وحی الہٰی اس پر نازل ہوئی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
رسول کی شائستگی کی شرطیںرسول کی شائستگی کی شرطیں۲۔کیا نظام شمسی ختم ہو جائے گا اور ستاروں کے چراغ گل ہوجائیں گے ؟

پر وردگار عالم گذشتہ آیتوں کے بعد، جو قیامت و معاد اور اس کے مقدمات اور محشر کے عظیم دن کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ، ان آیتوں میں قرآن کی حقانیت اور پیغمبر اسلام  کی گفتار کے سچ ہونے کی بحث کو پیش کرتا ہے اور معاد کے بارے میں جو کچھ گزشتہ آیات میں آیا ، حقیقت میں اس کی تائید کرتا ہے اور آگاہی بخشنے والی قسموں کے ساتھ ان مطالب کی تائید کرتا ہے ، پہلے فر ماتا ہے :
” قسم ہے ستاروں کی جولوٹتے ہیں “( فلا اقسم بالخنس) 1اور نظروںسے اوجھل ہو جاتے ہیں“ ( الجوار الکنس
”خنس“۔ ” خانس“ کی جمع ہے ” خنس“ ( بر وزن شمس)کے مادہ سے اصل میں انقباض، باز گشت اور پنہاں ہونے کے معنی میں ہے ۔ اور شیطان کو اس لئے خناس کہتے ہیں کہ وہ خود کو چھپائے رکھتا ہے اور جب خدا کا نام لیا جائے تو وہ منقبض ہو جاتا ہے ۔
جیسے کہ حدیث میں آیاہے : ( الشیطان یوسوس الی العبد فاذا ذکراللہ خنس) شیطان ہمیشہ خدا کے بندوں کو وسوسہ میں ڈالتا ہے لیکن جس وقت خدا کو یاد کریں تو پلٹ جاتا ہے ۔ ۲
” جوار “۔ ” جاریہ “ کی جمع ہے جس کے معنی تیز رفتار کے ہیں ۔ ” کنس“ کانس کی جمع ہے ۔ ” کنس“ ( بر وزن شمس) کے مادہ سے چھپ جانے کے معنی ہیں ۔ اور کناس ( بر وزن پلاس )پرندوںکے گھونسلوں ، ہر نوں اور دوسرے وحشی جانوروں کے چھپنے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔
یہ کہ ان قسموں سے کیا مراد ہے بہت سے مفسرین کا نظریہ ہے کہ اس سے نظام شمسی کے پانچ ستاروں کی طرف اشارہ ہے جو دور بین کے بغیر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ ( عطارد، زہرہ، مریخ ، مشتری، زحل) اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر ہم پے در پے چند راتوں کو آسمان پر نگاہیں لگائیں رکھے تو اس حقیقت کو سمجھنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ آسمان کے ستارے اجتماعی طور پر بتدریج طلوع ہوتے ہیں اور اکھٹے ہی غروب ہو تے ہیں بغیراس کے ان کے فاصلوں میں کوئی تبدیلی رونما ہو۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسے مروارید ہیں جو ایک سیاہ پارچہ پر معین ومقر فاصلوں پر ٹاکے گئے ہیں ۔
اس پارچہ کو ایک طرف سے اوپر لے جاتے ہیں اور دوسری طرف سے نیچے کھینچتے ہیں ، صرف پانچ ستارے ہیں جو اس قانون کلی سے مستثنیٰ ہیں دوسرے ستاروںکے درمیان چلتے پھرتے رہتے ہیں ، گویا پانچ مروارید ٹکے ہوئے نہیں ہیں ۔
اور پارچے پر آزاد قرار دئے گئے ہیں اور وہ لوٹتے پوٹتے رہتے ہیں ۔
یہ وہی مذکورہ بالا پانچ ستارے ہیں جو نظام شمسی کے خاندان کے ارکان ہیں اور ان کی حرکت قریب ہو نے کی وجہ سے ہمیں محسوس ہوتی ہے ورنہ آسمان کے تمام ستارے ہی اس قسم کی حرکات کے حامل ہیں ۔
لیکن چونکہ وہ ہم سے دور ہیں لہٰذا ہم ان کی حرکات کو محسوس نہیں کرتے۔
پھر اس نکتہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ علماء ہیئت نے ان ستاروں کا نام ” نجوم متحیرہ“ رکھا ہے ۔ اس لئے کہ ان کی حرکات خط مستقیم پر نہیں ہے اور اس طرح نظر آتا ہے کہ ایک مدت تک سیر کرتے ہیں پھر تھوڑا سا واپس پلٹتے ہیں ، دوبارہ اپنی سیر شروع کردیتے ہیں جس کے اسباب کے بارے میں علم ہیئت میں بہت سے مباحث ہیں ۔
مندرجہ بالاآیات ہو سکتا ہے اس طرف اشارہ ہوں کہ یہ ستارے حرکت رکھتے ہیں ( الجوار) اور اپنی سیر و حرکت میں رجوع و باز گشت رکھتے ہیں ۔ ( الخنس) اور انجام کا ر سورج کے طلوع کے وقت پنہاں ہو جاتے ہیں ، ان ہرنوں کی طرح جو راتوں میں بیانوں میں اپنی غذا تلاش کرنے کے لئے پھرتے رہتے ہیں اور صبح کے وقت شکاریوں اور وحشی جانوروں کے خوف سے اپنا کناس اور غار میں مخفی ہوجاتے ہیں ۔ ( الکنس)
یہ احتمال بھی ہے کہ کنس سے مراد سورج کی شعاوٴں میں پوشیدہ ہو نا ہے اس اعتبار سے سورج کے گردش کرتے وقت کبھی اس نقطہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ سورج کے قریب ہوجاتے ہیں اور پھر بالکل نظر نہیں آتے جسے علماء نجوم احتراق سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ ایک لطیف نکتہ ہے جو ان ستاروں کی وضع کیفیت کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوتا ہے ۔
بعض مفسرین کو ان ستاروں کے آسمان کے برجوں میں قرار پانے کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔
جو ہرنوں کے اپنے ٹھکانوں میں پنہان ہونے سے مشابہت رکھتا ہے البتہ یہ معلوم ہے کہ نظام شمسی کے سیارے صرف ان پانچ تک محدود نہیں ہیں اور تین دوسرے سیارے اور انوس ، پلولٹوںاور نپٹون بھی موجود ہیں جو صرف صرف ان دور بینوں سے دیکھے جاسکتے ہیں جو ستاروں کو دکھاتی ہیں اور وہ کرہٴ ارض کے ساتھ مل کر نظام شمسی کے نوسیّاروں کو تشکیل دیتے ہیں (البتہ یہ نو سیارے ایک یا کئی چاند رکھتے ہیں جن کا حساب اس جمع سے الگ ہے )۔
جواری “ جو جاریہ کی جمع ہے اور جس کے معنی وہ کشتیاں جو چل رہی ہوں ، ایک لطیف تعبیر ہے جو ان ستاروں کی آسمان کے سمندر میں حرکت اور چلنے کو کشتیوں کے سمندروں اور دریاوٴں میں چلنے سے تشبیہ دیتی ہے ۔
بہر حال قرآن مجید گویا یہ چاہتا ہے کہ ان پر معنی اور ایک قسم کے ابہام کی آمیزش رکھنے والی قسموں کے ساتھ افکار انسانی کو بیدار کرے اور انھیں آسمان کے ستاروں کی عظیم فوج اور دستوںکے درمیان جو ان سیاروںکی مخصوص اور استثنائی وضع و کیفیت ہے اس کی طر ف متوجہ کرے تاکہ ان اجرام ِ فلکی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ غور و فکر کے بعد دماغ انسانی اس عظیم دستگاہ کو عالم وجود میں لانے والے کی عظمت سے آشنا ہو۔
بعض مفسرین نے مندرجہ بالا آیات کی کچھ اور تفسیریں بھی کی ہیں لیکن چونکہ وہ قابل ملاحظہ نہیں لہٰذا ان کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے ۔
ایک حدیث میں جو امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے ، آیاہے کہ آپ  نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا:( ھی خمسة انجم زحل والمشتری و المریخ و الزہرہ و عطارد) وہ پانچ ستارے ہیں زحل ،مشتری، مریخ ،زہرہ اور عطارد۔ 3
پس دوسری مرتبہ قسم کھا کر فرما تاہے :” قسم ہے رات کی جب وہ اپنے اختتام کو پہنچتی ہے ۔ ( و الیل اذاعسعس ) ” عسعس“ ۔ ” عسعسة “ کے مادہ سے اصل میں دقیق اورہلکی تاریکی کے معنی میں ہے اور چونکہ رات کی ابتداء اور انتہا میں تاریکی زیادہ ہلکی ہوتی ہے لہذٰا یہ معنی رات کے پشت پھیرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور لفظ ” عسعس“ کا طلاق رات کو گردش کرنے والے ملازمین پر بھی اسی مناسبت سے ہوتا ہے ۔
جیسا کہ ہم نے کہا ہے اگر چہ لفظ مکمل طور پر دو مختلف معانی رکھتا ہے لیکن یہاں بعد میں آنے والی آیت کے قرینے کے پیش نظر جو صبح کی بات کرتی ہے مراد رات کا اختتام ہی ہے اور حقیقت میں اس قسم کے مشابہ ہے جو سورہ مدثر آیت ۳۳ میں آئی ہے ( و اللیل اذا ادبر )
اصولی طور پر رات جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ہے جو جسم اور روح کے آرام و سکون کا باعث بھی ہے اور حرارتِ آفتاب کے اعتدال اور موجودات کی زندگی کے جاری رہنے کا سبب بھی ہے لیکن اختتام شب پر انحصار ممکن ہے اس بناء پر ہو کہ وہ روشنی اور نور کی طر ف رخ کئے ہوئے ہے اس سے قطع نظر پر وردگار سے منا جات اور عبادت کرنے کے لئے بہترین وقت ہے اور عالم زندگانی کے آغاز و حرکت کا لمحہ ہے ۔
آخر کار تیسری اور آخری قسم کی جانب رخ کرتے ہوئے فرماتاہے :
” قسم ہے صبح کی جب وہ سانس لے“ ( و الصبح اذا تنفس)۔ کیا عمدہ اور جاذب توجہ تعبیرکی ہے ۔ صبح زندہ موجود سے تشبیہ دی ہے کہ اس کے تنفس یعنی سانس لینے کی ابتداء طلوع سپیدہٴ سحری سے ہوتی ہے وہ تمام موجودات میں روحِ حیات پھونکتی ہے ، گویا ایک کالے حبشی لشکر کے ہاتھ اور پاوٴں کے نیچے اس کا سانس رک گیا تھا اور نور و روشنی کی پہلی شعاع کے چمکنے سے اس سے چنگل سے آزاد ہو کر تازہ سانس لینے لگی ہے ۔
یہ تعبیر اس تعبیر کے مشابہ ہے جو سورہٴ مدثر میں رات کی قسم کے بعد آئی ہے جس میں فرماتا ہے : ( و الصبح اذا اسفر) ” قسم ہے صبح کی جب وہ اپنے چہرے سے نقاب ہٹائے ” گویا رات کی تاریکی سیاہ نقاب کے مانند ہے جو صبح کے چہرے پر پڑی ہے ۔ سپیدہٴ سحر کے وقت نقاب ہٹا کر اپنا نورانی اور حیات افزا چہرہ جو زندگی کی نشانی ہے ساری دنیا کو دکھاتی ہے ۔
بعد والی آیت میں اس چیز کو جس کی خاطر یہ ساری قسمیں کھائی گئیں ہیں پیش کرتے ہو ئے فرماتا ہے :
” یقینا یہ قرآن صاحب عزت اور عظیم بھیجے ہو ئے کاکلام ہے ۔( جبرائیل امین ) جسے وہ خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر کی طرف لایا ہے “ ( انہ لقول رسول کریم )۔ یہ ان لوگوں کا جواب ہے جو پیغمبر پر اتہام لگاتے تھے کہ قرآن انہی کا بنایا ہو اہے اور اس کو خدا سے منسوب کر دیا گیا ہے ۔
اس آیت میں اور بعد والی آیت میں جبرائیل امین  ، جو خداکے پیک وحی ہیں ، ان کے پانچ اوصاف بیان ہوئے ہیں ، جو ہر جامع الشرائط بھیجے جانے والے کے لئے لازمی ہیں ۔
اس کی پہلی توصیف کریم ہو نا ہے جو اس کے وجود کی قدر وقیمت کی طرف اشارہ ہے ، جی ہاں ! وہ خدا وند بزرگ کی طرف سے ہے اور قیمتی وجود جا حامل ہے ۔
اس کے بعد کے دوسرے اوصاف پیش کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے : ” وہ صاحب ِ قدر ت ہے اور عرش والے خدا کی بار گاہ میں بلند مقام کا حامل ہے “۔ ( ذی قوة عند ذی عرش مکین ) 4
ذی العرش خد اکی پاک ذات کی طرف اشارہ ہے ، اگر چہ وہ تمام عالم ہستی کا مالک ہے لیکن چونکہ عرش چاہے وہ اس عالم کے معنی میں ہو جو ماورائے طبیعت ہے ، یا خدا کے علم مکنون کے مقام کے معنی میں ہو بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے لہٰذا صاحب عرش کہہ کر اس کی تعریف کی گئی ہے ۔
ذی قوة“ ( صاحب قدرت) کی تعبیر جبرائیل کے بار ے میں اس بناپر ہے کہ اس قسم کے عظیم پیغام کے حصول اور اس کے باریک بینی پر مبنی ابلاغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی رسالت کے حدود میںصاحب قدرت ہو اور بالخصوص ہر قسم کی فراموشی سے مبرا ہو جوابلاغ کی راہ میں حائل ہو۔
مکین اس شخص کے معنوںمیں ہے جو صاحب منزلت و مکانت ہو ، بنیادی طور پر ضروری ہے کہ رسول کی شخصیت عظیم ہو تاکہ خدا کی رسالت اور نمائندگی کا فریضہ انجام دے سکے اور مقرب بار گاہ الہٰی ہو ، اور یہ مسلم ہے کہ عند کی تعبیر حضور مکانی کے معنوں میں نہیں ہے ، وہ اس لئے کہ خدا کو ئی مکان نہیں رکھتا۔ اس سے مراد حضور ِ معنوی ہے ۔
چوتھی اور پانچویں توصیف میں کہتا ہے ”وہ فرشتوں کا فرمانروا اور مطاع ہے “( مطاع ثم امین)۔ ثَمّ کی تعبیر جو اشارہ بعید کے لئے استعمال ہو تی ہے اس حقیقت کو پیش کرتی ہے کہ پیک وحی ِ الٰہی عالم فرشتگان میں موردِ اطاعت ہے اور ان تمام چیزوں سے قطع نظر پیام الہٰی کے ابلاغ میں انتہائی امین ہے ۔
روایات سے معلوم ہوتاہے کہ کبھی کبھی جبرائیل امین قرآن کے پہنچانے کے سلسلہ میں فرشتوں کے ایک عظیم گروہ کے ہمراہ آتے تھے اور یقیناً ان کے درمیان مطاع تھے ، یعنی سب فرشتے ان کی اطاعت کرتے تھے اور ایک رسول و سفیر کے لئے ضروری ہے کہ اس کے تمام ہمراہی اس کی اطاعت کرتے ہوں ۔
ایک حدیث میں آیاہے کہ ان آیات کے موقع پر پیغمبراکرم نے جبرائیل امین سے فرمایا:
مااحسن انثنی علیک ربک : ذی قوة عند العرش مکین مطاع ثم امین فما کانت قوتک؟ وما کانت امانتک؟
تیرے پروردگار نے تیری کیاہی عمدہ تعریف کی ہے کہ فرمایا ہے صاحب قدرت ہے اور صاحبِ عرش خدا کے ہاں قرب رکھتا ہے اور وہاں فرمانرواہے اور امین ہے ۔
لہٰذا اپنی قدرت و امانت کا نمونہ پیش کر ۔
تو جبرائیل نے جواب میں عرض کیا ” میری قدرت کا نمونہ یہ ہے کہ میں قوم لوط کے شہروں کی تباہی پرمامور ہوا وہ چار شہر تھے اور ہر شہر میں چار لاکھ جنگجو افراد موجود تھے ان کی اولاد اس کے علاوہ تھی میں نے ان شہروں کو اٹھا لیا اور میں انہیںآسمان کی طرف لے گیا یہاں تک کے آسمان کے فرشتے ان کے جانوروں کی آواز سننے لگے ۔ پھر انہیں زمین کی طرف لایا اور انہیں زیر و زبر دکریا ۔
” باقی رہا میری امانت نمونہ تو یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا نہیں کہ جو مجھے دیا گیا ہو اور اس میں میں نے معمولی ساتجاوز بھی کیا ہو“۔5
اس کے بعد لوگ وہ ناروا نسبت ، جو پیغمبر کی طرف دیتے تھے ، اس کی نفی کرتے ہو ئے فرماتاہے :
تمہارا صاحب دیوانہ نہیں ہے (وماصاحبکم بمجنون
” صاحب “ کی تعبیر جو ہمیشہ ساتھ رہنے والے رفیق، دوست اور ہم نشین کے معنی میں ہے علاوہ اس کے کہ پیغمبر تمام لوگوںکے ساتھ اخلاق و تواضع سے پیش آتے تھے اور کبھی کسی کے مقابلہ میں بر تری کا دعوی نہیں رکھتے تھے ۔
اس بات کی طرف اشارہ کہ آپ نے سالہا سال تمہارے درمیان زندگی گذاری اور تمہارے ہم نشین رہے ہیں اور تم نے انہیں عاقل و امین دیکھا ہے اور سمجھا ہے تو اب کس طرح ان کی طرف جنون کی نسبت دیتے ہو ، سوائے اس کے کہ وہ بعثت کے ساتھ ایسی تعلیمات اپنے ہمراہ لائے ہیں جو تمہارے تعصبات ، ہواو ہوس اور کورانہ تقلید کے ساتھ ساز گار نہیں ہیں ۔
لہٰذا اس خیال سے کہ تم اپنے کو ان کے قوانین اور احکامات کی اطاعت سے بچائے رکھو ، اس قسم کے اتہام ان پر لگاتے ہو ۔ ، جنون کا الزام ان تمام الزامات میں سے ایک ہے جو، آیات قرآن کے کے مطابق ، خدا کی طرف سے آئے ہوئے پیغمبروں پر ہٹ دھرم دشمنوں کی طرف سے لگائے گئے ۔
(وکذالک الذین من قبلھم من رسول الا قالوا ساحرا و مجنون )
بات اس طرح ہے کہ ان سے پہلے کوئی پیغمبر کسی قوم کی طرف نہیں بھیجا گیا مگر یہ کہ اس نے کہا کہ یہ ساحر اور جادو گر ہے یا دیوا نہ ہے ۔ ( ذاریات ۔ ۵۲)۔
ان کی منطق میں عاقل وہ شخص تھا جو فاسد ماحول میں گھل مل جائے اور ویسی ہی خواہشات کی پیروی کرے ۔ جدھر کی ہوا ہو ادھرکو چلے اور ہر اصلاحی و انقلابی تحریک سے بے تعلق رہے ۔اس معیار اور ضابطے کے مطابق دنیا پرستوں کی تاریک نگاہ میں تمام پیغمبر دیوانے تھے ۔
اس کے بعد پیغمبر اسلام نے جبرائیل امین سے ارتباط کی تاکید کے لئے مزید فرماتاہے :”اس نے یقینی طور پر جبرائیل کا واضح اور آشکار افق میں مشاہدہ کیا ہے ،،۔(ولقد راٰہ بالافق المبین
افق مبین سے مراد وہی افق اعلیٰ اور فرشتوں کو آشکار کرنے والا افق ہے جس میں پیغمبر اکرم نے جبرائیل کا مشاہدہ کیا۔
بعض مفسرین نے سورہ نجم کی آیت ۷ کو جس میںہے ( وھو بالافق اعلیٰ )اس تفسیر پر شاہد سمجھا ہے لیکن جیسا کہ سورہٴ نجم کی تفسیر میں ہم بیان کرچکے ہیں ۔
کہ یہ آیت اس سورہ کی باقی آیات کی طرح ایک دوسری حقیقت کو بیان کرتی ہے جو اس کی طرف رجوع کرنے سے واضح ہو گی ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ پیغمبر نے جبرائیل امین کا ان کی اصلی شکل و صورت میں دوبارہ مشاہدہ کیا ۔ایک دفعہ آغاز بعثت میں کہ جبرائیل آنحضرت کے سامنے افق بالا پر ظاہرہوئے اور تمام مشرق و مغرب کو ڈھانپ لیا اور دوسری مرتبہ معراج میں کہ پیغمبر نے انھیں اوپر والے آسمان میں ان کی اصلی صورت میں دیکھا اورمفسرین زیر ِ بحث آیت میں اسی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔
یہ احتمال بھی ہے خدا کی مراد ایسا مشاہدہ ہو جو شہود باطنی کے لحاظ سے ہو ۔مزیدوضاحت کے لئے جلد ۲۲ ،ص ۴۸۶سے آگے سورہ نجم کی آیت ۵ تا ۱۳ کی طرف رجوع فرمائیے۔
اس کے بعد مزید فرماتا ہے :” پیغمبر اس چیزکے بارے میں جو اس نے بطریق وحی عالم غیب سے حاصل کی ہے بخیل نہیں ہے “۔
( وماھو علی الغیب بضنین )۔ ہر چیز بے کم و کاست بند گان کے اختیارمیں دے دیتا ہے ۔
وہ بہت سے دوسرے لوگوں کے مانند نہیں کہ جب کسی اہم حقیقت پر دسترس حاصل کرلیتے ہیں تو اس کو چھپانے پر اصرار کرتے ہیں
اور اکثر اس کے بیا ن پر بخل سے کام لیتے ہیں اور بسا اوقات ان معلوم مات کو اپنے ساتھ قبر میں لے جاتے ہیں ۔
پیغمبر  ایسے نہیں ہیں وہ پورے جود و سخا کےساتھ ، جو کچھ حاصل کرتے ہیں اسے تمام ضرورت مندوںکے سامنے بیان کردیتے ہیں حتیٰ کہ انھیں بھی بتا دیتے ہیں جو بلندی اور قرب کے قائل ہی نہیں ہیں اس امید پر کہ شاید ہدایت حاصل کریں اور راہ حق کو حاصل کریں ۔
ضنین “۔” ضنّہ“ (بروزن منّہ)نفیس اور قیمتی اشیاء کے بارے میں بخل کرنے کے معنی میں ہے اور ایہ ایک عیب ہے جوکبھی کسی پیغمبر میں نہیں ہوتا۔ اور اگر دوسرے افراد اپنے علوم کے بارے میں ایسے عیب کا شکار ہیں تو ہوا کریں۔ پیغمبر ، جس کے علم کا سر چشمہ علم ِخدا کا بیکراں سمندر ہے ، اس قسم کی باتوں سے مبرا ہے
پرورگارِ عالم مزید فرماتا ہے : ” اور وہ شیطان رجیم کی کہی ہوئی بات نہیں ہے “ ( وما ھوبقول شیطان الرجیم
یہ آیات قرآنی ہر گز کاہنوںکی باتوںکی طرح نہیں ہیں جو شیاطین سے تعلق کی وجہ سے معلوم کر لیتے تھے ، اور پھر اس حقیقت کی نشانیاں اس کے کلام سے ظاہر ہیں ۔
اس لئے کہ کاہنوں کی باتیں جھوٹی ہو تی تھیں۔ ان میں بہت سے شبہات ہوتے تھے اور وہ غلطیوں کی آمیزش سے ملوث ہوتی تھیں ، اور شیطانی میلانات و خواہشات کے گرد گھومتی تھیں ، اس چیزکا قرآن مجید سے کوئی تعلق نہیں
یہ حقیقت میں ان کی تہمت کا جواب ہے ۔ مشرکین کہتے تھے کہ پیغمبر ( معاذ اللہ ) کاہن ہیں اور جو کچھ وہ لائے ہیں انھوںنے شیاطین سے لیا ہے ، حالانکہ شیطانی باتیں گمراہ کن ہو تی ہیں اور قرآنی آیات سراسر نور ِ ہدایت اور روشنی ہیں اور یہ حقیقت قرآنی آیات کو دیکھتے ہی ثابت ہو جاتی ہے ۔
لفظ” رجیم “ اصل میں رجم اور ” رجام “ ( بروزن لجام ) کے مادہ سے پتھر کے معنی میںلیا گیا ہے ۔ اس کے بعد قسم کے بعد ہر قسم کے دور کرنے کے معنی میں آیاہے اور شیطان رجیم سے مراد یہاں یہی معنی ہیں ، یعنی وہ شیطان جو بار گاہ خدا وندی سے نکالا گیاہے



۱۔ یہ کہ لا اقسم میں ” لا نافیہ ہے یا زائد اور تاکید کے لئے ہے مفسرین نے اس سلسلہ میں کئی بحثیں کی ہیں اور چونکہ سورہٴ قیامت کی ابتداء میں اسی جلد میں اس عنوان پر ہم بحث کر چکے ہیں لہٰذا تکرار کی ضرورت نہیں ۔
۲۔لساب العرب مادہ خنس۔
3۔ مجمع البیان ، جلد۱۰ ص۴۴۶۔
4۔ ” مکین “ ۔” مکانت“کے مادہ سے مقام و منزلت کے معنوں میں ہے اور جیسا کہ راغب کے مفردات میں کلمات سے اور دوسرے مفسرین سے معلوم ہوتا ہے یہ اصل میں کون کے مادہ سے اسم مکان ہے ، اس کے بعد کثرت استعمال کی بناپر اسے مادہ فعل کے برابر قرار دیا گیا ہے اور تمکن اس سے مشتق ہوا ہے ، تمسکن کی طرح جو سکون کے مادہ سے ہے ۔
5۔ مجمع البیان، جلد۱۰،ص ۴۴۶۔ یعنی مضمون تفسیر در المنثور میں بھی زیر بحث آیات کے ذیل میں آیاہے ۔
 

 

رسول کی شائستگی کی شرطیںرسول کی شائستگی کی شرطیں۲۔کیا نظام شمسی ختم ہو جائے گا اور ستاروں کے چراغ گل ہوجائیں گے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma