۲۔کیا نظام شمسی ختم ہو جائے گا اور ستاروں کے چراغ گل ہوجائیں گے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
وحی الہٰی اس پر نازل ہوئی ۱۔نظم آیات

ہر چیز سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہئیے کہ ہمارے نظام شمسی کا یہ حیات بخش مرکز جسے ہم سورج کہتے ہیں آسمان کے باقی رہنے ستاروں کی بہ نسبت اگر چہ یہ متوسط ستارہ ہے لیکن اپنی ذات کی حد تک اور کرہٴ زمین کی نسبت بہت بڑا ہے ۔
ماہرین کی تحقیقق اور ان کے مطالعوں کے مطابق اس حجم کا ایک ملین اور تین کروڑ گنا زمین کے مقابلہ میں ہے البتہ یہ چو نکہ ہم سے تقریباًایک سو پچاس ملین کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے لہٰذا وہ موجود حجم میں نظر آتاہے ۔
سورج کی عظمت و وسعت کی تصویر کشی کے لئے یہی مقدار کا فی ہے کہ اگر چاند اور زمین کو اس فاصلہ کے ساتھ جو اس وقت ان دونوںکے درمیان ہے سورج کے اندرمنتقل کردیں تو چاند آسانی کے ساتھ زمین کے گردگردش کر سکتا ہے بغیراس کے کہ وہ سورج کی سطح سے خارج ہو ۔
سورج کی سطح کی حرارت چھ ہزار سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے اور اس کے عمق کی حرار ت کئی ملین درجوں سے زیادہ ہے ۔ اگر چہ ہم چاہیں کہ سورج کے وزن کو ٹنوں کے حساب سے بیان کریں تو ضروری ہے کہ ہم دو کا عدد لکھیں اور ستائیس صفراس کے آگے لگائیں یعنی دو ارب ارب ارب ٹن۔
سورج کی سطح سے شعلہ بلند ہوتے ہیں جنکا ارتفاع کبھی تو ایک سوساٹھ ہزار کلو میڑ ہو تا ہے اور کرہٴ زمین اس کے اندر آسانی سے گم ہوسکتاہے ، چونکہ زمین قطرہ بارہ ہزار کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے ، باقی رہا سورج کی نورانی روشنی دینے والی طاقت کا سرچشمہ، اس کے بر عکس جو بعض ماہرین نے طے کر کھا ہے ، وہ چلنے سے پید ا نہیں ہوتا ۔
جارج گاموف اپنی کتاب ” سورج کی پیدائش اور اس کی موت“ میں لکھتاہے کہ اگر سورج کا جسم خالص پتھر کے کوئلے سے بناہوتا اور مصر کے پہلے فرعون کے زمانے میں اسے آگ لگائی گئی ہوتی تو ضروری تھاکہ وہ اب تک سب جل چکا ہو تا اور خاک کے سوا کوئی چیز باقی نہ بچی ہوتی اور کسی قسم کے دوسرا جلنے والا مادہ اگر پتھر کے کوئلے کی جگہ ہم فرض کریں تووہ بھی یہی اشکال رکھتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جلنے کا مفہوم سورج پر صادق نہیں آتا۔ اس میں جو کچھ ہے وہ ایٹمی تجربوں سے حاصل شدہ طاقت ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ طاقت ( انرجی) بہت زیادہ اور بڑی ہے اس بناء پر سورج کے ایٹم انرجی کی تبدیلی میں مصروف ہیں جو ماہرین کے حساب کے مطابق ہر سیکنڈ میں چار ملین ٹن کم ہوجاتے ہیں مگر سورج کا حجم اتنا بڑا ہے کہ ہزار ہا سال گزرنے کے باوجود اس پر کو ئی اثر نہیں پڑتا اور اس کیفیت و وضع میں معمولی سا تغیر بھی واقع نہیں ہوتا۔
لیکن جاننا چاہئیے کہ یہی چیز ایک مدت دراز کے بعد سورج کے فنا ہو جانے کا سبب بنے گی اور آخر کار یہ جرم عظیم لاغر، کمزور، پتلا اور بے نور ہو جائے گا ۔ اور یہی چیز ستاروں پر بھی صادق آتی ہے ۔ ۱
اس بنا ء پر جو کچھ اوپر والی آیات میں سورج کے تاریک ہونے اور ستاروں کے بکھر جانے کے سلسلہ میں آیاہے وہ ایسی حقیقت ہے جو مو جودہ زمانے کے علم کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور قرآن نے اس وقت ان حقایق کو بیان کیا ہے جب نہ صرف جزیرة العرب کے ماحول میں بلکہ اس زمانے کی علمی دنیا کی محفلوں میں بھی ان مسائل کی کوئی خبر نہیں تھی ۔
۵۔ فلآ اُقسم بالخنس۔
۱۶۔ الجوار الکنّس ۔
۱۷۔ و الیل اذا عسعس۔
۱۸۔ و الصبح اذا تنفَّس۔
۱۹۔ انّہ لقولُ رسول کریم ٍ
۲۰۔ ذی قوةٍ عند ذی العرش مکینٍ
۲۱۔ مطاعٍ ثم امینٍ
۲۲۔ وما صاحبکم بمجنونٍٍٍٍٍٍٍ
۲۳۔ ولقد راٰہ بالافق المبین
۲۴۔ وما ھو علی الغیب بضنینٍ
۲۵۔ وما ھو بقول شیطان رجیم ٍ

ترجمہ
۱۵۔ قسم ہے ان ستاروں کی جو پلٹ آتے ہیں ۔
۱۶۔ چلتے ہیں اور نگاہوں سے چھپ جاتے ہیں ۔
۱۷۔ اور قسم ہے رات کی جب وہ پشت پھیرے اور آخر کو پہنچ جائے۔
۱۸۔ اور صبح کی جب وہ تنفس کرے۔
۱۹۔ کہ یہ قرآن باعظمت بھیجے ہوئے کا کلام ہے ( جبرائیل امین )۔
۲۰۔ جو صاحب قدرت ہے اور صاحب عرش خدا کے ہاں بلند مقام کا حامل ہے ۔
۲۱۔ فرمانروا اور امین ہے ۔
۲۲۔ اور تمہارا ساتھی( پیغمبر) دیوانہ نہیں ہے۔
۲۳۔ اس نے اُس کو ( جبرائیل کو)روشن افق میں دیکھا ۔
۲۴۔ وہ اس کے بارے میں جسے اس نے وحی سے حاصل کیا ہے بخیل نہیں ہے ۔
۲۵۔ یہ قرآن شیطان ِ رجیم کا قول نہیں ہے ۔

 


 

۱۔ اقتباس از کتب” پیدائش و مرگ خورشید“ و نجوم بی تلسکوب“ اور ” ساختمان خورشید

 

 

وحی الہٰی اس پر نازل ہوئی ۱۔نظم آیات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma