وہ جو شرم و حیاکے باعث اپنانامہ اعمال پشت کی طرف سے لیں گے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
تم ہمیشہ دگر گوں ہوتے رہتے ہو ۲۔ دنیا رنج و تکلیف اور دکھ درد کا گھر ہے

اس بحث کے بعد ، جو گذشتہ آیات میں اصحاب الیمین ( وہ مومنین جن کانامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا) کے بارے میں گزرچکی ہے ، ان آیات میں کفار مجرمین اور ان کے نامہ اعمال کی کیفیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتا ہے :
” باقی رہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کی پشت کی طرف سے دیا جائے گا“ ( و اما من اوتی کتابہ واء ظھرہ)۔ عنقریب وہ فریاد کرے گا کہ وائے ہو مجھ پر کہ میں ہلا ک ہوگیا ( فسوف یدعوا ثبوراً۔ ” اور آگ کے جلانے والے شعلوں میں جلے گا “ (ویصلیٰ سعیراً)۔
یہ کہ ان کے نامہ اعمال کس طرح ان کے پس پشت سے دیں گے اور کس طرح یہ آیت اور وہ آیات جو کہتی ہیں کہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیں ، ایک جگہ جمع ہوں گی، اس سلسلہ میں مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں ۔ بعض نے کہا کہ ان کے دائیں ہاتھ گردن کےساتھ زنجیر سے بندھے ہوں گے اور ان کے نامہ ہائے اعمال بائیں اور پشت کے پیچھے سے ملیں گے جو ذلت و خواری کے سر نیچے رکھنے اور شرمساری کی علامت ہے ۔
بعض دوسرے مفسرین نے کہا ہے کہ ان کے دونوں ہا تھ قید یو ں کے طرح پیچھے باندھ دئیے جائیں گے ۔ بعض دوسروں نے کہا ہے کہ سورہ نساء کی آیت ۴۷ کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہتی ہے :(من قبلی ان نطمس وجوھاً فنرھا علیٰ ادبار ھا)۔ ” اس سے پہلے کہ ہم چہروں کو مٹادیں اور پشت کی طرف پھیر دیں “ اس طرح گروہ مجرمین کے منہ عقب کی جانب مڑ جائیں گے اور ضروری ہے کہ وہ اپنے نامہ ہائے اعمال خود پڑھیں۔ لہٰذاوہ ان کے بائیں ہاتھ میں پشت کی جانب انہیں دیں گے ۔
لیکن زیادہ مناسب یہ ہے کہ کہاجائے کہ اصحاب الیمین سر فرازی اور فخر و مباہات کے ساتھ اپنا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں لیئے ہوئے پکار کر کہیں گے ( ھاوٴم اقرء الکتابیہ) ” اے اہل محشر آوٴ اور میر انامہ اعمال لے کر پڑھو“ ( حاقہ ۔ ۱۹) ۔ لیکن گناہگاروں کو ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیں گے تو وہ شرمساری اور ذلت سے اپنا ہاتھ پشت کے پیچھے کرلیں گے تاکہ جرم کی سند کم تر دیکھی جائے ۔
لیکن فائدہ کچھ نہیں ہوگا اس لئے کہ وہاں کوئی چیز پوشیدہ رہنے والی نہیں ہے ۔ ( یدعوا ثبورا) ، اس کی تعبیر کی طرف اشارہ ہے جو عرب کس خطر ناک حادثہ کے موقعہ پر کرتے ہیں اور فریاد بلند کرتے ہیں ( و اثبوا )،اے وائے کہ میں ہلاک ہو گیا ۔
توجہ فرمائیں کہ ” ثبور“ ہلاکت کے معنی میںہے ۔ لیکن یہ آہ نالہ و فریاد کسی کے کان تک نہیں پہنچے گی ۔ اس کے بعد ( ویصلیٰ سعیراً) ہے یعنی وہ جہنم کے جلانے والی آگ میں داخل ہوگا ۔اس کے بعد اس منحوس سر نوشت کی علت کو بیان کرتے ہوئے فرماتاہے :” یہ اس بنا ء پر ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ہمیشہ اپنے ( کفر و گناہ کی وجہ سے ) خوش رہتا تھا ( انہ کان فی اہلہ مسروراً)، ایسا سرور جس میں غرور کی آمیزش تھی اور ایسا غرور جو غفلت اور خدا سے بے خبری کو اپنے ساتھ لیئے ہوئے تھا ، ایسا غرور جو دنیا کے ساتھ شدید و بستگی اور موت کے بعد والے جہان سے بے پرواہی کی نشانی تھا ۔
واضح رہے کہ ذاتی طور پر سرور و خوش حالی مذموم چیزنہیں ہے بلکہ مومن کو چاہئیے کہ لطفِ خدا سے مسرور ہو اور رہنے سہنے کے انداز میں ہشاش بشاس ہو۔ وہ سرور و خوشی مذموم ہے جو انسان کو یاد خدا سے غافل کردے اور خواہشات کا اسیر بنا کر رکھ دے ۔
اس لئے بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے : ”یہ اس بنا پر ہے کہ وہ گمان کرتا تھا کہ کبھی واپس نہیں لوٹے گا اور معاد و قیامت کا کوئی امکان نہیں ہے “ ( انہ ظن ان لن یحور) ۔ حقیقت میں اس کی بد بختی کا سبب اصلی اس کا اعتقاد فاسد اور گمان باطل تھا ، جس کا دارومدار انکار قیامت پر تھا ۔
یہی اعتقاد اس کے غرور و سرور کا باعث ہوا ، اس نے اس کو خد اسے دور کیا اور خواہشات کا اسیر بنا کر رکھ دیا ، یہاں تک کہ وہ انبیاء کی دعوت فکر کا مذاق اڑاتا اور جب اپنے گھر والوں کے پاس آتا تو اس مذاق سے خوش ہوتا ۔
یہی مفہوم سورہ مطففین کی آیت ۳۱ ( و اذا انقلبوا الیٰ اھلھم انقلبوا فکھین ) میں بھی آیا ہے ۔ اس طرح قارون اس مغرور دولت مند اور خداسے بے خبر انسان کی داستان میں بیان ہوا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے باخبر افراد اس سے کہتے تھے ( لا تفرح ان اللہ لا یحب الفرحین )
اس قدر متکبرانہ طور پر خوش نہ ہو کیونکہ خدا خوش ہونے والے مغروروںکو دوست نہیں رکھتا ( قصص۔ ۷۶)
” لن یحور“ کبھی واپس نہیں لوٹے گا“۔ ” یحور “۔ ” حور“ ( بروزن غور ) کے مادہ سے تردد اور آمد و رفت کے معنی میں ہے ، خواہ یہ آمد و رفت عمل ہو یا فکر و نظر میں ،اسی لئے پانی کے حوض یا تا لاب میں گردش کرنے کے سلسلہ میں اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور محور اس کو کہتے جس کے گرد چرخہ گھومتا ہے ، محاورہ بحث کی آمد و رفت اور ردّ و بدل کے معنی سے ہے اور ” حوار“ بھی انہی معانی میں ہے اور کبھی اس دار کے معنی میں بھی آتاہے جو بحث کے آوزان بلند ہوتی ہے اور تحیر بھی کسی مسئلہ میں فکر کی آمد و رفت کا نتیجہ ہے جس کا لازمہ عمل میں سر گردانی ہے ۔
بعض مفسرین کانظریہ ہے کہ اس لفظ کی اصل حبشی ہے ۔ اور ابن عباس سے نقل ہو اہے کہ میں قرآن کے اس جملے کے معنی نہیں جانتا تھا ، یہاں تک کہ ایک بیابانی عرب سے میں نے سنا کہ وہ اپنی لڑ کی سے کہہ رہا تھا ” حوری “ یعنی واپس آجا ۔۱
اسے ” حور “ کے مادہ سے دھونے اور سفید کرنے کے معنی میں سمجھا ہے ، کیونکہ وہ لوگوں کے دلوں کو شرک و گناہ کے زنگ سے پاک و صاف کرتے تھے ، اور جنت کی حورو ں کو اسی لئے یہ نام دیاگیا ہے کہ ان کا رنگ سفید ہے ، یاان کی آنکھوںکی سفیدی بہت زیادہ ہے ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ جنت کی حوروں کے لئے اس لئے بولا جاتا ہے کہ وہ اس قدر خوبصورت ہیں کہ آنکھ انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے ۔ لیکن بہر حال یہ لفظ زیر بحث آیت میں باز گشت اور معاد کے معنی میں ہے
” جی ہاں ! اس کا پروردگار اس کے بارے میں بینا تھا “ ( بلی ان ربہ کان بہ بصیراً) اس کے تمام اعمال کو لکھوایا اور روز حساب کے لئے ایک نامہ اعمال میں انہیں محفوظ کیا۔ اس آیت کی تعبیر گزشتہ آیت ( یا ایھا الانسان انک کادح الیٰ ربک کد حاً فملاقیہ)کی مانند عقیدہ و معاد پر دلیل و حجت شما رہو سکتی ہے ۔
خصوصاً دونوں آیات میں رب یعنی پروردگار کے عنوان پر انحصار ہو اہے ، اس لئے کہ انسان کی سیر ارتقاء یعنی پروردگار تک پہنچنے کا عمل ، موت کے آنے پر منقطع نہیں ہوتا اور دنیا وی زندگی ہر گز اس قابل نہیں ہے کہ خود مقصودِ تکامل ہو نیز انسان کے اعمال کے بارے میں خدا کا بصیر ہونا اور ان کے اعمال کو تحریر کیاجا نا حسا ب و سزا و جزا کی تمہیدہی بن سکتا ہے ، ورنہ فضول ہے ۔
۱۶۔ فلآ اقسم باشفق۔
۱۷۔ و الّیل وما وسقَ۔
۱۸۔ و القمر اذا اتسقَ۔
۱۹۔ لترکبنَّ طبقاً عن طبقٍ۔
۲۰۔ فما لھم لایومنون۔
۲۱۔ و اذا قریٴ علیہم القرآنُ لا یسجدونَ۔
۲۲۔ بل الذین کفروا یکذبون ۔
۲۳۔ و اللہ اعلم بما یوعونَ۔
۲۴۔ فَبَشِّر ھُم بِعَذَابٍ الیمٍ۔
۲۵۔ اِ لاَّ اٰمنوا و عملوا الصّا لحاتِ لھم اجرٌ غیر ممنونٍ۔
ترجمہ
۱۶۔ شفق کی قسم ۔
۱۷۔ اور رات کی قسم جسے وہ جمع کرتی ہے ۔
۱۸۔ اور قسم ہے چاند کی جبکہ وہ بدر کامل ہوتا ہے ۔
۱۹۔ تم سب ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتے ہو۔
۲۰۔ پس وہ کیوں ایمان نہیں لاتے ؟
۲۱۔ اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جائے تو سجدہ نہیں کرتے ۔
۲۲۔ بلکہ کفار ہمیشہ آیات الہٰی کی تکفیر کرتے ہیں۔
۲۳۔ خدا اس چیز کو جسے وہ دل میں چھپائے رکھتے ہیں ، اچھی طرح جانتا ہے ۔
۲۴۔ پس انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے ۔
۲۵۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے ہیںاور انہوں نے اعمال صالح انجام دئیے ہیں ، تو ان کے لئے ختم نہ ہونے والا اجر ہے ۔


۱۔مفردات راغب، تفسیر فخر رازی ، ابو الفتوح اور دوسری کتب ۔

 

تم ہمیشہ دگر گوں ہوتے رہتے ہو ۲۔ دنیا رنج و تکلیف اور دکھ درد کا گھر ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma