دولت کو بہت دوست رکھتے ہو۔


 

۱۔تفسیر کشاف ، جلد ۴،ص ۷۴۷۔ اس مضمون کو قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے ۔ اسی طرح دوسری تفسیروں میں بھی ہے ۔
۲۔ پہلی تفسیر کی بناء پر ذات کا موٴنث ہونا طائفہ و قبیلہ کی بناء پر ہے جو موٴنث لفظی ہے ۔
۳۔ ارم غیر منصرف ہے اسی لئے حالتِ جر میں منصوب ہوتاہے ۔
۴۔ ثمود اہل لغت کے لحاظ سے ثمد ( بر وزن نمد) اس تھوڑے سے پانی کے معنی میں جس کا کوئی مادہ نہ ہو اور ثمود ا س شخص کو کہتے ہیں جس سے زیادہ مال کا مطالبہ کریں ، اتنی مقدار جس سے اس کے مال میں نقص پید اہوجائے ، بعض اس لفظ کو عجمی کہتے ہیں ۔ مفردات راغب۔
5۔ جابو ا الصخر بالواد میں باء بظاہر ظرفیت کے معنی رکھتا ہے ۔
6۔ روح البیان ، جلکد ۲ ص ۴۲۵۔
7۔ علل الشرائع نور الثقلین کی نقل کے مطابق جلد ۵، ص ۵۷۱ حدیث ۶
8-«نهج البلاغه»، خطبه 16.
9۔۔مجمع البیان ،جلد ۴۸۷۔
10۔مجمع البیان ،جلد ۴۸۷۔
11۔ روضہ کافی مطابق نقل نور الثقلین، جلد ۵، ص ۵۷۳۔
12۔ نہج البلاغہ خطبہ ۹۷۔

 

نہ اس کی نعمت کے ملنے پر غرور کرو او رنہ سلب نعمت پر مایوس ہو تمہاری صبح کی سفیدی کی قسم
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma