۱۔ اصحابِ اخدود کون لوگ تھے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
۲۔ حفظ ایمان کے سلسلہ میں استقامت  مومنین انسانوں کو جلانے والی بھٹیوں کے سامنے


۱۔ ہم بتا چکے ہیں کہ اخدود عظیم گڑھے اور خندق کے معنی میں ہے اور یہاں بڑی بڑی خندقین مراد ہیں جو آگ سے پر تھیں تاکہ تشدد کرنے والے اس میں مومنین کو پھینک کر جلائیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ واقعہ کس قوم سے متعلق ہے اور کس وقت معرض وجود میں آیا اور کیا یہ ایک خاص معین و مقرر واقعہ تھا ، یا دنیا کے مختلف علاقوں کے اسی قسم کے متعدد واقعات کی طرف اشارہ ہے ۔
مفسرین ومورخین کے درمیان اس موضوع پر اختلاف ہے ، سب سے زیادہ مشہور یہ کہ یہ واقعہ سر زمین یمن کے قبیلہ حمیر ۱کے ذونواس نامی باشاہ کے دَور کاہے ۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ ذونواس ، جو حمیر نامی
قبیلہ سے متعلق تھا ، یہودی ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کا پورا قبیلہ بھی یہودی ہوگیا ۔ اس نے اپنا نام یوسف رکھا۔ ایک عرصہ تک یہی صورت حال رہی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ کسی نے اسے خبردی کہ سر زمین نجران ( یمن کا شمالی حصہ ) میںابھی تک ایک گروہ نصرانی مذہب پر قائم ہے ۔ ذونواس کے ہم مسلک لوگوں نے اسے اس بات پر ابھارا کہ اہل نجران کو دینِ یہود کے قبول کرنے پر مجبور کرے ۔
وہ نجران کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے وہاں کے رہنے والوں کو اکٹھا کیا اور دین یہود ان کے سامنے پیش کیا اور ان سے اصرار کیا کہ وہ اس دین کو قبول کریں ۔ لیکن انہوں نے انکار کیا اور شہادت قبول کرنے پر تیار ہو گئے۔ انہوں نے اپنے دین کو خیرباد نہ کہا۔ ذونواس کے حکم پر اس کے حامیوں نے بہت بڑی خندق کھودی اس میں لکڑیاں ڈالیں اور آگ لگادی ۔ ذونواس اور اس کے ساتھیوں نے ایک گروہ کو پکڑ کر اس آگ میں زندہ جلایا اور ایک گروہ کو تلوار کے گھاٹ اتارا اس طرح آگ میں جلنے والوں اور مقتولین کی تعداد بیس ہزار تک پہنچ گئی۔ 2
بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سلسلہ دار و گیر سے بچ کر نصاریٰ بنی نجران کا ایک آدمی قیصر روم کے در بار میں جاپہنچا ۔ اس نے وہاں ذونواس کی شکایت کی اور اس سے مدد طلب کی ۔ قیصر نے کہا تمہاری سر زمین مجھ سے دور ہے ۔ باد شاہ حبشہ کو خط لکھتا ہوں جو عیسائی اور تمہارا ہمسایہ ہے میں اس سے کہتاہوں کہ وہ تمہاری مدد کرے ۔
پھر اس نے خط لکھااور حبشہ کے بادشاہ سے نصاریٰ نجران کے عیسائیوں کے خون کا انتقام لینے کی خواہش کی ۔
وہ نجرانی شخص بادشاہ حبشہ نجاشی کے پاس گیا ، نجاشی اس سے یہ تمام ماجرا سن کر بہت متاثر ہوا اور سر زمین نجران میں شعلہ دین مسیح کے خاموش ہوجانے کا اسے بہت افسوس ہو ا۔ اس نے ذونواس سے شہیدوں کے خون کا بدلہ لینے کا مصمم ارادہ کر لیا ۔
اس مقصد کے پیش نظر حبشہ کی فوج یمن کی طرف روانہ ہوئی اور گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس نے ذونواس کو شکست فاش دی اور ان میں سے بہت سے افرادکو قتل کیا۔ جلدی ہی نجران کی حکومت نجاشی کے قبضہ میں آگئی اور نجران حبشہ کا ایک صوبہ بن گیا۔3
بعض مفسرین نے تحریرکیا ہے کہ اس خندق کا طول چالیس ذراع ( ہاتھ ) تھا اور اس کا عرض بارہ ذراع تھا ۔ ( ایک ذروع تقریباًآدھا میٹر ہے اور بعض اوقات گز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جو تقریبا ً ایک میٹر ہے )۔
بعض موٴرخین نے لکھاہے کہ سات گڑھے تھے جن میں سے ہر ایک کی وسعت اتنی ہی تھی جتنی اوپر بیان ہوئی ۔4
مندرجہ بالا واقعہ تاریخ و تفسیر کی بہت سی کتابوں میں درج ہے منجملہ دیگر کتب کے عظیم مفسر طبرسی نے مجمع البیان میں ، ابو الفتوح رازی نے اپنی تفسیر میں فخر راز ی نے اپنی تفسیر کبیر میں ، آلوسی نے روح المعانی میں اور قرطبی نے اپنی تفسیر میں زیر بحث آیات کے ذیل میں ، اسی طرح ہشام نے اپنے سیرہ ( جلد اول ص۳۵) میں اور ایک دوسری جماعت نے اپنی کتب میں اس واقعہ کو تحریر کیا ہے ۔
جو کچھ ہم نے تحریر کیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ تشدد کرنے والے بے رحم افراد آخر کار عذاب ِ الہٰی میں گرفتار ہو ئے اور ان سے اس خون ناحق کا انتقام دنیا ہی میں لیا گیا اور عاقبت کا عذاب جہنم ابھی ان کے انتظار میں ہے ۔
انسانوں کے جلانے والی یہ بھٹیاں جو یہود یوں کے ہاتھ سے معرض وجود میں آئیں ، احتمال اس امر کا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں یہ پہلی آدم سوز بھٹیاں تھیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اسی قسم کی قساوت اور بے رحمی کا خود یہودی بھی شکا رہوئے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے لوگ ہٹلر کے حکم سے آدم سوز بھٹیوں میں جلائے گئے اور اس جہان میں بھی عذاب ِ حریق کا شکار ہوئے ۔
علاوہ از یں ذونواس یہودی ، جو اس منحوس اقدام کا بانی تھا ، وہ بھی اپنی بد اعمالی کے انجام سے نہ بچ سکا ۔ جو کچھ اصحاب اخدود کے بارے میں درج کیاگیا ہے یہ مشہور و معروف نظر یات کے مطابق ہے لیکن اس ضمن میں کچھ اور روایات بھی موجود ہے جویہ بتاتی ہیں کہ اصحاب اخدود صرف یمن میں ذونواسی ہی کے زمانے میں نہیں تھے۔ بعض مفسرین نے تو ان کے بارے میں دس قول نقل کئے ہیں ۔
ایک روایت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے ۔ آپ نے فرمایا ہے وہ اہل کتاب مجوسی تھے جو اپنی کتاب پر عمل کرتے تھے ۔ ان کے باد شاہوں میں سے ایک نے اپنی بہن سے مباشرت کی اور خواہش ظاہر کی کہ بہن سے شادی کو جائز قرار دے ۔ لیکن لوگوں نے قبول نہیں کیا ۔ بادشاہ نے ایسے بہت سے مومنین کو جنہوں نے یہ بات قبول نہیں کی تھی ، جلتی ہوئی آگ کی خندق میں ڈلوادیا ۔۴
یہ فارس کے اصحاب الاخدود کے بارے میں ہے ، شام کے اصحاب الاخدود کے بارے میں بھی علماء نے لکھا ہے کہ وہاں مومنین رہتے تھے اور آنتیا حوس نے انہیں خندق میں جلوایاتھا ۔5
بعض مفسرین نے اس واقعہ کو بنی اسرائیل کے مشہور پیغمبر حضرت دانیال htitr کے اصحاب و انصارکے ساتھ مربوط سمجھا ہے جس کی طرف تورات کی کتاب دانیال میں اشارہ ہواہے اور ثعلبی نے بھی اخدود فارسی کو انہی پر منطبق کیا ہے۔ 6
کچھ بعید نہیں کہ اصحاب ِ اخدود میں یہ سب کچھ اور ان جیسے دوسرے لوگ شامل ہوں اگرچہ اس مشہور مصداق سر زمین ِ یمن کا ذونواس ہی ہے


 

۱۔ حمیر یمن کے مشہور قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا ۔
2۔ تفسیر علی ابن ابراہیم قمی ،جلد ۲ ،ص ۴۱۴۔
3۔ قصص قرآن بلاغی، ص ۲۸۸۔
4۔ تفسیر روح المعانی اور ابو الفتوح رازی زیر بحث آیات کے ذیل میں ۔
5۔ اعلام قرآن ، ص۱۳۷۔ ۱۳۸
6۔ اعلام قرآن ، ص۱۳۷۔ ۱۳۸

۲۔ حفظ ایمان کے سلسلہ میں استقامت  مومنین انسانوں کو جلانے والی بھٹیوں کے سامنے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma